آخر کب تک میں جھوٹ لکھوں؟


\"zeeshanکل رات ڈان ٹی وی کے ایک پروگرام \”ذرا ہٹ کے \” میں وسعت اللہ خان نے ایک بات کہی جو یقینا ان کے پورے پروگرام تو کیا اس ماہ کے تمام پروگراموں سے بھی بڑھ کر تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ ان کے کراچی یونیورسٹی کے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ \” نیشنل ازم اور فاشزم میں صرف ایک بال برابر کا فرق ہے، بس تھوڑا سا نیشلسٹ سوچ بڑھی کہ فاشسٹ بن گئی \” اس سلسلے میں انہوں نے پاکستان و بھارت کے حالیہ تعلقات اور دونوں طرف کے انتہا پسندوں کے رویوں کی بات کی جو اپنی ابتدا میں تو نیشنلسٹ تھے مگر اب نفرت کی سیڑھیاں چڑھ کر فاشسٹ بن چکے ہیں۔

اسی طرح کل ہم نے \”ہم سب\” پر محمد حنیف کا مضمون بھی پڑھا کہ آخر امن و دوستی اور ترقی و خوشحالی کی بات کرنا دونوں ملکوں میں کتنا مشکل ہو گیا ہے۔ دونوں طرف کے جذبات و ہیجان آخر کیوں عقل و فہم کو مات دے رہے ہیں ؟

نیشنل ازم کی بدترین برائی یہ ہے کہ یہ سچائی و جھوٹ کے معیار بدل دیتا ہے۔ یوں ایک سچ میرا ہوتا ہے اور ایک سچ تیرا بن جاتا ہے۔ یقینا سچائی کے معانی و مفہوم پر کسی کی اجارہ داری نہیں مگر ظلم یہ ہوتا ہے کہ سچائی کا معیار، اس کا بہترین نتیجہ، نیکی، خدا، انسانیت، ترقی، خوشحالی، آخرت اور حسن سلوک جیسی خوبیوں کے محض وطنیت قرار پاتا ہے۔

پاکستانی کہتا ہے حافظ سعید ہیرو ہے، بھارتی انتہا پسند کہتا ہے نہیں مودی ہیرو ہے۔ پاکستانی کہتا ہے کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے، بھارتی کہتا ہے نہیں بلوچستان میں ظلم ہو رہا ہے۔ پاکستانی کہتا ہے ارون دھتی رائے سچی خاتون ہے بھارتی کہتا ہے نہیں وہ غدار ہے۔ بھارتی کہتا ہے حسین حقانی تم لوگوں کے بارے میں سچ بولتا ہے، پاکستانی انتہا پسند کہتا ہے، نہیں، وہ بک گیا ہے، وہ امریکہ کا پٹھو ہے،وہ فلاں ہے ڈھمکاں ہے۔

دو ملکوں کا موازنہ تو دور کی بات، کہا جاتا ہے سچ بھی ایسے بولو کہ قومی مفاد کو نقصان نہ پہنچے۔ اگر آپ کہو کہ قومی مفاد سے مراد تو بیس کروڑ شہریوں کا مفاد ہے تو کہا جاتا ہے؛ او انسانی حقوق کے چمچے، سچ تو وہی ہے جسے ریاست سچ کہے۔ اب ایک سچا صحافی امتحان میں پڑ جاتا ہے کہ آخر میں سچائی کی کون سی تعریف و تشریح پر عمل کروں۔ اکثر منافقت کو چن لیتے ہیں اور شیطان و خدا سے یارانہ نبھاتے نبھاتے نہ جنت کما پاتے ہیں نہ دوزخ، بس درمیان میں ہی لٹکے اپنے ضمیر کی ہی بھٹی میں جلتے رہ جاتے ہیں۔

اب راہداری کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے قومی مفاد کے غلاف میں لپیٹ کر کسی اونچی مقدس جگہ پر چوم چاٹ کر رکھ دو کہ تمہارے سر سے بھی اونچی رہے۔ وہ سچ جو بلوچ کا سچ ہے اسے نہ دہراؤ بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کی بولی بولو۔ ایک عرصہ سے بے یارو مددگار وزیرستان کے باشندوں سے بھی بیزار رہو، اور ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں کے گلا پھاڑ کر ترانے گاؤ کہ یہی سچ ہے۔

آہ! ڈیکارٹ تو سچ کو عقیدہ کے جبر سے نجات دلا گیا۔ کیا نیشنل ازم کے جھوٹے عقیدے سے بھی اسے نجات مل سکے گی؟ آخر کب؟

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments