گلہ بانوں کی نفسیات اور مسئلۂ تکفیر


\"aasem-bakhshi\"چونکہ ہمارے سماج میں قرآنی تعبیر سماج کو ریوڑ کی طرح ہانکنے کی ایک چھڑی ہے سو جب جب اس سے آواز آئی ہے کہ فلاں کافر ہے تو پورے ریوڑ نے یک زبان ہو کر کہا ہے کہ ہاں ہاں فلاں کافر ہے۔ چند گنی چنی بکریوں نے ڈر کر ممیانے کی کوشش کی بھی تو ان کی ایک نہیں چلی۔ اب دو چار کالی بکریوں کا’’ تجدد‘‘ اتنی ساری سفید، چمک دار اور اجلی بکریوں کی’’ روایت پسندی‘‘ کے آگے کیا حیثیت رکھتا ہے۔

لیکن اب نیا زمانہ ہے۔ محلوں میں سماجی بائیکاٹ ہو نہیں سکتے کہ اب تو لوگ اپنے ہمسائے سے بھی واقف نہیں کہ کون ہے، مسجدوں کے باہر ٰپمفلٹ اتنے تقسیم ہو چکے ہیں کہ اب لوگ پہلے ہی دیکھ لیتے ہیں کہ نئی دودھ دہی کی دکان یا فاسٹ فوڈ وغیرہ کا ہے یا حضرت ناصح نے خطابت کے کوئی نئے جوہر دکھائے ہیں، آپ کے مسائل اور ان کے حل کے لئے ہر چینل پر ایک عالم آن لائن بیٹھا ہے جہاں چھڑی کا استعمال بس اس حد تک ہی ہو سکتا ہے جتنا سرمایہ داری میں مشکلات پیدا نہ کرے۔

دس سال پہلے حج پرایک اجلے اور روشن چہرہ، اسلام میں پورے کے پورے نوزائیدۂ مکرر (بارن اگین)دفتری کولیگ ہماری قسمت میں آئے یعنی کمرہ مشترک تھا۔ پہلی ہی شام کمرے میں موجود باقی تینوں حضرات کو ’مسنون‘ حج پر کتابچے تقسیم کئے جنہوں نے اگلے چالیس دن ہمیں بحث کا کافی مواد فراہم کیا، سو ایامِ حج میں بھی ہم رفث و فسوق تو نہیں لیکن جدال سے بچ نہیں پائے۔ وہ محترم تو خیر ہر سال دو سال بعد حج کرتے ہیں، ہماری مزید بڑھاپے میں دہرانے کی نیت ہے۔ اگلے ہی دن ہم چاروں صاحبان اپنے اپنے نصفِ بہتر کے ساتھ حرم کی جانب پیدل تشریف لے جارہے تھے کہ موصوف وہاں اپنی بیگم کے علاوہ (کہ ان کے تو وہ سو فیصد قوام تھے) ہم بقیہ چھ خواتین و حضرات سے خطیبانہ انداز میں فرمانے لگے کہ ترتیب یہ ہو گی کہ ہم چاروں مرد حضرات آگے چلیں گے اور چاروں خواتین کو ذرا پانچ سات قدم پیچھے کر دیا جائے۔ ہمیں فقہی معاملات سے بس اتنا ہی شغف ہے جتنا ہمارے دوست وصی بابا کو شاعری سے یا ہمارے دوست قیصر شہزاد کو ریاضی سے، یعنی اگر کوئی جوہرِ نایاب سطحِ آب پر پڑا ملے تو اٹھانے میں دیر نہیں کرتے لیکن خود میں غواصی کی ہمت نہیں پاتے۔ سو مرتے کیا نہ کرتے بس ایک کالی متجدد بکری کے طور پر کچھ ممیانے کی کوشش کی کہ  اگر یہ چاروں خواتین ہم سے آگے یا اپنے اپنے شوہرِ نامدار کے ساتھ قدم ملا کر چل لیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ باقی دونوں حضرات ’متجددین‘ تو نہیں تھے، لیکن اس لمحۂ موجود میں اپنی بیویوں کے چہرے پر قہر آمیز تاثرات دیکھ کر اس ’ناگزیر‘ تجدد کو نہ صرف جائز بلکہ فرض الفرائض ماننے کو تیار تھے، بس بغلین جھانکنے لگے کہ تجدد اور روایت میں سے جو جیتا اس کے ساتھ ہو جائیں گے۔

قصۂ مختصر خواتین نے ان کی ماننے سے صاف انکار کر دیا اور ابھی حقوقِ نسواں کے تابڑ توڑ حملے شروع ہونے ہی والے تھے کہ کسی نے مشکل سے بات کا رخ کسی نہ کسی طرح تبدیل کیا۔ اگلے روز سے یہ جماعت المسلمین اس فقہی اختلاف کے باعث دو فرقوں یعنی فرقۂ امامیہ اور فرقۂ خلفیہ میں تقسیم ہو گئی۔ کمرے اور خیمے کے علاوہ موصوف کی جان ہم سے اور ہماری ان سے خلاصی ہوئی۔

تعبیری مارکیٹ کے حرکی عوامل پر اختیار رکھنے والے گلہ بان سماج میں موجود میمنوں کو بھی شروع ہی سے قابو میں کرنے کے گر جانتے ہیں۔ انتہا پسند تشدد کی فیکٹریاں تو ایک بالکل مختلف مسئلہ ہیں کیوں کہ ان کا شکار وہی طبقات ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے اپنے بچوں کی قسمت ان کے حوالے کرتے ہیں۔ یہاں تو مسئلہ پورے سماج کا ہے کیوں کہ مسئلے کی جڑیں بہت گہری ہیں اور جو نفسیات تجددپسندی کو دندان شکن جواب دینے پر فوراً تیار ہو جاتی ہے اس کے پاس یا تو روایت پسندی اور فرقہ واریت سے جڑے ان مسائل کا کوئی حل نہیں اور یا پھر وہ ان کے خاموش طرفدار ہیں۔

اس بکر عید پر جس مسجد میں نماز پڑھی اس کے مولوی صاحب کا خطبے میں فرمان تھا کہ آپ کے جانور ذبح کرنے والے کئی قصائی ’’بدعقیدہ‘‘ ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ کچھ خاص مخالف فرقوں کی جانب تھا۔ مزید فرمایا کہ ان سب کا ’’انٹرویو‘‘ لے کر انہیں اپنے جانور کو ہاتھ لگانے دیں، اچھی طرح سوال جواب کریں وغیرہ وغیرہ۔ میرا بارہ سالہ بیٹا جسے یہ تک معلوم نہیں کہ لفظ ’بدعقیدہ‘ کے کیا معنی ہیں، واپسی پر پوچھنے لگا کہ بابا کیا آپ بھی یہ انٹرویو کریں گے؟ ظاہر ہے اسے تجسس تھا کہ کیا پوچھیں گے۔ ہمارے سماج میں میمنوں کے ناپختہ دماغوں میں اس طرح ان فضول مسائل کے بیج بوئے جاتے ہیں جو ریوڑ میں موجود بکریوں کے مستقل مشاغل بن جاتے ہیں۔

سو صاحبو، یہ سب تو تقدیری معاملات ہیں جو بس ایک مناسب رفتار سے تبدیل ہو رہے ہیں اور اگر دیکھنے والی آنکھ ہو تو یہ رفتار اتنی بھی سست نہیں۔ اب ریوڑ نہ صرف چھڑی بان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے بلکہ بکریاں چھڑی اپنی تحویل میں لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ دلچسپ چھینا جھپٹی جاری ہے۔

گلہ بانوں کی نفسیات ان کو باور کروا رہی ہے کہ ہم پہلے کی طرح آج بھی ریوڑ کو قابو میں کر لیں گے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ آخر ان سے اوپر بھی ایک حاکم موجود ہے جس نے تمام انسانوں کو قرآن کی تعبیر کا اختیار یکساں دے رکھا ہے۔ آپ کتنے بھی تعبیری دلائل دے دیں وہ اسی تعبیر کا رخ کرے گا جو اس کے میلاناتِ طبع سے میل کھائے گی یعنی اس کا عقلی استدلال، استعدادِ فہم اور نہ جانے کتنے پیچیدہ نفسیاتی عوامل۔

دراصل مارکیٹ میں مسلسل اتنی تعبیرات آنے کے بعد بھیڑ بکریوں پر یہ راز اب پوری طرح کھل چکا ہے کہ انہیں اپنا دماغ ہی استعمال کرنا ہے۔ آپ عقل پر وحی کو جتنا حاکم بنانے کی کوشش کرتے رہیں وہ سمجھ چکا ہے کہ دراصل یہ ’بکری‘ کی عقل پر ’گلہ بان‘ کی تعبیرِ وحی کی حاکمیت کا ایک خوشنما ڈھکوسلا ہے۔ مسلم سماج میں کلیسا نہیں لیکن بہرحال کلیسائی روایت تو موجود ہے۔

کہاں لوگ محلے کے مفتی صاحب سے پوچھا کرتے تھے کہ فلاں کے ساتھ کھانا کھا لوں، فلاں کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے، فلاں سے معاملات کے بارے میں حضرت صاحب کیا فرماتے ہیں، اور کہاں اب یہ منظر کہ سب کچھ ہی اہل فتاوٰی کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ واقعی اللہ بڑا رحیم و کریم ہے۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments