کتا بچاؤ مہم کون چلائےگا؟


\"usman کراچی کی میونسپل انتظامیہ نے 18اکتوبر کو ایک ہزار آوارہ کتوں کو زہر دے کر ہلاک کردیا، انتظامیہ کے نزدیک یہ کتے انسانوں کے لیے ضرررساں تھے

 خدا کی پیدا کردہ ایک ایسی مخلوق جو احساس رکھتی ہے، اسے زہردے کر بے رحمی سے ہلاک کردینا ایک غیرانسانی فعل ہےجبکہ وہ بےزبان ہیں، وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی شکایت بھی نہیں کرسکتےاور بے زبانوں پر ظلم انسانیت کے شایان شان نہیں

 پاکستان میں انسداد  بے رحمی حیوانات کا قانون بھی موجود ہے، 1890 میں بننے والے اس قانون کے تحت کسی بھی جانور سے بے رحمی کے ساتھ پیش آنا قابل تعزیر جرم ہےجس کی کم ازکم سزا50روپے جرمانہ یا ایک ماہ قید ہےاور اگر کوئی مجرم تین سال کے عرصے میں دوبارہ یہ جرم کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اسے تین ماہ کے لیے جیل میں ڈالا جائے گایا 100روپے جرمانہ ہوگا

 پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 429کے تحت کسی بھی جانور کو ہلاک کرنا، معذوریا ناکارہ کرنا مجرمانہ فعل ہے، اس کی سزا جرمانے کے ساتھ پانچ سال قید ہے

  قیام پاکستان کے بعد سے اب تک اس قانون کے تحت کسی ایک کو سزا نہیں ہوئی، اس ملک میں انسانوں کا قتل ہی رکنے کا نام نہیں لے رہا تو جانوروں کی بہیمانہ ہلاکت پر بات کرنا بظاہرمضحکہ خیزی لگتی ہےتاہم یہ مضحکہ خیزی نہیں ہے، یہ انسانیت کے وقارکا مسئلہ ہے

 ہم بطور انسان اپنے ساتھ جینےوالی دوسری مخلوقات کو کیا دے رہے ہیں، کیا چرند، پرند اور جانوروں کے نزدیک ہم انسان چیرپھاڑاور قتل عام کرنے والے درندے ہیں؟

 کہاوت ہے کہ بھونکنےوالے کتے کاٹتے نہیں ہیں مگر ہم کہاوتوں پر بھی عمل نہیں کرتےاور بھونکنے والوں کو ہی کاٹنے کو دوڑتے ہیں، آوارہ کتوں کی ہلاکت کی ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ راہگیروں کو کاٹتے ہیں، جس کی وجہ سے بیماریاں پھیلتی ہیں، کتوں کے بارے میں جاننےوالے اس بات کا ضرور علم رکھتے ہیں کہ کتے بے وجہ نہیں کاٹتے، اگر وہ بھوکے ہوں، زخمی ہوں یا انہیں اشتعال دلایا جائے تو وہ کاٹنے پر مجبورہوتےہیں

 اگر ایک بے زبان بھوکا یا زخمی ہے تو اس کی مدد کرنے کے بجائے اس کو ماردینا کہاں کا انصاف ہے؟ اسی طرح اگرکوئی انسان بھوک کی اضطراری حالت میں آپ کا دامن تھام لے تو کیا آپ اسے قتل کردیتے ہیں؟

 کتابھی ایک جان دار ہے، بجائے یہ کہ اس کو بھوک سے نجات دلائی جائے،زخموں پر دوا لگائی جائے،ا گر اس کوہلاک کردیا جائے گا تو یہ سراسر بے رحمی اور سفاکیت ہےاور پھر یہ کہ ایک کتے نے اگر کاٹ لیا ہے تو اس جرم میں ہزاروں کتوں کو ہلاک کردینا کہاں کی انسانیت ہے؟

 اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے اور ہم شیر کا شکارتو کرنہیں سکتے، گلی کے کتوں کو مارکرہی شاید کلیجہ ٹھنڈا کرلیتے ہیں، ہمارے معاشرے کی مثال ایک دھوبی گھاٹ کی سی ہے، جہاں کے کتے گھر کے ہوتے ہیں نہ گھاٹ کےاورشاید اسی لیے انہیں موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے

 کتوں کے بارے میں ایک مذہبی رائے بھی ہے کہ یہ نجس ہیں، اگر گھر میں ہوں تو نحوست کا باعث ہیں، اگر اس وجہ سے ان کی ہلاکت جائز ہے توپھر نجس حالت میں انسانوں کو بھی قتل کردینا جائز ہونا چاہیے

 پوری دنیا میں آوارہ کتے ایک بڑامسئلہ ہیں، اس مسئلے کے تدارک کےلئے دو صورتوں پر عمل کیا جاتا ہے

 پہلی صورت تو یہ ہے کہ آوارہ کتوں کو شیلٹر مہیا کیا جاتا ہے، پاکستان میں یہ ممکن نہیں تاہم اس کی دوسری صورت ضرور ممکن ہے، ہر شہر سے متصل کھلے مقامات یا جنگل ہیں، اگر ان کتوں کو وہاں چھوڑدیا جائے تو یہ کم ازکم انہیں ہلاک کرنے سے بہتر ہوگا، کراچی میں جانوروں کے حقوق کی بہت سی تنظیمیں کام کررہی ہیں، یہ ان کتوں کو شہر سے باہرچھوڑنے کے لیے تیار ہیں، اگر میونسپل انتظامیہ ان کے ساتھ تعاون کرے تو کراچی کی سطح پر تو یہ مسئلہ بہتر طریقے سے حل ہوسکتا ہے

 آوارہ کتوں کے مسئلے سےنجات کے لیے دنیا میں سی این آرکے پروگرام پر عمل کیا جاتا ہے، اس پروگرام کے تحت کتوں کو ویکسین دی جاتی ہے، جس کے بعد ان کی افزائش میں کمی آتی ہے جبکہ انسانوں کو کاٹنے کی صورت میں یہ ضرررساں نہیں ہوتے، یہ ایک کامیاب پروگرام ہے، جس سے آوارہ کتوں کے مسئلے سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے

 کراچی میں بڑے پیمانے پر کتوں کی ہلاکت نہ صرف غیرانسانی فعل ہے بلکہ یہ ایک غیرقانونی عمل ہے، اگر کوئی فرد انفرادی طور پر یہ کام کرے تو اسے قانون شکنی کہیں گے تاہم اگر ریاست ہی قانون کی دھجیاں اڑانے پر اترآئے تو اسے المیہ کہا جائے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments