ماں کا آخری خط


تمہیں تو پتہ ہے کہ کریمہ پر کیا گزری۔ دونوں کتنا محبت کرتے تھے، ایک دوسرے سے۔ اسے اچھی نوکری مل گئی تھی، مہینہ شادی کو نہیں ہوا تھا کہ ظالموں نے اسے قتل کردیا۔ نہ سوچا نہ سمجھا ایسا بھی نہیں ہوتا ہوگا۔ میرا بچہ تو مرگیا مگر کریمہ کی اجڑی زندگی نے مجھے بہت رُلایا ہے۔

پانچ سالوں کے بعد وہ شادی پرراضی ہوئی۔ پچھلے ماہ زینب کے گھر میں نے اسے دیکھا تھا وہ حمل سے تھی، میرے گلے لگ کر جس طرح بلک بلک کر روئی ہے میں کئی دنوں تک اس کے بارے میں سوچتی رہی تھی۔ عامر کے ساتھ جو ہوا سو ہوا پر اب تو یہی دُعا ہے کہ اوپر والا کریمہ کی زندگی میں خوشیاں بکھیرے۔

بیٹے کیا بگڑجاتا کسی کا اگر عامر کو گولی نہیں ماری جاتی، اس کے بچے ہوتے، وہ ہم سب لوگوں کا سہارا تھا، مگر ظالم اسے کھاگئے۔ آج تک پتہ بھی نہیں لگا کہ میرے معصوم عامر کا قصور کیا تھا۔ میں سوچتی رہتی ہوں اور اندر ہی اندر روتی رہتی ہوں کسی سے بات کرنے کا فائدہ بھی کیا ہے۔

مجھے پتہ ہے کہ تمہارے ابو بھی اندر سے ٹوٹ کر رہ گئے ہیں۔ وہ کسی سے بات تک نہیں کرتے ہیں، عامر کی موت کے بارے میں۔ اس کے غم کو انہوں نے اپنے اندر جیسے قید کرلیا ہے اور وہ غم انہیں اندرسے دیمک کی طرح آہستہ آہستہ چاٹ رہا ہے۔ میں تو رولیتی ہوں، آنسو بہالیتی ہوں، بھڑاس نکال لیتی ہوں اس کی یاد میں۔ رونے سے جیسے تھورے دنوں کے لئے قرار آجاتا ہے لیکن تمہارے ابو نے اس کے غم کو اپنے سینے سے ایسا لگایا ہے کہ میں تو بس ڈرتی ہی رہتی ہوں۔ اللہ انہیں محفوظ رکھے۔

تمہاری امی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ O۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جان سے پیارے بیٹے

اللہ تمہیں اپنے امان میں رکھے۔ تمہارا خط ملا اورتصویریں بھی۔ تم دبلے ہوگئے ہو بیٹا اپنا خیال رکھا کرو۔ عامر کے بعد اب تم ہی ایک سہارا ہو۔ سب تمہیں یاد کرتے ہیں۔ تم اپنے کھانے پینے کا خیال کرو اگر تین وقت نہیں تو کم از کم دو وقت ڈٹ کر کھایا کرو۔

بیٹے عامر تو چلا گیا شاید اوپر والے کی مرضی یہی تھی۔ پولیس والوں نے کسی کو نہیں پکڑا، حکومت نے کوئی مدد نہیں کی، یہ سب کچھ تو یہاں ہوتا ہی رہتا ہے نہ کوئی قانون ہے اور نہ ہی کوئی سننے والا۔ ہم لوگ تو یہ ہی صبر کرتے ہیں کہ پولیس والے ہمارے گھر کے معصوم لوگوں کو بھی پکڑ کر بند کرسکتے تھے اور انہیں ہی اُلٹا تشدد کا نشانہ بناتے تو ہم کیا کرلیتے۔ صابرہ کا بیٹا بھی ایسے ہی ڈبو کی دکان پر گولیوں کا نشانہ بنا تھا۔

چلتے ہوئے اسکوٹر سے کسی نے گولی چلا کر اسے ماردیا۔ صابرہ کی بہن کا بیٹا محسن اس کے ساتھ تھا۔ بجائے یہ کہ ملزم پکڑے جاتے بے چارہ محسن آٹھ مہینے جیل میں رہا۔ پولیس والوں کو رشوت دے کر اسے آزاد کرایا گیا اور پھرکئی مہینوں تک علاج کرنے کے بعد اب وہ اس قابل ہوا ہے، دوبارہ کام پر جاسکے۔ ہمارے ملک میں تو یہ کافی عام سی بات ہے لوگ سڑکوں پر قتل کردیئے جاتے ہیں۔ سنی شعیوں کو مارڈالتے ہیں، شیعہ سنی مسجدوں میں نمازیوں پر گولی چلاتے ہیں۔

دیوبندیوں اور اہل حدیث کا مسجدوں پر قبضے کے مسئلے پر مسلسل جھگڑا چل رہا ہے۔ پولیس مسجدیں بند کردیتی ہے، پھر عدالتیں مسجدیں بحال کردیتی ہے۔ پھر جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ ختم نبوت والوں کا گروپ ختم نبوت کے نام پر جسے چاہے ماردیتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ تمہارے ابو روزانہ اخبار میں ایسی خبریں پڑھ پڑھ کر بتاتے رہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ قانون، انسانیت اور انصاف کہاں کھوگئے ہیں۔

تم نے صحیح لکھا ہے کہ یہ سب کچھ ہمیں ہمارے اعمال کی سزا مل رہی ہے۔ مسلمان اسلام کے راستے سے ہٹ گئے ہیں اور کوئی اسلامی فوج ہی انہیں واپس اسلام کے راستے پر ڈال سکتی ہے۔ پر آج کل اسلامی فوج ہے کہاں، پہلے زمانے میں لوگ اسلام کے لئے لڑتے تھے تو ان کی اوربات تھی، اب تو مسلمانوں کے دشمن ایسے مضبوط ہیں کہ ان سے لڑنے کے لئے جو کچھ چاہیے وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ تمہارے ابو تو یہی کہتے ہیں کہ بغیر تعلیم کی دولت کے کسی سے بھی لڑا نہیں جاسکتا ہے۔ اگر تمہاری منشا یہ ہے کہ فی الحال شادی کی بات نہ کی جائے تو ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہے، تم خوش رہو۔

خط اپنی جگہ پر مگر فون پر تمہاری آواز سن کر بڑی ڈھارس ہوتی ہے کبھی کبھی فون بھی کرلیا کرو۔

تمہاری امی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ O۔ ۔ ۔ ۔ ۔

بیٹے

سدا سلامت رہو

تمہارا دوست محب اشرف ملنے آیا تھا۔ اچھا بچہ ہے، تمہاری بھیجی ہوئی چیزیں ملیں۔ یہ خط اشرف کے ساتھ بھیج رہی ہوں۔ ساتھ میں ایک سوئٹر بھی ہے تمہاری پسند کے رنگ کا۔ تمہیں بہت پسند آئے گا۔ خاصا موٹا اون لے کر بُنا ہے میں نے۔ وہاں کی سردی میں بہت اچھا رہے گا۔ اشرف نے کھانے کی چیزوں کا منع کردیا کہ آج کل ایئرپورٹ پر بڑی سختی ہے۔

تمہارے ابو کہہ رہے تھے کہ ساری دنیا میں مسلمان مسافروں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔ ہمارے نبیؐ نے ہمیشہ کافروں کو یہاں تک کہ یہودیوں کو بھی کچھ نہیں کہا جب وہ ان پر کوڑا پھینکتے تھے۔ ان کے خلاف شاعری کرتے تھے، اللہ کے گھر میں ان کے کاندھے پر اوجھڑی پھینک دی تو بھی انہوں نے معاف کیا اوراللہ نے بھی صبر ہی سکھایا اب دنیا بدل گئی ہے بیٹے، یہ سب کسی کو یاد نہیں ہے۔

یہاں بھی حالات ایسے ہی ہیں۔ رخسانہ کے لئے ایک رشتہ آیا ہے۔ اچھے لوگ لگتے ہیں۔ لڑکا سعودی عرب میں کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں جہیز وغیرہ نہیں چاہیے، بس خوبصورت لڑکی کی خواہش ہے اورانہیں رخسانہ پسند بھی آگئی ہے۔ لڑکے کی بہن نے رخسانہ کو یونیورسٹی میں دیکھا تھا۔ تمہارے ابو لڑکے کے بارے میں پتہ کررہے ہیں کسی بُری بات کا پتہ نہیں چلا تو ہاں کردیں گے۔ آج کل بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ لوگ ایک بیوی کے اوپر دوسری بیوی لے آتے ہیں۔ اگر طلاق یافتہ ہوں توبتاتے بھی نہیں۔ بیٹی کا معاملہ ہے بس ڈر لگارہتا ہے۔ عامر ہوتا تو ساری باتیں پتہ کرلیتا۔ چلو اللہ جو کرے گا اچھا ہی کرے گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4