کیا ایک مسلمان ارتقا کے نظریے کو درست مان سکتا ہے؟


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

کیا کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ بیشتر پاکستانی صرف اپنی اپنی فہم دین کو ہی حتمی قرار دینے پر کیوں مصر ہیں؟ کیا چہار آئمہ کا یہ اصول نہیں رہا ہے کہ ”میں اپنی بات کو درست سمجھتا ہوں، مگر اس میں غلطی کے احتمال کے امکان کو مسترد نہیں کرتا، اور دوسرے امام کی رائے کو درست نہیں سمجھتا ہوں، مگر اس کے درست ہونے کے امکان کا انکاری نہیں ہوں“ ؟

ارتقا پر بھی یہی معاملہ ہے۔ ڈیڑھ صدی تک چرچ اور سائنسدانوں کی بحث چلتی رہی ہے کہ ارتقا ایک قابل قبول تھیوری ہے یا نری گمراہی ہے۔ مسیحی کلیسا بھی ہم مسلمانوں کی طرح حضرت آدمؑ کی پیدائش پر یقین رکھتا ہے اور ان کو نسل انسانی کا شروع کرنے والا مانتا ہے۔

ارتقا کے حق میں اور خلاف بحث کرنے والے مسلمان عام طور پر ارتقا کے خلاف وہی دلائل دیتے ہیں جو ان سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے سے مسیحی پادری دیتے آ رہے ہیں۔ ہارون یحیی ہوں یا کوئی دوسرا، یہی قدیم مسیحی دلائل ہی سامنے آتے ہیں۔

پادریوں کی طرف سے کائنات اور زمین کی عمر کا اندازہ وہی لگایا جاتا ہے جو ہزاروں سال پہلے انہوں نے شجروں کی بنیاد پر جوڑا تھا۔ عام مسیحی پادری کے مطابق زمین کی عمر محض چھے ہزار سال ہے۔ کچھ رعایت دے کر اسے دس ہزار سال تک لے جاتے ہیں۔ جبکہ اب ایسی سائنسی تکنیکیں موجود ہیں جو کہ اس عمر کا بہت حد تک درست اندازہ دیتی ہیں۔ کروڑوں سال پہلے کے جاندار ماہرین ڈھونڈ چکے ہیں۔ پھر بھی چھے ہزار سال پر ٹکے رہنا، اور دلیل یہ دینا کہ اس خاص مدت کے بعد جو ہم دو ہزار سال پرانے علم کی بنیاد پر مانتے ہیں، یہ آلات ناکارہ ہو جاتے ہیں، کافی مضحکہ خیز صورت حال پیدا کر دیتا ہے۔ جینیٹک سٹیڈیز وغیرہ کا بھی ایسا سا ہی معاملہ ہے اور ایسے ہی دلائل وہاں بھی پیش کیے جاتے ہیں۔

\"the_scientific_method_as_an_ongoing_process-svg\"

سب سے کم فہم دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ارتقا محض ایک نظریہ ہے۔ ہم اپنی تیسری جماعت کی سائنس کی کتاب کی بنیاد پر اس کی سادہ سی تعریف کے مطابق کہتے ہیں کہ سائنٹیفک میتھڈ میں پہلے مشاہدہ ہوتا ہے، پھر نظریہ پیش کیا جاتا ہے، پھر تجربہ ہوتا ہے، پھر نتیجہ نکالا جاتا ہے۔ کسی وجہ سے ہم دو مختلف انگریزی اصطلاحات ہائپوتھیسس اور تھیوری، دونوں کو ہی نظریہ کہنے پر مصر ہیں اور یہی غلطی ایک بڑی عوامی کنفیوزن پیدا کرتی ہے۔ سائنسی طریقہ کار میں پہلے مشاہدہ کیا جاتا ہے، پھر مفروضہ پیش کیا جاتا ہے، پھر تجربات کی کسوٹی پر اس مفروضے کو پرکھا جاتا ہے، اور پھر اسے نتیجے کی صورت دی جاتی ہے جو مسلسل تجربات کی صورت میں حتمی صورت اختیار کر کے قانون بھی بن سکتا ہے۔ جبکہ تھیوری، یعنی نظریہ، ایک ایسی چیز ہوتی ہے جسے قانون سے بالاتر کہا جا سکتا ہے۔ سادہ ترین الفاظ میں تھیوری، مختلف سائنسی قوانین یا عوامل کی توجیہہ پیش کرنے کا نام ہے کہ ایسا آخر ہوتا کیوں ہے۔ تھیوری غلط بھی ثابت ہو سکتی ہے، اسے بہتر بھی کیا جا سکتا ہے، اور اس کی جگہ ایک بالکل نئی تھیوری بھی پیش کی جا سکتی ہے۔ مگر یہ ایک طویل اور صبر آزما کام ہے۔ قبول عام حاصل کرنے والی کسی تھیوری کے غلط ثابت ہونے میں چند دہائیاں بھی لگ سکتی ہیں اور کئی صدیاں بھی۔ ارتقا کی تھیوری پچھلی ڈیڑھ صدی سے اسی عمل کا شکار ہے، اس میں بہتری آ رہی ہے اور پرانی تھیوری کی غلطیاں دور کی جا رہی ہیں، مگر اس کا کوئی ایسا دوسرا متبادل موجود نہیں ہے جسے ارتقا کے نظریے جیسا وزن حاصل ہو۔

\"scientific-method\"

نظریہ ارتقا پر چرچ اور سائنس کی یہ لڑائی جاری تھی کہ سنہ 2014 میں پوپ فرانسس نے یکایک یہ اعلان کر دیا کہ ارتقا کا نظریہ مسیحی مذہب کے خلاف نہیں ہے۔ سائنس نے اتنی زیادہ گواہیاں پیش کر دی تھیں کہ رومن کیتھولک چرچ بالآخر نظریہ ارتقا کو ماننے پر مجبور ہو گیا۔

چرچ کا موقف اب کچھ ایسا سا تھا کہ خدا نے الہامی کتب میں تخلیق کی سائنسی تفصیلات تو نہیں بتائی ہیں۔ بس موٹی سی بات بتا دی ہے جو آج سے ساڑھے تین چار ہزار سال پہلے کے عام انسان کی سمجھ میں آ جاتی۔ اب جیسے جیسے انسان کا علم بڑھا جا رہا ہے، تو وہ عمل تخلیق کی تفصیلات سے آگاہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پوپ فرانسس کا کہنا تھا کہ ”نظام فطرت میں ارتقا کا عمل، تخلیق کے عمل کے خلاف نہیں ہے، کیونکہ ارتقا بھی سب سے پہلے مخلوق کی تخلیق کا ہی محتاج ہے جو کہ ارتقا پذیر ہو سکے“۔

ممکن ہے کہ میں درست ہوں، ممکن ہے کہ میں غلط ہوں، مگر میری رائے ہے کہ اب نہ سہی لیکن کچھ عرصے بعد، پچاس سال بعد، سو سال بعد، دو سو سال بعد، عام مسلمان بھی اس امر کے قائل ہو جائیں گے جس کا قائل ہونے پر پوپ مجبور ہو چکا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور علم میں اضافے کے بعد، الہامی کتب کے نئے نئے پہلو سامنے آتے جاتے ہیں۔ کبھی یہی چرچ سورج کو زمین کے گرد گھمایا کرتا تھا اور ایسا نہ ماننے والوں کو کفر کا مرتکب قرار دے کر مار ڈالتا تھا۔ اب چند سو سال بعد ہی آج زمین کے سورج کے گرد گھومنے پر وہ معترض نہیں ہے بلکہ اسے خدا کی قدرت قرار دیتا ہے۔

سائنس کسی عقیدے کو نہیں مانتی ہے۔ وہ صرف علم بڑھانے کے عمل کو ہی مانتی ہے۔ جب یہ علم بڑھ جاتا ہے، انسانوں کی فہم میں اضافہ ہو جاتا ہے، پھر عقیدے کی ایک نئی تفیہم سامنے آتی ہے۔ زمانے سے پیچھے رہ جانے والے مضحکہ خیز صورت حال سے ہی دوچار ہوتے ہیں۔

تو پھر جو مسلمان دور حاضر کی سائنس کی روشنی میں ارتقا کے ذریعے خدا کے تخلیق کرنے کے عمل کو اس وقت بھی ویسے ہی مانتے ہیں، جیسا کہ مسیحی کلیسا بھی ماننے پر مجبور ہو گیا ہے، تو کیا ان مسلمانوں کے بارے میں یہ سوچ اپنانے کی اجازت ہے کہ

”میں اپنی بات کو درست سمجھتا ہوں، مگر اس میں غلطی کے احتمال کا امکان مسترد نہیں کرتا، اور دوسرے مسلمان کی بات کو درست نہیں سمجھتا، مگر اس کے درست ہونے کے امکان کا انکاری نہیں ہوں؟“

بہرحال پچھلے طنزیہ مضمون کا ایک فائدہ تو ہوا ہے۔ ثابت یہی ہوا ہے کہ خود کو لبرل کہنے والے بہت سے نمایاں ترین لوگ بھی اسی جامد ذہن کے مالک ہیں جس کا قصور وار وہ ملا کو ٹھہراتے ہیں۔ مزید یہ کہ بہت سے بے تحاشا پڑھے لکھے سپیشلسٹ ڈاکٹر، خود کو عقل کل سمجھنے والے انگریزی کالم نگار اور بڑے سرکاری کالجوں کے پرنسپل بھی طنز و مزاح کو سمجھنے سے قطعاً قاصر ہیں۔ خدا جانے ان کا جوناتھن سوئٹ کا مضمون A Modest Proposal پڑھ کر کیا حال ہوتا ہو گا جو کہ طنز کا ایک بہت مبہم سا شائبہ ہی دیتا ہے، مگر اسے طنزیہ تحریروں میں ایک کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔

خدا اس قوم پر رحم کرے جو کہ طنز و مزاح کی حس کھو چکی ہے اور دماغ استعمال کرنے سے انکاری ہے۔


گزشتہ طنزیہ مضمون

ڈارون کی ارتقا کی تھیوری غلط ہے
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments