عمران خان کا اسلام آباد مارچ


\"irshad

عمران خان کی تحریک انصاف کے اسلام آباد مارچ کی تیاریاں عروج پرہیں۔ تحریک انصاف کےکارکن اورلیڈر قریہ قریہ گھوم رہے ہیں تاکہ لوگوں کو گھروں سے نکالا جاسکے اورانہیں پاناما لیکس پرحکومت اور بالخصوص وزیراعظم نوازشریف کے خلاف متحرک کیا جا سکے۔ اگرچہ ابھی تک اسلام آباد میں کوئی قابل ذکر جوش وخروش نظر نہیں آتا لیکن عمران خان ہجوم اکھٹا کرنے اور شہریوں کو متحرک کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں اور وہ ایک ایسا ماحول پیداکردیتے ہیں کہ لوگوں کو گمان ہونے لگتاہے کہ اس مرتبہ کوئی نہ کوئی کھڑاک ضرور ہوگا۔

وفاقی حکومت کافی نروس ہوچکی ہے۔ وہ ماضی کے برعکس عمران خان کا راستہ روکنے اور انہیں اسلام آباد سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن جتن کرنے کا عہد کرچکی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ محض دباؤ ڈالنے کا ایک بہانہ ہو تاکہ عام لوگوں کوخوف زدہ کرکے اسلام آباد مارچ سے دور رکھا جا سکے۔ حکومت یہ تلخ حقیقت نظر انداز کررہی ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کی سیاسی حیات کا راز ہی کشمکش میں پنہاں ہے۔ انہیں جتنا روکا اور دبایاجاتاہے وہ اتنی ہی زیادہ قوت سے ابھرتے ہیں۔ گلی، محلوں اورچوپالوں میں موضوع گفتگو بنتے ہیں۔ گھر گھر ان کا چرچا ہوتاہے۔ درجنوں ٹی وی چینلز کی بدولت عمران خان سرشام ہر ڈرائنگ روم میں آدھمکتے ہیں۔ کسی کو اچھا لگے یا برا لیکن قومی سیاست میں تحریک انصاف کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے ہی ایک حقیقی حزب اختلاف کا کردار ادا کیا ہے۔

روز اول سے عمران خان کا ہدف پنجاب کی سیاست میں غلبہ پانا ہے۔ انہیں بخوبی ادراک ہے کہ جب تک وہ تخت لاہور پر قابض نہیں ہوتے پاکستان پر ان کا کنڑول مکمل نہیں ہوسکتا۔ قارئین کی تفہیم کے لیے عرض ہے کہ قومی اسمبلی کی کل 342 نشستیں ہیں.جن میں سے183 پنجاب میں پائی جاتی ہیں.فرض کریں کہ اگرسندھ، خیبر پختون خواہ، بلوچستان، قبائلی علاقہ جات اور وفاقی درالحکومت اسلام آباد کی سوفی صد نشستیں بھی تحریک انصاف جیت جائے تو اس کے پاس کل 159 نشستیں ہوں گی۔ حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت چاہیے یعنی کم ازکم 172 نشستں درکار ہیں۔ چند ماہ قبل ایک صحافی نے عمران خان سے پوچھا کہ وہ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر میں تنظیم سازی پر توجہ کیوں نہیں کرتے؟ ان کا جواب تھا: تحریک انصاف کی اسلام آباد میں حکومت قائم ہوجائے تو مظفرآباد اور گلگت بلستان کی حکومت ان کی جیب کی گھڑی کی ماند ہوگی۔ اس ایک مختصر تبصرے سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ نون لیگ اور تحریک انصاف کے مابین جو سیاسی ٹسل پائی جاتی ہے وہ بنیادی طور پر پنجاب کے اقتدار پر قبصہ کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔

ابھی تک بظاہر نون لیگ کا پنجاب میں کلا مضبوط ہے۔ ترقیاتی کام بھی ہوتے نظر آتے ہیں۔ گورننس میں روزبہ روز بہتری محسوس ہوتی ہے۔ امن وامان معقول حد تک قائم ہے۔ بجلی کا بحران پہلے کے مقابلے میں کم ہے اور اگلے چند ماہ میں مزید کمی کے امکانات ہیں کیونکہ نیلم جہلم بجلی گھر اور کچھ دیگر چھوٹے منصوبے تکمیل کے قریب ہیں۔

تحریک انصاف پنجاب میں جن ایشوز کی سیاست کررہی ہے وہ عام لوگوں کو زیادہ متاثر نہیں کرتے۔ کرپشن اور بدعنوانی ایک ایسی برائی ہے جس کے خلاف لچھے دار گفتگو تو سب ہی کرتے ہیں لیکن عملاً ہر تیسرے گھر کی دہلیز پر ھذا فضل من ربی کی تختی آویزاں ہوتی ہے۔ بدعنوان شخصیات کو سماج میں ارفع مقام حاصل ہے۔ لوگ انہیں کامیابی کی علامت تصور کرتے ہیں اورگھروں میں ان کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ بدعنوانوں اور چوروں کے خلاف معاشرتی شعور کی سطح بہت پست ہے۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے مابعد شروع ہوتاہے اور ابھی تک جاری اور ساری ہے۔ لوگوں نے غیر مسلموں کی مہنگی جائیدادیں اونے پونے اپنے نام الاٹ کروائیں اور ریئس کہلائے۔ اب ان ریئسوں کی اولادیں موج کررہی ہیں اورعام لوگ خاک چاٹ رہے ہیں۔

عالم یہ ہے کہ ملک کا کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں جو وثوق سے یہ دعوی کر سکے کہ اس کا دامن صاف ہے۔ اس ماحول میں تحریک انصاف کی چیخ وپکار نقار خانے میں طوطی کی آواز کی مانند ہے جسے کون سنتا ہے۔ ایسے آوازیں صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر قانع ہو جائیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک سماج میں شعور کی سطح بلند نہیں ہوگی اس وقت تک پاناما سیکنڈل پر لوگ سیخ پا نہیں ہوں گے۔ تحریک انصاف کو کچھ دیگر ایشوز خاص طور پر بے روزگاری، روز افزوں مہنگائی اور کچھ ایسے امور پربھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے جن سے عام شہری متاثر ہوتے ہیں۔

یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ محض حسن اتفاق ہے یا پھر کچھ اور کہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم نوازشریف کو پاناما لیکس پر عدالت میں پیشی کا سمن جاری کردیا ہے جو کہ موجودہ حالات میں ایک غیر معمولی اقدام ہے۔ اگرچہ قانون کی لغت میں یہ نوٹس ایک رسمی سی کارروائی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا لیکن اس کی ٹائمنگ سے تحریک انصاف کی مہم کو مہمیز ضرور ملتی ہے۔ اسی طرح چند دن قبل چیف جسٹس کی جانب سے یہ کہنا کہ ملک میں جمہوریت نہیں بادشاہت قائم ہے حکومت کے لیے ایک دھچکے سے کم نہیں۔ یہ بیان عمران خان کے بیانات کی تائید تصور کیا گیا۔

بقول وزیراعظم نواز شریف ڈگڈگی بجانے والے بھی متحرک ہوچکے ہیں۔ سیرل المیڈا کی خبر کے بعد حکومت اور اداروں کے درمیان محاذ آرائی کی سی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ یہ خبر کس نے اور کس کے ایما پر لیک کی، اب کوئی معمہ نہیں رہا۔ کور کمانڈر کانفرنس میں عسکری قیادت اس خبر پر اپنا سخت ردعمل ظاہر کر چکی ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں نئے چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری کا پروانہ بھی جاری ہونا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق وزیراعظم نوازشریف صاحب، جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ حکومت اورعسکری اداروں کے مابین پائی جانے والی غلط فہمی بھی تحریک انصاف کوشہ دے رہی ہے لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ، اسلام آباد میں یہ سننے میں آرہا ہے کہ عمران خان اب عسکری اداروں کے سابق ملازمین کے مشوروں پرزیادہ کان نہیں دھرتے۔

موجودہ کشیدہ سیاسی حالات میں پیپلزپارٹی بڑی مہارت سے اپنا کھیل کھیل رہی ہے۔ بلکہ بقول عمران خان کے پچ کے دونوں طرف بیٹنگ کررہی ہے۔ خورشید شاہ کے بیانات دیکھیں تو گمان ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے حلیف ہیں لیکن بلاول بھٹو کی گفتگو اور پریس کانفرنسیں نون لیگ کی حکومت کے خلاف شعلے اگلتی ہیں۔ پنجاب میں پی پی پی کے مستقبل کا دارومدار اس کی تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اور انتخابی شراکت داری میں مضمر ہے۔ اعترازاحسن اور قمر الزمان کائرہ اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں اور وہ تحریک انصاف کے ساتھ درپردہ مراسم بھی رکھتے ہیں۔ بلاول بھٹو بھی ان کی پشت پناہی کرتے ہیں تاکہ نون لیگ کو پنجاب میں زیر کیا جا سکے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ اگلے عام الیکشن میں تحریک انصاف اور پی پی پی کے مابین پنجاب اور کے پی کے میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوجائے۔

۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments