پاکستان میں بلدیاتی اداروں کا تسلسل اور اختیارات


(عبدالوحید خان)

\"abdul-waheed-khan\"قیام پاکستان کے ساتھ ہی وطن عزیزمیں محلاتی سازشوں کا آغاز ہو گیا تھا۔ افراد سے لے کر ادارے تک اپنے اپنے اختیارات میں اضافے اور دوسروں کو زیرنگیں کرنے میں جتے رہے۔ سیاسی جماعتیں جن کا کام ہی عوام کی راہنمائی کرناہے وہ خود کہیں اور سے راہنمائی کی متمنی رہیں۔ ایسے میں بلدیاتی اداروں یامقامی حکومتوں کے نظام کو اس کی اصل روح کے ساتھ نافذ العمل کرنا تو کجا عرصہ درازتک قومی انتخابات اور قومی حکومتیں مذاق بنی رہیں اور اس مذاق مذاق میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول اپنے جوبن پر رہا۔ یوں بلدیاتی اداروں اورمقامی حکومتوں کے قیام میں جس نیک نیتی اور شفافیت کی ضرورت ہوتی ہے اس کے فقدان کے باعث اور جانے وآنے والی حکومتوں کی خواہشات و مفادات کے واضح ٹکراؤ کی بدولت پاکستان میں بلدیاتی ادارے بنتے اور ٹوٹتے رہے۔

سیاسی جماعتیں بڑی شدومد کے ساتھ جمہوریت، عوامی حقوق، اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور حکومتی معاملات میں عوام الناس کی براہ راست شرکت کی بات کرتی ہیں لیکن عملاًجب بھی جس جماعت کو اقتدار نصیب ہوتا ہے وہ بلدیاتی اداروں اور مقامی حکومتوں کی تشکیل سے بچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ پہلی دفعہ جب ایک فوجی حکمران نے پچاس کی دہائی کے آخر میں بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا تو مقامی منتخب نمائندوں کی وساطت سے مقامی سطح پر لوگوں کی حالت بہتربنانے کی بجائے مقامی حکومتوں کو انتخابی ادارے کی حیثیت دے کر اپنی مرضی کے ممبران اسمبلی منتخب کرانے شروع کر دئیے اور آخرکار انہی مقامی حکومتوں کے ممبران سے اپنے آپ کو بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح (مادرملت) کے مقابلے پر صدرمنتخب کروا لیا اورمادرملت کا ساتھ دینے والے بی ڈی ممبران کو سبق سکھانے کے لئے پولیس کوبے جا استعمال کیا گیا خود میرے والدم رحوم محمد یعقوب خان جو اپنے گاؤں سے منتخب بی ڈی ممبراورمادرملت کے پرجوش حامی تھے کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔

جنرل ایوب خان کی اقتدارسے علیحدگی کے ساتھ ہی بلدیاتی نظام کی بساط لپیٹ دی گئی اور یوں مقامی حکومتوں کا نظام بدنیتی کا شکارہوکرقصہ پارینہ بن گیا۔ جمہوریت اور جمہوری اداروں کے لئے جدوجہد اپنی جگہ لیکن پیپلزپارٹی نے کبھی بھی بلدیاتی انتخابات کروانے کا تردد نہیں کیا جبکہ ایک اور فوجی حکمران کے عہد میں جب سیاسی کارکنوں کو سڑکوں اور چوراہوں پر سرعام کوڑے مارے جارہے تھے اورسیاست شجرممنوعہ بن چکی تھی تو بلدیاتی نظام نافذ کیا گیا جس کی بدولت مقامی سطح پر تعمیر و ترقی بھی ہوئی لیکن یہ نظام بھی جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد سیاسی منظرنامہ تبدیل ہوجانے کے بعد زیادہ عرصہ نہ چل سکا۔ پھر جنرل مشرف نے مسلم لیگ ن کی چھٹی کرانے کے بعد پرانے دونوں بلدیاتی نظاموں کو سامنے رکھتے ہوئے لمبی چوڑی قطع و برید کے ساتھ جنرل تنویر نقوی کے ذریعے نظامت کانظام رائج کیا اور یوں ضلع، تحصیل، یونین ناظمین اورکونسلران کی صورت میں اپنے لئے بھرپورعوامی حمایت حاصل کرلی اور ساتھ ہی ساتھ اس بلدیاتی نظام کے ذریعے سالہا سال سے پاکستان بھر میں رائج کمشنری نظام کو ٹھکانے لگوایا جس کی وجہ سے عام لوگ آج تک ضلعی انتظامیہ میں موجود افسران کے عہدوں کے نام تک یاد کرتے رہتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تینوں مرتبہ بلدیاتی اداروں اور مقامی حکومتوں کی بدولت نچلی سطح پر کئی ایک ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے اور کئی ایک خامیوں کے باوجود اگر یہ بلدیاتی ادارے موجود رہتے تو اپنے تسلسل کے ساتھ نہ صرف خامیوں پر قابو پا لیتے بلکہ عوام کے مفاد میں زیادہ موثر طور پرکام کرتے نظرآتے لیکن ان اداروں کو جاری وساری رکھنے کی لئے ملکی سطح پر جس صلاح ومشورے، دوراندیشی اور بالغ نظری کی ضرورت تھی اس کے فقدان کے باعث اور کہیں نہ کہیں حکمرانوں کی جانب سے اپنی سیاسی ضرورت کے لئے ان اداروں کو استعمال کرنے کے عمل نے ہمیشہ ان کے تسلسل کو پامال کیا۔

مسلم لیگ ن اورتحریک انصاف دونوں نے اپنے اپنے منشورمیں بلدیاتی انتخابات کرانے کا وعدہ کر رکھا تھا لیکن یہ بیل بھی سپریم کورٹ کے دباؤ پر ہی منڈھے چڑھی اور بلدیاتی انتخابات کرائے گئے۔ بلوچستان میں سب سے پہلے اور پھر خیبرپختواہ، سندھ، اسلام آباد اورپنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے لیکن صوبہ پنجاب میں مخصوص نشستوں کے انتخابات کے لئے شیڈول جاری ہونے کے بعد کئی دفعہ ملتوی کیا گیا اور عملاً صوبائی حکومت ان نوخیز بلدیاتی اداروں کا مبینہ طورپر گلہ دبانے کیلئے کوشاں نظر آئی اور ایسے میں یہ خدشات تقویت پکڑتے رہے ہیں کہ موجودہ حکمران اپنے اختیارات کی تقسیم نہیں چاہتے۔ بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق ان دنوں پنجاب کے مختلف اضلاع میں بلدیاتی اداروں کی مخصوص نشستوں پرہونے والے میونسپلٹی اور ضلع ویونین کونسلزمیں ہونے والے انتخابات سے یہ امید بندھ چلی ہے کہ یہ ادارے انتخابی عمل کی تکمیل کے ساتھ اپنا کردار فعال طور پر ادا کرتے نظرآئیں گے۔

برطانیہ میں بسنے والے پاکستانی یہاں کے بلدیاتی اداروں اور مقامی حکومتوں کے نظام اور کام سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کس طرح اپنے مقررہ وقت پر انتخابات کرائے جاتے ہیں اور مرکزی حکومت کی مخالف جماعتوں کی جن کونسلز میں حکومت بن جاتی ہے ان کے مینڈیٹ کا مکمل احترام کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اگر نیک نیتی کے ساتھ بلدیاتی اداروں کو پنپنے کا موقع اور اختیارات دے دئیے جائیں تو معاشرے میں پھیلے کئی ایک مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے اور وارڈ کی سطح پر منتخب بلدیاتی نمائندوں اور عام آدمی کی براہ راست شرکت سے گلی، نالی، صحت وصفائی، تعلیم اورامن عامہ کی صورت حال بہتر سے بہتر بنائی جاسکتی ہے لیکن اس مقصد کے لئے صوبائی حکومتوں کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments