کیا شام نیا افغانستان بنے گا؟


\"edit\"امریکہ اور حلیف ملکوں کے تعاون اور کئی ماہ کی منصوبہ بندی کے بعد سوموار کو عراقی افواج نے صوبہ نینوہ کے دارالحکومت اور ملک کے دوسرے بڑے شہر موصل کو داعش سے آزاد کروانے کیلئے جنگ کا آغاز کیا ہے۔ 30 ہزار عراقی افواج میں شیعہ ملیشیا کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ کردپیش مارگا بھی عراقی فوج کے شانہ بشانہ موصل کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ کردپیش مارگا نے ہی عراق میں داعش کے حملہ اور موصل پر قبضہ کے بعد مزاحمت کی تھی اور اس کے جنگجوؤں کو کرد علاقوں میں داخل ہونے سے روکا تھا۔ اس کے علاوہ ساڑھے پانچ ہزار امریکی فوج ماہرین بھی عراقی حملہ میں تعاون فراہم کر رہے ہیں۔ امریکہ کی سرکردگی میں داعش کے خلاف سرگرم عالمی اتحاد کی فضائیہ بھی عراقی افواج کو مدد فراہم کرے گی۔ موصل پر داعش نے 2014 میں قبضہ کیا تھا اور اسلامی خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس شہر میں پندرہ لاکھ کے لگ بھگ شہری ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت امداد فراہم کرنے والے اداروں کا خیال ہے کہ عراقی افواج کے حملہ کے دوران چھ سے سات لاکھ شہری گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف روانہ ہو سکتے ہیں۔ یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ داعش کے جنگجو موصل کی حفاظت کیلئے شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کریں گے۔

امریکی فوج ذرائع اس بارے میں پرامید ہیں کہ اس منظم حملہ کے نتیجہ میں موصل کو داعش سے آزاد کروا لیا جائے گا۔ اندازہ ہے کہ دولت اسلامیہ کے 6 ہزار کے لگ بھگ جنگجو موصل کا دفاع کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے مورچے بنا لئے ہیں۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا ہے کہ نینوہ کے متعدد دیہات کو داعش کے قبضہ سے آزاد کروا لیا گیا ہے لیکن جوں جوں عراقی حملہ آور فوج موصل کے نزدیک پہنچے گی، توں توں خوں ریزی اور خطرات میں اضافہ ہو گا۔ سب سے زیادہ اندیشہ اس بات کا ہے کہ اس جنگ میں لاتعداد شہری کام آئیں گے۔ وہ داعش کا نشانہ بھی بن سکتے ہیں اور اتحادی ائر فورس کے بموں کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ عسکری ماہرین بتا رہے ہیں کہ یہ جنگ مشکل ، پیچیدہ اور طویل ہو گی۔ یہ چند ہفتوں سے لے کر کئی ماہ تک پھیل سکتی ہے۔ داعش کے جنگجوؤں کے بارے میں خیال ہے کہ انہیں جنگ کا طویل تجربہ ہے اور مرنے یا مارنے کے لئے لڑتے وہ لڑتے ہوئے مرنے اور مارنے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ کسی قیمت پر ہتھیار نہیں پھینکیں گے۔ جنگ کے ابتدائی دو دنوں میں عراقی فوج پر خودکش حملوں کی خبروں سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ داعش کے دہشت گرد موصل پر قبضہ برقرار رکھنے کیلئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ دو باقاعدہ افواج کے درمیان جنگ نہیں ہے بلکہ ایک گروہ دہشت گردی کے ذریعے علاقوں پر قبضہ اور لوگوں کو قیدی بناتا رہا ہے۔ داعش نے جن علاقوں پر قبضہ کیا وہاں اقلیتوں کو تہہ تیغ کرنے کے علاوہ مسلمان آبادیوں کو بھی سخت حدود و قیود کا پابند کیا ہے۔ احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو عبرتناک اور وحشیانہ سزائیں دی جاتی ہیں۔

قیاس کیا جا رہا ہے کہ موصل کو آزاد کروانے کے بعد داعش کی کمر توڑ دی جائے گی۔ عراق پر اس کا تسلط ختم ہو جائے گا۔ اس کے جنگجوؤں کو یا تو مار دیا جائے گا یا وہ راہ فرار اختیار کر جائیں گے۔ اگرچہ فی الوقت اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے کہ داعش کے جنگجو پسپائی کی صورت میں کہاں جائیں گے اور ان سے کیسے نمٹا جائے گا۔ تاہم یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ ان کی منزل شام کے علاقے ہوں گے جہاں دولت اسلامیہ نے رقہ کو اپنا صدر مقام بنا رکھا ہے۔ موصل سے بھاگ کر شام پہنچنے والے داعش کے جنگجوؤں کی صورت میں شام کی خانہ جنگی طویل اور خونی ہو سکتی ہے۔ یورپی یونین کے سکیورٹی کمشنر جولین کنگ نے یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ موصل سے فرار ہونے والے بعض جہادی یورپ کا رخ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ اندیشہ اس بنیاد پر بھی اہمیت رکھتا ہے کہ داعش کے نام سے لڑنے والے گروہوں میں یورپ سے جانے والے ہزاروں جہادی بھی شامل ہیں۔ اس لئے موصل کی جنگ کے نیتجے میں یورپ میں دہشت گردی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ لوگ شام روانہ ہوں گے جہاں بشار الاسد کی حکومت روس کے تعاون سے باغی مسلح گروہوں اور مختلف ناموں سے سرگرم جہادی گروپوں کے خلاف برسر جنگ ہے۔ دمشق حکومت کے خلاف لڑنے والے گروہوں میں سب سے طاقتور داعش ہے اور عراق سے بھاگ کر آنے والے جنگجوؤں کے بعد اس کی قوت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ وہ فیصلہ کن جنگ کیلئے مختلف چھوٹے چھوٹے جہادی گروہوں کے ساتھ اشتراک بھی کر سکتے ہیں۔ اس حکمت عملی کا مظاہرہ 2013 -14 کے دوران بھی کیا گیا تھا۔ داعش ان دنوں عراق سے جا کر شام کی خانہ جنگی میں شریک ہوئی تھی اور جلد ہی اس نے اپنی جنگی حکمت عملی سے دیگر گروہوں کو پچھاڑ کر وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ فری سیرین آرمی جسے امریکہ اور عرب ملکوں کی حمایت حاصل رہی ہے، بھی داعش یا دیگر جہادی گروہوں کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہے۔ کیوں کہ ان کا مشترکہ مقصد دمشق میں بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرنا ہے۔

شام میں اس وقت دنیا کے 86 سے زائد ملکوں سے آئے ہوئے 30 سے 40 ہزار جنگجو موجود ہیں۔ ان میں بعض گروہ شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت میں بھی جنگ کر رہے ہیں لیکن غیر ملکی جنگجوؤں کی بڑی تعداد داعش یا دیگر اسلامی جہادی گروہوں کے ساتھ مل کر جنگ میں مصروف ہے۔ یہ غیر ملکی جنگجو ہی دراصل داعش کی اصل قوت ہیں لیکن بشار الاسد کی حمایت میں ایران کی قدس فورس بھی مصروف عمل رہی ہے۔ وہ متعدد ملکوں کے رضا کاروں یا مقامی شہریوں کو عسکری تربیت دے کر مسلح گروہوں کی صورت میں باغی گروپوں اور داعش کے خلاف لڑنے کیلئے تیار کر رہی ہے۔ بدنصیبی سے امریکہ اور روس شام میں جنگ بندی اور بحالئ امن کے کسی منصوبے پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ موثر جنگ بندی سے قبل ملک میں کوئی ایسا سیاسی فارمولا تلاش کرنا ممکن نہیں ہے جس پر سارے گروہ اور بڑی طاقتیں متفق ہو جائیں۔

امریکہ اور عرب ملکوں کے تعاون سے قوت پکڑنے والے باغی 2011 سے بشار الاسد کے خلاف جہدوجہد کر رہے ہیں۔ ان گروہوں کے علاوہ داعش کی فوجی قوت کی وجہ سے دمشق کی حکومت مسلسل پسپا ہو رہی تھی۔ اس کی فوج کا حوصلہ پست ہو چکا تھا اور خیال تھا کہ جلد یا بدیر بشار الاسد کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑے گا۔ امریکہ کی سرکردگی میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف عالمی رائے تیار کی جا چکی تھی۔ اس حکومت کی چیرہ دستیوں کی وجہ سے ملک کی آبادی پہلے ہی برگشتہ تھی۔ تاہم گزشتہ برس کے آخر میں روس نے بشار الاسد کی حمایت میں فضائیہ کے علاوہ فوج بھیجنے کا بھی فیصلہ کیا۔ روسی فوج تو چند ماہ بعد واپس بلا لی گئی لیکن روس کی امداد سے اب شام کی سرکاری فوج طاقتور اور حوصلہ مند ہو چکی ہے۔ امریکہ اور اس کے حلیف عرب ملکوں کو شام پر کسی صورت بشار الاسد کی حکومت منظور نہیں ہے۔ اسی لئے داعش کی صورت میں پوری دنیا کیلئے خطرہ بننے والے دہشت گرد گروہ کی پیش قدمی اور قوت کے باوجود ابھی تک اس ایک نکتہ پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے کہ پہلے داعش اور جہادی گروہوں کا صفایا کر لیا جائے ، اس کے بعد شام کی حکومت اور اس کے باغی گروہوں کے درمیان معاملات طے کروا لئے جائیں گے۔ اس کے برعکس روس اگر بشار کی فوج کی اعانت کر رہا ہے تو امریکہ باغیوں کو کمک فراہم کرنے اور سیاسی و سفارتی امداد دینے میں مصروف ہے۔

حلب میں گزشتہ چند ماہ سے جاری جنگ سے اس المیہ کی سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ حلب کے مشرقہ حصہ پر باغی گروہوں کا قبضہ ہے جبکہ باقی شہر شامی حکومت کے زیر تسلط ہے۔ روسی امداد سے ملنے والی قوت اور ایران کی امداد سے تیار کئے گئے ملیشیا گروہوں کی مدد سے شام کی حکومت اب حلب پر قبضہ بحال کرنا چاہتی ہے اور اس مقصد کیلئے پوری قوت سے جنگ کی جا رہی ہے۔ اس وقت باغیوں کے قبضہ میں جو علاقہ ہے اس میں اڑھائی تین لاکھ شہری موجود ہیں۔ نہ شام ان لوگوں کی حفاظت کے نقطہ نظر سے جنگ روکنے پر تیار ہے اور نہ ہی باغی گروہ شہر سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ حالانکہ شام کی فوج نے اس علاقے میں موجود ایک سے دو ہزار کے لگ بھگ جنگجوؤں کو محفوظ راستہ Safe Passage دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔ امریکہ اور روس کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں دو مرتبہ جنگ بندی کروائی گئی ہے لیکن دونوں بار یہ جنگ بندی چند روز سے زیادہ کارآمد نہیں رہی۔ آخری جنگ بندی اقوام متحدہ کے امدادی قافلے پر روسی طیاروں کے حملہ کے بعد ختم ہوئی ہے۔ روس اس الزام سے انکار کرتا ہے لیکن امریکہ کا اصرار ہے کہ روسی فضائیہ نے جان بوجھ کر امداد لے جانے والے ٹرکوں پر حملہ کیا تھا، اس لئے روس کے خلاف جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں مقدمہ چلنا چاہئے۔

دنیا کی دونوں بڑی طاقتیں پراکسی قوتوں کے ذریعے شام میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے پنجہ آزمائی کر رہی ہیں۔ اس صورت میں اگر داعش کے مزید کئی ہزار جنگجو بھی موصل اور عراق کے مختلف علاقوں سے فرار ہو کر شام پہنچیں گے تو اس جنگ میں شدت آنے کا امکان ہے۔ یہ جنگ طویل اور مشکل ہو سکتی ہے اور اس کی قیمت شام کے بدنصیب عوام کو اپنے لہو سے ادا کرنا پڑے گی، جو ایک طرف داعش کے پنجے میں جکڑے ہوئے ہیں تو دوسری طرف روس اور امریکہ کی متحارب گروہوں کو مدد دینے کے نتیجہ میں چاروں طرف سے گولہ و بارود کی زد میں ہیں۔ امریکہ نے ابھی تک بشار الاسد اور داعش کے خلاف بیک وقت جنگ کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اس پالیسی میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ عراق سے جنگجو جہادی گروہوں کے صفایا کے بعد شام پوری طرح جنگ کی لپیٹ میں ہو گا۔ ماضی قریب کی طرح شام کی حکومت داعش اور باغی گروہوں کا مشترکہ نشانہ ہو گی۔ اس لئے خواہ امریکہ کی طرف سے کتنی ہی تردید کی جائے، اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دونوں گروہ آپس میں تعاون کریں گے اور اپنے اپنے محاذ سے بشار الاسد کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ شام کی فوج روسی امداد ملنے کے بعد مقابلہ کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتی ہے۔ اس لئے یہ اندیشہ ہے کہ شام میں افغانستان کے باغی طالبان کی طرح حکومت مخالف عسکری گروہ منظم ہوں گے اور طویل جنگ کیلئے پوزیشن سنبھالیں گے۔

اپنے اپنے سیاسی موقف کے مطابق دنیا کے لوگ امریکہ یا روس کو مورد الزام ٹھہرا سکتے ہیں۔ لیکن دونوں ملک فی الوقت اپنے پسندیدہ گروہ یا حکومت کی مدد کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ موصل کی واگزاری سے اگر عراق کے لاکھوں لوگ سکھ کا سانس لے سکیں گے تو شام میں جنگ کے بڑھتے ہوئے شعلے بدستور دہشت گرد گروہوں کو قوت فراہم کرتے رہیں گے۔ اس لئے یہ سمجھ لینا خوش فہمی ہو گی کہ موصل سے پسپائی کی صورت میں داعش کی کمر ٹوٹ جائے گی اور اس خطرناک دہشت گرد گروہ کا جلد ہی خاتمہ ہو جائے گا۔ بلکہ بڑی طاقتوں نے افغانستان سے سبق سیکھتے ہوئے باہمی تعاون کے ذریعے شام میں مکمل جنگ بندی اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف مل کر جنگ کرنے کا قصد نہ کیا تو شام میں داعش افغانستان میں طالبان کی طرح قوت پکڑیں گے۔ فوری طور پر شام کی خانہ جنگی میں شدت پیدا ہو گی اور اگر مستقبل میں کبھی کوئی سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو داعش کو بھی اس میں شامل کرنا پڑے گا، جو بدلتے ہوئے حالات اور ضرورت کے مطابق کسی نئے نام سے سامنے آ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments