جنگ، زعفرانی پنڈت اور تھری پیس مُلّا


\"Amjad-Nazeer\"

سرحد کے اِس پار ہوں یا اُس پار، جنگجو مولوی اور پنڈت, بھلے وہ زعفرانی ہوں یا سبزیلے، جنگ بازی اور نفرت سازی کے لیے طرح طرح کے عذراور جواز تراشتے رہتے ہیں۔ سرحد پرذرا سی کشیدگی ہوئی اور ان کے لیے گویا زہر افشانی کا بازار کھل گیا۔ افسوس ناک ہی سہی مگراب یہ قصہ ذرا پرانا ہو گیا ہے۔ نیا وطیرہ اپنی اپنی  خوں فشاں خواہشات میں تقدیر و تقدیس کا رنگ بھرنا ہے۔ بلکہ اپنے کہے کو آکا ش دانی اور آسمان خوانی بتانا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ یہ اشتعال انگیزی نہیں بلکہ مقدس صحیفوں اور پُرانوں میں درج ہے۔ گیتا اور مہا بھارت میں اِس کے اشارے ملتے ہیں، اوپر وا لے کی  یہی  رضا ہے، وغیرہ وغیرہ:

\” یہ بُھول کر کہ جغرافیائی ردّو بَدل تاریخی حقیقت ہے، زعفرانی چغوں والے انتہا پسند ہندو اب یہ چرچا کرتے ہیں کہ بھارت بھگوان شری رام کی سِتر، یعنی رام اور کرشن کی ارضی تشکیل ہے (جو شاید زمین کی تشکیل سے بھی پہلے کر دی گئی تھی) اور بھگوان شری رام ھی اس کی رکھشا کرتے ہیں اور کریں گے۔ اورپاکستانیو سن لو، بھگوان کرشن  کو صرف بانسری (پیارکا سُر) لگانا بلکہ سنکھ (یُدھ کا بِگل) بجانا بھی آتا ھے۔ بھارت اور سیتا کا وجود یک جان دو قالب ہے اور یہ کہ نہ صرف سلاطین اور مغل بادشاہ غاصب اور لٹیرے تھے، بلکہ موجودہ تمام مسلمان ہندوستانی طفیلیے ھیں۔ صرف چندر گپت موریا اور اشوک کا دور ہی سنہری دور حکومت تھا ( اِس لیے نہیں کہ اُن کے دور میں امن و انصا ف تھا بلکہ اس لئے کہ اُس وقت انگریز اور مسلمان سامراج نے ہندوستان پر اپنا تسلط نہیں جمایا تھا )۔

ہندوستان سےمسلمانوں اور عیسائیوں کا انخلاء اس لیے ضروری ہے کیونکہ اُن کا عقیدہ بدیشی ہے اور وہی لوگ اصیل بھارت واسی ہیں جِن کی پُنیا بُھومی (دھرم کا آغاز) یا پُتری بُھومی (آباء کی سر زمین) بھارت ماتا ہو۔ مسلمان جن کو ہم نے  پناہ اور تحفظ دیا، انھوں نے (پاکستان بنا کر) اس دھرتی سے غداری کی۔ اس لئے  ان کی گھر واپسی (یعنی مسلمانوں کو دھونس دھمکی یا لالچ سے ہندو بنانا) ضروری ہے۔ ہندوتوا پسند ہندو یہ پھسپھسی تعریف پیش کرتے ہوے بھول جاتے ہیں کہ ہند سندھ کی عظیم دھرتی میں لوگ صدیوں سے اپنے مذاہب اور مسالک تبدیل کرتے آئے ہیں۔ مسیحیت اور بعثت اسلام کے فوراً بعد ایک بڑی تعداد نے اپنا مذہب تبدیل کیا اور ہندوستان کا موجودہ جغرافیہ بھی کئی ایسی تبدیلیوں سے گزرا ہے جس میں سلاطین اور مغل بادشاہوں کا اہم کردار رہا ہے۔ اس کا حدود اربع کبھی بھی ایسا نہیں تھا جیسا آج ہے۔ پاکستان بھی اسی بدلتے ہوئے جغرافیے کی ایک شکل ہے۔

مسلمان دشمنی میں ہندو راشٹریہ اور سنگھ پریوار متضاد منطق پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف ان کا نعرہ ہے کہ ’’مسلمانوں کے دو استھان – قبرستان یا پاکستان‘‘ یعنی ہندوستان میں رہنا ہے تو بھارت ماتا کہنا ہو گا اور اگر اب جنگ چھڑی تو – کشمیر تو ہو گا لیکن پاکستان نہیں ہو گا، وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف وہ پاکستان اور بنگلہ دیش سمییت اکھنڈ بھارت کے خواہش مند ہیں۔ یعنی وہ پاکستان کو اٹل حقیقت بھی شمار کرتے ییں اور اس کے وجود کے خلاف بھی ہیں۔  گائے کا گوشت کھانے پر تشدد پسند ہندو جوانوں نے سینکڑوں مسلمانوں پر تشدد کیا ہے، اس حقیقت کو پس پشت ڈالتے ہوے کہ دنیا میں سب سے ذیادہ گائے کا گوشت برآمد کرنے والا ملک بھارت ہی ہے۔ ایک افسانوی تاریخ کی بنیاد پر وہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ھیں کہ اب ایک مندر ایودھیہ اور دوسرا اسلام آباد میں بنے گا۔ اصل میں مندر بنانے سے زیادہ ایک تاریخی مسجد گرانا مقصود ہے۔ کچھ  زعفرانی بابے کہتے ہیں کہ جو بھارت ماتا کی جے نہیں بولے گا وہ اس کی گردن اڑا دیں گے۔ زور صرف ’’ماتا کہلوانے‘‘ پر ہے، ورنہ وہ جانتے ہیں کہ ہندوستان کے تمام مسلمان ہندوستان کو اپنا عزیز از جان وطن تصور کرتے ہیں۔

اب  ہماری جانب دیکھئے۔ پگڑیوں والے بیچارے نیم خواندہ مولوی تو بہت پیچھے رہ گئے کہ وہ توفقط نظامِ اسلام کا راگ الاپتے تھے، اب تو جدید تعلیم یافتہ، انٹرنیٹ، میڈیا اور نئی نفرتوں سے لیس ٹائی کوٹ والے تھری پیس مُلا کہتے ھیں کہ پاکستان اس قدر مقدس سرزمین ہے کہ اس کا ذکرتودنیا کی مقدس تریں کتاب میں بھی آیا ہے اور اس کی حفاظت خدائے بزرگ و پرتر خود ہی کرے گا۔ ایک بیوروکریٹ مفتی صا حب تو یہاں تک بھی کہتے پائے گئے کہ پاکستان کا نام یعنی ’’پاک‘‘ اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ ناموں میں سے ایک ہے، ایسے ملک پر بھلا کیسے آنچ آ سکتی ہے۔ پاکستان عالم اسلام  کا قلعہ ہے۔ وہ دن دور نہیں جب دہلی کے لال قلعے اور ممبئی پر سبزہلالی پرچم لہرائے گا۔ کشمیر قرارداد مذمت سے نہیں، ہندو کی مرمت سے آزاد ہو گا۔ پاکستان کا ایٹم بم اسلامی بم ہے۔ بہت جلد پاکستان سپر پاور بن جائے گا اورپھراقوام عالم کے فیصلے پاکستان میں ہوا کریں گے (اس سیا سی شعور کے بغیر کہ اقوامِ عالم کے فیصلے تو اقوامِ مُتحدہ اور امریکہ میں بھی نہیں ہوتے)۔

ان صاحبان کے حلقوں میں آج کل یہ حوالہ بھی معروف ہے کہ آنے والی جنگ، ایک عام جنگ نہیں بلکہ ’’غزوہ‘‘ ہو گا۔ جلد یا بدیر ہندوستان سے یہ جنگ  (یعنی غزوہ) ہو کر رہے گی اور کسی غزوہ میں مسلمانوں کی شکست کیسے ممکن ہے۔ تھری پیس مولویوں نے ایک ولی اللہ بھی دریافت کئے ہیں جن کا تعلق تیرہویں صدی کے ایران سے ہے۔ ان مستقبل بین صاحبِ کشف و عرفا ن نے ہندوستان کے مسلم بادشاہوں کی تاریخ آج سے ساڑھے آٹھ سو سال پہلےِ من و عن بیان کر دی تھی۔ پاکستان کی تخلیق، بحران اور پھر عظیم الشان ترقی، پاک و ہند جنگوں اور اس آنے والی جنگ کا بھی ذکر کیا ہے جس میں دریائے سندھ تین مرتبہ خون سے لال ہو جائے گا (اور اس جنگ کے لیے یہ حضرات بہت بے چین ہیں)۔ حیرت کی بات ہے کہ حضرت نے اپنے وطن ایران  کے مستقبل کی پیشین گوئی نہیں کی حالانکہ آج سے ہزار سال پہلے ایران (فارس) خود ایک بڑی سلطنت تھی اوراس وقت  پاکستان کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا لیکن پھر بھی اس برگزیدہ ہستی نے پاکستان کا ذکر ضروری سمجھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگرعالم الغیب صرف اللہ تعا لیٰ کی ذاتِ مبارکہ ہے تو پھر یہ معاملات کاہے کو؟ ھمارے ماڈرن ملا کچھ بابوں سے بھی متاثر ہیں جو ادیبوں کے روپ میں جوتشیوں کا کردار ادا کرتے ہیں۔

 ثابت یہ ہوا کہ دونوں طرف کے انتہا پسند اپنا نظریاتی اور سیاسی غلبہ برقرار رکھنے کی لیے جنگ و جدل اور حرب و ضرب کے جذبات برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ لو گ امن ، ترقی اور خوشحالی کے دشمن ہیں۔ عراق، افغانستان، شام اور یمن کی صورتِ حال ہمارے سامنے ہے۔ ایسے میں جنگی ترانے چھیڑنا غربت، بے روزگاری اور دوسری اذیتوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔معاملا ت کچھ بھی ہوں، اقوامِ عالم کے سابقہ اور حالیہ تجربے سے ایک بات طے ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں  بلکہ  اُم المسائل ہے۔

ہندوستان کے معاملات ہندوستان سمجھے۔ ہمیں تو اپنے محبوب وطن پاکستان سے سرو کار  ہے۔ اسی مقدس سر زمینِ پاکستان میں بھوک اور افلاس کی شرح ہندوستان سے بڑھتی جا رہی ہے۔ جمہوری تسلسل اور ترقی کا گراف ہندستان سے کہیں زیادہ پیچھے ہے۔ مہذب دنیا بیشتر منفی خصوصیات ہمارے ہی ملک سے منسوب کرتی ہے۔ اسی مقدس ملک میں اربوں کی کرپشن ہوتی ہے۔ یہی ملک صحافیوں، سیاحوں، غیر ملکیوں، دانشوروں اور روشن خیالوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے۔صرف اسی ملک میں غیر مسلموں کو ثانوی درجے کا شہری قرار دیا جاتا ہے۔ یہی ملک ہے جس میں مسلمان ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں۔ اسی ملک میں تیزاب گردی اور غیرت کے نام پر قتل کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ صرف اسی ملک میں قومی ہیرو چھابڑی لگاتے یا رکشا چلاتے ہیں اور بڑھاپے میں مفلوک الحال ہو کر مر جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں ہی لوگوں کو گدھوں گھوڑوں کا گوشت کھلایا جاتا ہے۔ افغانستان کو چھوڑ کر پوری دنیا میں صرف پاک سر زمین میں ہی پولیو اور جزام کا مرض باقی ہے۔ سچ یہ ہے کہ جنگ اور نفرتوں سے یہ مسائل اور بڑھیں گے، مزید غربت ہو گی، مفلوک الحالی اور فرقہ پرستی کا دور دورہ ہو گا اور دہشت گردی میں مزید اضافہ ہوگا ـ

اس لیے اے شریف انسا نو، جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے

آپ کے اور میرے آنگن میں، شمع جلتی رہے تو بہتر ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments