وزیراعظم صاحب! کچھ گڑبڑ گھوٹالہ ہے


\"ammar

کچھ گڑ بڑ گھوٹالہ ہے۔ گزشتہ دو ہفتے میں حالات عجیب سی کروٹ لے رہے ہیں۔ کچھ ہونے کا امکان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ چاروں اور سراسیمگی سی پھیلی ہے۔ ایک بے چینی ہے جو حکومت کے کیمپ میں نظر آ رہی ہے۔ اپوزیشن پہلے سے زیادہ پھرتیاں دکھا رہی ہے۔ گڑے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں۔ الزامات میں شدت آ گئی ہے۔ احتجاج کی دھمکیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اسلام آباد بند کرنے کا سندیسہ مل چکا ہے۔ اس سے پہلے اٹھائیس کو ایک اور احتجاج اسلام آباد کے پیش نظر ہے۔

پانامہ لیکس کا طوفان تھم ہی نہیں رہا۔ حکومت ہر محاز پر اپوزیشن کو مطمئن کرنے کی کوشش کر چکی ہے مگر کوئی بھی مطمئن نہیں ہو رہا۔ پانامہ لیکس کے دوسرے نامی گرامی لوگوں کی طرف نہ کسی کا دھیان جا رہا ہے نہ کسی کی بساط ہے کہ ان پر بات کرے۔ بس وزیر اعظم کو مسند اقتدار سے اتارنے کی دھن سوار ہے۔ پانامہ کا فسانہ ابھی چل ہی رہا تھا کہ سرل المائدہ جان کو آ گئے۔ خبر کس نے لیک کی۔ تردید پر تردید آ رہی ہے مگر کوئی نہیں مان رہا۔ کوئی وزیر اعظم کے خاندان کا نام لے رہا ہے ، کسی کا شک ان پر ہے جوغداری کا الزام لگا رہے۔ کوئی کسی وزیر کی جان کو آگیا ہے اور کسی نے مشیر خاص پر اپنا شبہ ظاہر کیا ہے۔

اسی ہنگامے میں چیف جسٹس کا جمہوریت کی بے ثباتی کا پیغام قوم کے نام آ گیا۔ انہوں نے تو مبینہ طور پر ایک ہی ہلے میں ساری جمہوریت کو توم ڈالا۔ گو کہ اس بیان کے بارے میں تردید بھی آ گئی ہے مگر بات تو نکل گئی ہے اب تردید کو کون مانتا ہے۔ تحقیق میں کون پڑتا ہے۔ تفتیش کی کسے پرواہ ہے۔

شیخ رشید پھر اپنی جون پر آ گئے ہیں۔ جمہوریت پر شب کون کے بڑے رومان پرور نظارے دکھا رہے ہیں۔ جلا دو، گرا دو اور آگ لگا دو کے نعرے لگا رہے ہیں۔ شیخ صاحب جب چست نطر آتے ہیں تو کوئی تو بات ہوتی ہے۔ اندر کی خبر بہرحال شیخ ساحب کے پاس ہوتی ہے۔

کراچی کے حالات پرانی نہج پر واپس آ رہے ہیں۔ الطاف حسین انگلینڈ سے باعزت بری ہو چکے ہیں۔ پاک سر زمین پارٹی وجود میں آ چکی ہے۔ اسلحہ آئے روز معدنیات کی طرح برامد ہو رہا ہے۔ بینکوں میں ڈاکوں کی کہانیاں عام ہونے لگیں ہیں۔

مائنس ون کا فارمولا زیر بحث آ رہا ہے۔ نواز شریف کی برطرفی کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ کرپشن کے یک دم خاتمے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ نئے انقلاب کا نعرہ لگا یا جا رہا ہے۔ آنے والے زمانے کی ترقی کا پرچم لہرایا جا رہا ہے۔

کہانی میں اب مصالحہ ہے۔ بات سادہ نہیں، کچھ گڑبڑ گھوٹالہ ہے۔

یہ منظر اس ملک نے پہلے بھی دیکھا ہے۔ جمہوری حکومتوں کو رسوا کر کے رخصت کرنے کی روایت نئی نہیں ہے۔ اٹھاسی سے اٹھانوے تک یہی تو ہوا ہے۔ باریاں ملتی تھیں۔ وقت کم ہوتا تھا اور کرپشن زیادہ ہوتی تھی۔ جمہوری قدریں پنپنے کی فکر کسے تھی۔ ملک کا کیا بنتا ہے اس کی کسے پرواہ تھی۔ جمہور کی آواز ایسے میں کون سنتا ہے۔

سارا مسئلہ میثاق جمہوریت کا ہے۔ ملک کی دو بڑی جماعتیں اس بات پر متفق ہو گئیں کہ اب غیر جمہوری اقدامات کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گی۔ آمریت کا رستہ روک کر رہیں گی۔ یہیں سے مشکل کا آغاز ہوا۔ ایک دور جمہوریت تو جیسے تیسے گزر گیا اور اب جمہوریت کے ثمرات نظر آنے کو ہیں تو غیر جمہوری قوتوں کو اپنی بقا کی فکر پڑ گئی۔ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں ن لیگ کی متوقع فتح کا خوف سروں پر منڈلانے لگا ہے۔

اس ہنگامے میں یاد رکھنے کی بات صرف اتنی ہے کہ بھٹو کو پھانسی دی گئی تو بے نظیر اس سے زیادہ طاقت کے ساتھ واپس آئیں۔ نواز شریف کو جلا وطن کیا گیا تو تو وہ پہلے سے بڑی قوت بن کر ابھرے۔ وقتی اشتعال کے اب ہم متحمل نہیٰں ہو سکتے۔ جمہوریت کی گاڑی اب پٹڑی سے اتری تو جانے کب اسٹیشن نطر آئے گا۔ یاد رکھیے ضروری نہیں کہ سیٹی کے بجنے کے ساتھ ہی سب مسافر ایک جانب کو دوڑ پڑیں۔ بعض اوقات گاڑی کو خالی بھی سٹیشن سے جانا پڑتا ہے۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments