ڈونلڈ ٹرمپ، کشمیر اور پاکستان


\"edit\"کل رات امریکی صدارتی انتخاب میں شریک ری پبلکن اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیداروں کے درمیان تیسرے اور آخری مباحثہ کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ پر ہیلری کلنٹن کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے اور انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے کا واضح اعلان کرنے سے گریز پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ رویہ آئندہ دو اڑھائی ہفتوں کے دوران انتخاب جیتنے کےلئے ان کی مہم پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔ تاہم پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ٹرمپ کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کروانے کی کوشش کریں گے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے ہندوستان ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتحال بہت خطرناک ہے۔ میری خواہش ہو گی کہ دونوں ملک مل جل کر معاملات طے کرلیں اور میں اس سلسلہ میں ثالثی کرنے کےلئے تیار ہوں۔ ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر پاکستان وزارت خارجہ کے ترجمان نے آج کہا کہ ہم عام طور سے اخباری خبروں پر تبصرہ نہیں کرتے۔ لیکن ثالثی کی یہ کوشش خوش آئند ہے۔ ہم امریکی دوستوں کو جن میں حکومت کے لوگ بھی شامل ہیں، یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات کو ۔۔۔۔۔۔ جن میں مسئلہ کشمیر بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔۔۔۔۔ حل کروانے میں کردار ادا کریں۔ پاکستان کی اس دیرینہ خواہش کے باوجود امریکہ سمیت دنیا کا کوئی ملک ان دو ملکوں کے درمیان مصالحت کروانے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہؤا ہے۔ کیونکہ بھارت کسی تیسرے فریق کی مداخلت قبول کرنے کلئے تیار نہیں ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے امریکی انتخاب میں شریک ایک ایسے امیدوار کی باتوں کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے، جس کے دعوؤں کو عام طور سے غیر ذمہ دارانہ بیان سمجھا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ وزارت خارجہ کے ترجمان نے ٹرمپ کی طرف سے ثالثی کی خواہش کا خیر مقدم کیا ہے بلکہ یہ واضح کیا ہے کہ یہ تبصرہ کرنے کےلئے ایک مسلمہ اصول سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ یعنی وزارت خارجہ عام طور سے اخباری رپورٹوں کی بنیاد پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتی ہے، اس کے باوجود ٹرمپ کی مصالحت میں تعاون کی پیشکش کی اہمیت کی وجہ سے اس اصول کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک کمزور امیدوار ہیں۔ وہ اپنی ڈیمو کریٹک مدمقابل ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں رائے عامہ کے اکثر جائزوں میں سات سے آٹھ فیصد تک پیچھے ہیں۔ متعدد تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ہیلری کلنٹن کے کامیاب ہونے کا 70 سے 80 فیصد تک امکان ہو سکتا ہے۔ جبکہ ٹرمپ کے جیتنے کا امکان دس سے پندرہ فیصد ہے۔ اس صورتحال کے باوجود پاکستانی ترجمان ٹرمپ کے ایک ہفتہ پرانے انٹرویو کی بنیاد پر خوشی کا اظہار کرنا ضروری سمجھ رہے ہیں۔ اس طرح پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کو اپنی کمزوری کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ بھارت صرف اس لئے پاکستان کے ساتھ متکبرانہ اور مغرور رویہ اختیار کرتا ہے کیونکہ وہ پاکستان کو سفارتی اور خارجہ حکمت عملی کے اعتبار سے کمزور سمجھتا ہے۔ وزارت خارجہ کے تبصرہ سے اس تاثر کو تقویت ملے گی۔ جو کسی طرح بھی پاکستان کے دوررس مفاد کا تحفظ نہیں کرے گا۔ یہ موقف مقبوضہ کشمیر میں جاری عوامی تحریک آزادی کےلئے بھی مناسب نہیں ہے۔

بھارت نے ماضی میں کسی بھی تیسرے فریق کی مداخلت سے انکار کیا ہے۔ اس کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ معاملات صرف دو طرفہ بات چیت میں ہی طے ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ برس کے دوران نئی دہلی نے صرف اس لئے سیکرٹری خارجہ امور کی ملاقات منسوخ کر دی تھی کیوں کہ بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر نے کمشیری رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کو بھارتی حکمرانوں نے تیسرے فریق کی مداخلت سے تعبیر کیا تھا۔ پاکستان نے اس معاملے میں ہمیشہ وسیع الظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی اداروں اور امریکہ سمیت تمام اہم ملکوں سے ثالثی کروانے اور دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان مصالحت کروانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ بھارت نے ہمیشہ اس معقول اور مسلمہ سفارتی طریقہ کار کو مسترد کیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازعہ سمیت متعدد عالمی تنازعات میں دوسرے ملک یا عالمی ادارے ثالث کا کردار ادا کر کے فریقین کو ایک دوسرے کو سمجھنے اور کسی متوازن حل پر متفق ہونے پر آمادہ کرنے میں کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ تاہم کوئی بھی ملک اسی صورت میں مصالحت کےلئے کردار ادا کر سکتا ہے جب کسی تنازعہ میں شریک دونوں ملک اس خواہش کا اظہار کریں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات میں بھارت کی ہٹ دھرمی سب سے اہم رکاوٹ رہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے کر تو کسی بھی بیرونی سفارتی مداخلت کو قطعیت کے ساتھ مسترد کیا جا رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں جولائی میں برہان وانی کی شہادت کے بعد شروع ہونے والی تحریک کے بعد سے پاکستان کے مشیر خارجہ امور سرتاج عزیز نے بھارت کو بات چیت کی پیشکش کی تھی۔ انہوں نے اس تجویز میں یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان موجودہ صورتحال میں دیگر تمام امور کو نظر انداز کرکے صرف کشمیر کے موضوع پر مذاکرات کرنے کےلئے تیار ہے تاکہ اس مشکل اور دیرینہ مسئلہ کا حل نکالا جا سکے۔ یہ فراخدلانہ پیشکش تھی۔ پاکستان اور بھارت کے سیکرٹری خارجہ امور نے اس حوالے سے خط و کتابت کا تبادلہ بھی کیا تھا۔ بھارت نے مذاکرات کی پیشکش کو اصولی طور پر مانتے ہوئے، عملی طور پر اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کا موقف ہے کہ پاکستان کے ساتھ صرف دہشت گردی اور سرحد پار سے مداخلت اور دہشت گردوں کی بھارت آمد کے سوال پر بات ہو سکتی ہے۔

نریندر مودی کی حکومت عالمی وعدوں کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ سمیت متعدد مواقع پر اس طے شدہ اصول سے بھی انحراف کر رہی ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور دونوں ملکوں کو جامع مذاکرات کے ذریعے کشمیر سمیت تمام معاملات طے کرنے چاہئیں۔ ستمبر میں اوڑی حملہ کے بعد سے بھارت نے زیادہ جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ روابط کو محدود کیا ہے اور دنیا میں اسے دہشت گرد ملک قرار دینے کےلئے کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ نریندر مودی اور ان کی کابینہ کے ارکان تواتر سے یہ کہتے رہے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کی سرپرستی کر رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دوران گوا میں 5 ترقی پزیر ملکوں ۔۔۔۔۔۔ برازیل ، روس ، بھارت ، چین اور جنوبی افریقہ ۔۔۔۔۔۔۔ کی سربراہی کانفرنس کے موقع پر نریندر مودی نے پاکستان کو دہشت گردی کا منبع قرار دیتے ہوئے پوری دنیا میں دہشت گرد عناصر کا تعلق پاکستان سے جوڑنے کی ناکام کوشش بھی کی تھی۔ چین کے صدر ژی جنگ پنگ نے نریندر مودی کے اس موقف کو مسترد کیا اور واضح کیا کہ دہشت گردی کو کسی ایک ملک سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ روس سمیت دیگر ممالک بھی اقتصادی امور پر اجلاس میں شرکت کےلئے گوا آئے تھے۔ اس لئے انہوں نے بھی بھارتی الزامات کو درخوراعتنا نہیں سمجھا۔ اس طرح بھارت ایک اہم فورم سے پاکستان کو مطعون کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

ایک طرف بھارت اس قسم کا غیر مفاہمانہ، درشت اور جارحیت سے لبریز لب و لہجہ اور حکمت عملی اختیار کر رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان مصالحت اور پرامن بقائے باہمی کے نام پر بار بار مذاکرات کی بات کا اعادہ کر رہا ہے۔ پاکستانی رہنماؤں کی خواہش ہے کہ امریکہ بھارت پر اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اسے پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے پر آمادہ کرے۔ اسی تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ناکامی کی طرف بڑھتے ہوئے صدارتی امیدوار کی طرف سے ثالثی کی بات کو بھی بہت زیادہ اہمیت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح پاکستانی وزارت خارجہ نے اپنی مایوسی اور بے بسی کا اظہار کیا ہے جو بھارت جیسے جارح ملک اور اس کی شدت پسند حکومت کے مقابلے میں خوش آئند طرز عمل نہیں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اگر صدارتی انتخاب جیت کر امریکہ کا صدر بننے کی تیاری کر رہے ہوتے اور اس موقع پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالث بننے کی بات کرتے تو اسے اہمیت دی جا سکتی تھی۔ لیکن موجود صورتحال میں ان کی باتیں تضادات کا مجموعہ اور غیر ذمہ داری کا مظہر ہوتی ہیں۔ وزارت خارجہ کو پاک بھارت تنازعہ کے بارے میں ٹرمپ کی بھارتی اخبار کے ساتھ کی گئی باتوں کر نظر انداز کرنا چاہئے تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ علاقائی تنازعات کے بارے میں یہ واضح موقف رکھتے ہیں کہ متعلقہ ملکوں کو خود اپنے معاملات کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ اور اگر وہ امریکہ کی امداد چاہتے ہیں تو اس کی خدمات کے عوض مالی وسائل فراہم کریں۔ وہ نیٹو اشتراک کے علاوہ جاپان ، جنوبی کوریا اور سعودی عرب جیسے دیرینہ امریکی حلیفوں کے ساتھ تعاون ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ قیاس کرنا بوالعجبی ہوگی کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدر بننے کے بعد کوئی ایسا اقدام کریں گے جو بھارت کی خواہش کے برعکس اور پاکستانی موقف کے قریب ہو۔ دو ہفتے قبل امریکی ہندوؤں کی ایک تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہو کر انہوں نے واضح کیا ہے کہ بطور صدر وہ بھارت کے ساتھ مراسم کو مستحکم کریں گے۔ اس سے قبل وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کروانے کےلئے امریکی طاقت کے استعمال کا اشارہ دے چکے ہیں۔ ٹرمپ کی نگرانی میں قائم امریکی حکومت دہشت گردی کے عوامل کو سمجھے بغیر پاکستان جیسے ملکوں کو ہدف بنانے اور مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کرے گی۔ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر دہشت گرد ہونے کا شبہ ظاہرکرتے ہیں اور امریکہ میں ان کے داخلہ پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ کو ان کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ان عوامل سے باخبر ہونا چاہئے تھا۔

کل رات گئے ہونے والے آخری صدارتی مباحثہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی غیر ذمہ داری اور بداخلاقی کا کھل کر مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے اس واضح سوال کا جواب دینے سے انکار کیا کہ: کیا وہ انتخابات کے بعد (ہارنے کی صورت میں) نتائج کو قبول کر لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ وہ نتائج سامنے آنے کے بعد کریں گے۔ امریکی صحافی اور تبصرہ نگار اس موقف اور طرز عمل کو امریکہ کے جمہوری نظام کو مشکوک بنانے کی افسوسناک کوشش قرار دے رہے ہیں۔ بحث کے دوران ایک موقع پر جب ہیلری کلنٹن گفتگو کر رہی تھیں، تو ٹرمپ نے مداخلت کرتے ہوئے انہیں ’’غلیظ عورت‘‘ قرار دیا۔ یہ طرز تکلم ایک ایسے شخص کے منفی اور تخریبی ذہن کی نشاندہی کرتا ہے جو دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا صدر بن کر دنیا بھر کے معاملات کو چٹکی بجاتے حل کرنے کا دعوے دار ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ٹرمپ کی گیارہ برس پرانی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ خواتین کے بارے میں ہتک آمیز اور متبذل گفتگو کر رہے ہیں۔ ویڈیو سامنے آنے کے بعد ری پبلکن پارٹی کے متعدد ممتاز رہنماؤں نے بھی ٹرمپ کی حمایت سے دست کش ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے بعد سات آٹھ خواتین ٹرمپ کی دراز دستی کے قصے سنا چکی ہیں۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ انہیں جھوٹی اور شہرت کی بھوکی عورتیں قرار دے کر خود کر سچا اور اعلیٰ اقدار کا پیرو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ افسوسناک احساس برتری کا شکار ہیں۔ وہ خود کو سب سے بہتر اور برائیوں سے پاک قرار دینے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ ان جیسے خیالات رکھنے والا شخص اگر امریکہ کا صدر بن گیا تو وہ اپنے ملک کے علاوہ دنیا کے لئے بھی سنگین خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو ایسے شخص کی باتوں سے امید لگانے کی بجائے، خاموشی سے امریکی انتخابات کا نتیجہ سامنے آنے کا انتظار کرنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments