سٹی ہائٹس ۔۔۔۔۔ ایک درخت کا نوحہ
زمیں نے خواب دیکھا تھا
مجھے پیدا کرے گی ، پرورش میری کرے گی
موسموں کی سختیاں، تبدیلیاں برداشت کرنے کا
ہوا سے عہد باندھا تھا
مری خاطر غصیلے بادلوں سے، بارشوں سے دوستی کی تھی
زمیں ماں ہے
ہر اک ماں کی طرح
تخلیق سے پہلے ہی بچوں کے لیے
سرسبز خوابوں کی ردا ئیں بُنتی رہتی ہے
خود اپنی کوکھ کے شاداب ریشوں سے
کئی رنگوں کے مخمل \’ ریشمی موزے \’ سوئیٹر \’ ٹوپیاں \’ کپڑے
گھنی گہری مناجاتیں\’ دعائیں بُنتی رہتی ہے
زمیں نے خواب دیکھا تھا \’ یہ سوچا تھا
جواں ہوکر
مَیں جب پھولوں پھلوں گا تو
مِری خوشبو سے مہکیں گے تنفس موسموں کے
ذائقے میرے پھلوں کے نام سے منسوب ہوں گے
شاخچوں پر دھوپ چمکے گی
پرندے آشیانوں سے نکل کر گیت گائیں گے
پروں کو گدگدائیں گے
محبت کرنے والے خوبرو جوڑے
مِری چھاؤں میں بیٹھیں گے
ہمیشہ ساتھ رہنے کے ہرے وعدے
سلگتے سرخ ہونٹوں کی زمینوں پر اگائیں گے
مِرے بھورے تنے پر
پیار سے اک دوسرے کا نام لکھیں گے
مِرے بیجوں سے دھرتی پر
نئے جنگل اگیں گے، پھیل جائیں گے
زمیں ماں ہے، زمیں کا خواب تھا لیکن
زمیں زادوں کی آنکھوں میں
فلک بوسی کا سپنا ہے جسے تعبیر ہونا ہے
یہاں اب پارک کے بدلے پلازا اک نیا تعمیر ہونا ہے
زمیں مجبور ہے
دکھ سے مجھے کٹتے ہوئے چپ چاپ تکتی ہے!!
- مجھے یہ نظم نہیں لکھنی چاہیے تھی - 03/09/2023
- ہیلی کاپٹر - 27/08/2022
- مئی میں “دسمبر کی رات” اور کتابوں کی چھانٹی کا غم - 22/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).