عدنان کاکڑ سائنس کے علاوہ طنز کرنا بھی نہیں جانتے ہیں


(یہ تحریر ڈاکٹر عامر میر حقیقت پسند صاحب کے حکم کے مطابق کسی بھی قسم کی ایڈیٹنگ کے بغیر لگائی گئی ہے اور اس حد تک ڈاکٹر صاحب کے حکم کا پاس کیا گیا ہے کہ لفظ کاکٹر – ک ا ک ٹ ر – کو کاکڑ بھی نہیں کیا گیا ہے کیونکہ ایڈٹ شدہ تحریر ڈاکٹر صاحب بالکل بھی  اون نہیں کریں گے: مدیر)۔

دیکھیں؟اس پوسٹ کے بعد میں بلاک،ان فرینڈ ہوتا ہوں
یا؟
سیٹائر،سارکیزم وغیرہ کا اردو میں متبادل لفظ طنز ہی کافی ہے اور میں اسی لفظ کو ہی استعمال کروں تاکہ بات سب کو سمجھ آ جائے۔
طنز کی سادہ تعریف یہ ہے کہ کسی کی غلطی یا خامی کو ڈھکے چھپے لفظوں میں بیان کیا جائے۔
طنز کرنے کے دو ہی مقصد ہو سکتے ہیں؟
ایک:آپ دوسرے بندے کو اس کی غلطی کا احساس دلانا چاھتے ہیں تاکہ وہ اپنی غلطی کو سدھار لے۔
دوسرا:اپ کا مقصد صرف “چیزہ” لگانا ہے۔سدھار کا آپ کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
طنز کی بہت ساری قسمیں ہیں۔
ایک:آپ کھلے،ننگے لفظوں میں طنز کریں کہ دوسرے بندے کو صاف سمجھ آ جائے۔
دوسرا:اگلے کو کوئی دو گھنٹے بعد سمجھ آئے۔

تیسرا:یہ سب سے ڈاڈی قسم ہے۔طنز تو آپ نے صبح کیا اور اگلے بندے کو سارا دن سمجھ نہیں آئی لیکن ایک بےچینی ضرور رہی کہ کچھ غلط ضرور ہوا ہے اور جب وہ شخص رات سونے کے لیے لیٹے اور نیند آنا ابھی شروع ہی ہو تو طنز ایسا سمجھ آئے کہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھے۔
چوتھی قسم:آپ نے ایسا طنز کیا کہ اگلے کو سمجھ ہی نہیں آئی بلکہ اُلٹا وہ آپنی تعریف ہی سمجھ بیٹھا۔مثلآ کوئی دوست جو ہمیشہ احمقانہ ڈریسنگ کرتا ہے اُسے آپ یہ کہہ رہے ہوں کہ “واہ جی واہ ارشدصاحب،کیا بات ہے آپ کی؟براڈ پٹ کو بھی ڈریسنگ کی اتنی سمجھ نہیں ہے،جتنی آپ کو ہے؟وغیرہ وغیرہ۔آب ارشدصاحب اسے طنز کی بجائے آپنی تعریف سمجھ بیٹھیں تو قصور ارشدصاحب کا نہیں؟آپ کا ہے۔آپ کو اتنی بھی سمجھ نہیں آئی کہ ارشدصاحب کو یہ طنز سمجھ نہیں آئے گا؟
آب یہ چوتھی قسم کا طنز ذھن میں رکھیئے گا کیونکہ آگے اس کا تذکرہ بار بار آئے گا۔
فیس بُک،ویب سائیٹ،آخبار،ٹی وی وغیرہ یہ عام اور خاص سب کے لیے ہیں۔یہ سب ماسز کے لیے ہیں۔یہ صرف انٹیلیکچولز کی دنیا نہیں ہے۔یہاں ٹیکسی ڈرائیور سے لے کر پی ایچ ڈی حضرات سب موجود ہیں۔آپ نے یہاں طنز کچھ ایسا کرنا ہے جو ہر خاص و عام کو سمجھ آئے اور اگر آپ اپنی طرف سے کوئی بہت ہی اعلی پائے کا پیس لکھ بیٹھے ہیں تو پھر اسے خواص کے سامنے ہی پیش کیجیئے۔عام آدمی،غیرمتعلقہ شخص اور وہ شخص جو آپ کے سٹائل کو نہیں جانتا؟ آپ کے طنز کو نہیں سمجھ پائے گا؟
وسعت اللہ خان کا بخشو والا طنزیہ آڈیوکالم ایک ماسٹرپیس ہے۔سب کو سمجھ آ گئی تھی کہ یہ کس پہ طنز تھا؟
ندیم فاروق پراچہ کا ملالہ والا مضمون بھی ایک سیٹائر یا طنز ہے۔بہت کم لوگوں کو سمجھ آیا۔زیادہ تر لوگ اور اینٹی ملالہ لوگوں نے اسے ملالہ کے خلاف سمجھا۔بہت سارے لوگوں نے لکھا کہ ملالہ کی حقیقت کو پراچہ نے ایکسپوز کر دیا ہے۔اب اونچی ادبی سطح کے لوگوں کے درمیان یہ ایک ماسٹر پیس ہے۔
اچھا؟ کیا واقعی یہ ایک ماسٹرپیس ہے؟

دیکھیئے صاحب،اگر آپ نے یہ کسی مخصوص سطح کے لوگوں کے لیے لکھا ہے تو پھر اس پیس کو اُسی سطح کے لوگوں تک محدود رہنا چاھیئے اور اس کام کے لیے کتاب کافی حد تک بہترین ذریعہ ہے۔
لیکن؟
آپ نے تو اسے اخبار میں چھپوا دیا اور اخبار تو عام وخاص دونوں کا میڈیم ہے۔آپ نے طنز کی چوتھی قسم کا استعمال کیا جو ہر بندہ نہیں سمجھ سکتا اور آخرکار ڈان والوں کو کچھ دن بعد وضاحت دینی پڑی کہ یہ ایک طنزیہ مضمون ہے اسے حقیقت نہ سمجھا جائے۔
آب آئیے اصل مدعا کی طرف۔
چند دن پہلے “ہم سب” کے عدنان خان کاکٹرصاحب کا نظریہ ارتقاء کے نہ ماننے والوں پہ ایک سیٹائر لکھا دیکھا۔میں نے پڑھا،پسند آیا اور سب سے پہلا کمنٹ میرا ہی ہے۔میں کمنٹس میں لنک بھی لگا رہا ہوں،چیک کر لیجیئے۔اس میں،میں نے پیشگوئی کر دی تھی کہ اس کو زیادہ تر لوگ اُلٹا ہی لیں گے۔
کیوں؟
کیونکہ اس میں کاکٹرصاحب نے طنز کی چوتھی قسم کا ہی استعمال کیا ہے۔بہرحال بعد میں،میں اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا۔اگلے دن سو کر اُٹھا تو ان باکس میں مجھے چھ لوگوں نے کاکٹرصاحب کا یہ مضمون بھیجا ہوا تھا کہ دیکھیں؟ نظریہ ارتقاء کی کیسے بینڈ بجا دی گئی ہے؟سر پکڑ کے رہ گیا میں تو۔کچھ کمنٹس کاکٹرصاحب کو فیس بُک پہ کیے کہ آپ کو ایسا نہیں لکھنا چاھیئے؟
وجہ؟
کی بھی وضاحت کرتا ہوں۔

اس مضمون کو پڑھنے والا پہلا گروپ تو اُن لوگوں کا ہے جو کاکٹر کو جانتے ہیں۔انہوں نے تعریف کی اور بات ختم۔جن میں میرا نمبر پہلا ہے۔
دوسرا گروپ:وہ لوگ ہیں جو کاکٹر کو زیادہ نہیں پڑھتے لیکن سیٹائر کو سمجھتے ہیں اور کنفیوز ہو کر رہ گئے۔
تیسرا گروپ:وہ لوگ جو کاکٹرصاحب کو نہ ہونے کے برابر جانتے ہیں لیکن مضمون اُن تک کسی طریقے سے پہنچ گیا اور انہوں نے کاکٹرصاحب کو نظریہ ارتقاء پہ کتابیں پڑھنے کا مشورہ تک دے دیا جو کہ کوئی غلط مشورہ بھی نہیں بنتا۔حضوروالا،آپ کی تحریر سے تاثر ہی کچھ ایسا ملتا ہے جیسے کہ آپ نظریہ ارتقاء کے بارے میں کچھ نہیں جانتے؟ بدلے میں کاکٹرصاحب نے انہیں دو کتابیں سارکیزم پہ ریکمنڈ کر دیں اور ساتھ میں مجھے بھی رگٹر دیا کہ ہم لوگ طب کی کتابوں کے علاوہ کچھ نہیں پڑھتے؟
تو صاب جی،ہمارا بنیادی کام طب کی کتابیں پڑھنا ہی ہے باقی کتابیں پڑھنی ہم پہ فرض نہیں ہیں۔ھاں میری طرح پڑھنے کا شوق اور بات ہے۔
طنز یا ذومعنی باتیں شخصیات،اداروں،ملکوں وغیرہ پہ لکھی کہی جاتی ہیں لیکن سائنس میں کوئی ذومعنی بات نہیں چلتی حضور۔سائنس فکشن اور چیز ہے۔سائنس سڑیٹ فارورڈ چیز کا نام ہے جناب والا۔اس میں کوئی دائیں یا بائیں کا اینگل نہیں ہوتا۔سائنس کو آپ پسند کرتے ہیں یا ناپسند کرتے ہیں۔سائنس کو یا آپ آپناتے ہیں یا ٹوٹلی ریجیکٹ کرتے ہیں۔سائنس کا آپ “مذاق” بھی اُڑا سکتے ہیں لیکن اس کا ذومعنی استعمال بلکل نہیں کر سکتے۔اس سے جہالت پھیلتی ہے۔
چوتھا گروپ:ان کا ہے جو اس مضمون کو نظریہ ارتقاء کے واقعی خلاف سمجھے اور آب اس مضمون کو بطور سند استعمال بھی کر رہے ہیں۔
ملالہ واری سٹوری کا جب غلط استعمال بڑھ گیا اور ڈان والوں کو جب زیادہ تنقید سننی پڑی تو آخبار والوں نے دو دن کے بعد اس پہ وضاحتی بیان جاری کر دیا۔

مضمون تو چلو ٹھیک ہے کاکٹرصاحب آپ نے لکھ لیا لیکن کمنٹس میں آپ کو وضاحتی اور سیدھی بات ہی کہنی چاھیئے تھی۔یہی معلمانہ اور درست رویہ ہے لیکن کاکٹرصاحب تو لوگوں کی تحقیر پہ اُتر آئے ہیں۔سکرین شاٹس لگا رہا ہوں،خود ہی فیصلہ کر لیجیئے؟ دونوں سائیڈوں پہ پھرکی لے رہے ہیں کاکٹر جی۔کمنٹس میں صاحب آپ کا کام وہی بنتا ہے جو دو دنوں بعد ڈان نے کیا تھا۔اصل معاملے کی وضاحت؟
آخر آپ کی اس ذومعنی،طنزیہ تحریر کا مقصد ہے کیا؟
آپ آپنے آپ کو پاکستانی جوناتھن سوئفٹ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟ یا وسعت اللہ خان نمبر ٹو؟تو اس تحریر میں تو آپ بُری طرح ناکام ہوئے ہیں۔بخشو والی بات تو ہر بندہ سمجھ گیا تھا۔اور کاکٹر جی آپنے آپ کو ملنے والے کمنٹس سے ہی اندازہ لگا لیں کہ آپ کتنے کامیاب ہوئے ہیں؟زیادہ تر کو آپ کی بات سمجھ ہی نہیں آئی؟ھاں آپ کی جماتیوں پہ لکھی وہ کیک کاٹنے والی تحریر بہت اچھی تھی۔
کیا آپ کا مقصد معلمانہ تھا تو اس میں بھی آپ ناکام ہوئے ہیں؟
دونوں سائیڈوں کی پھرکی لینا تو یہی بات بتا رہا ہے کہ آپ صرف”چیزہ” لے رہے ہیں۔آپنے آپ کو کوئی بہت بڑا انٹیلیکچول سمجھ کر لوگوں کو پسماندہ ثابت کر رہے ہیں؟ھاھاھاھاھا۔دیکھو؟یہ پاکستانی ڈفرز میرا سارکیزم بھی نہیں سمجھ سکے؟
معذرت کے ساتھ جانی،یاری دوستی اپنی جگہ پر یہ بڑی بیمار ذہنی اپروچ ہے۔آپ کے پاس اگر علم اور بہتر دماغ ہے تو اسے لوگوں کی بہتری کے لیے استعمال کریں نہ کہ اُن کا چیزہ لگانے کے لیے۔
ہم سب والے اور عدنان خان کاکٹرصاحب آزادی آظہار رائے کی بڑی بات کرتے ہیں لیکن کیا وہ یہ مضمون آپنی ویب سائیٹ پہ چلائیں گے؟وہ بھی ایڈیٹ کیے بغیر۔ایڈیٹ تحریر کو میں بلکل بھی آون نہیں کروں گا کیونکہ پہلے ہی میری کچھ تحریروں کا ایڈٹنگ کے نام پہ ریپ ہو چکا ہے!
باقی باتیں کمنٹس میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments