خاتون صحافی کا صحافت کے منہ پر تمانچا


\"zeffer05\"خبر بنتی ہے، کہ ایک مرد نے، ایک عورت کہ منہ پہ تھپڑمار دیا، یا یہ کہ ایک ایف سی اہل کار نے ایک خاتون رپورٹر کہ منہ پر تمانچا جڑ دیا۔ رپورٹر اور پھر صنف نازک؟ توبہ توبہ۔ یہ صحافیوں ہی پر ہونے والے ظلم کی داستان نہیں، جو جاں فشانی سے عوام تک خبر پہنچاتے ہیں، بل کہ عورت پر ناروا سلوک کا مقدمہ بھی ہے۔ میں اپنے آپ کو نہ صحافی سمجھتا ہوں، نہ صحافی کہتا ہوں، نہ صحافی ہوں۔ اس لیے نہیں کہ صحافت کا پیشہ کوئی گالی ہے۔ اس لیے کہ صحیفہ پہنچانے کی جو تربیت درکار ہے، اسے حاصل نہیں کر سکا۔ آج سے کوئی آٹھ برس پہلے کراچی شہر میں منتقل ہوا، تو کسی حوالے سے مجھے ایک نیوز چینل میں ملازمت کی پیش کش ہوئی، دوستوں نے مشورہ دیا، کہ یہ پیش کش قبول کرلوں۔ میں نے عذر پیش کیا، کہ میرا شعبہ ٹیلی ویژن ڈراما ہے، نیوز نہیں۔ ایک دوست نے سمجھایا کہ کراچی شہر، اور یہاں کے لوگوں کو سمجھنے کے لیے مجھے یہ نوکری کرلینی چاہیے۔ مجھے اس دوست کی یہ بات پسند آئی، تو نیوز چینل کے ”انفوٹینمنٹ ڈپارٹمنٹ“ میں پروڈیوسر کے طور پہ بھرتی ہو گیا۔ محض ڈیڑھ برس ملازمت کے بعد استعفا دے دیا، کہ میرے لیے اپنے پسندیدہ شعبے میں آسانیاں پیدا ہوگئی تھیں۔

ملازمت کے ابتدائی ایام کا قصہ ہے؛ ان دنوں ”مدر ڈے“ قریب تھا، تو مجھے ایک اسائنمنٹ دی گئی، کہ سیاست دانوں سے ان کی ماں کے بارے میں تاثرات رکارڈ کر کے لاؤں۔ جب پیپلز پارٹی کے رہ نما جناب تاج حیدر کے تاثرات رکارڈ کر رہا تھا، تو وہ اپنی ماں کو یاد کرتے بلک اٹھے۔ ایک شخص جو خود دادا نانا کی عمر کا ہے، اپنی ماں کو یاد کر کے رو پڑا ہے، بہت دل گیر کردینے والا منظر تھا۔ میرے ساتھی کیمرا مین کے تن بدن میں جیسے کسی نے بجلی بھر دی ہو۔ زوم اِن کیا ہی تھا، کہ میں نے ”کٹ“ کہ دیا۔ کیمرا مین دائیں بائیں ہوتے، تاج حیدر صاحب کے بالکل قریب چلا گیا، تو میں نے قدرے غصے سے ”کٹ“ کہا، اور اس کی سرزنش کی، کہ جب میں نے کٹ کرنے کو کہا، تو وہ کیوں ریکارڈ کر رہا ہے! اس نے منمناتے ہوئے جواب دیا، کہ میں تو آپ کی مدد کر رہا تھا، لوگ ایسے جذباتی مناظر بہت شوق سے دیکھتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے، کہ میں نے کیا جواب دیا، ”کسی کے آنسو بیچ کر، مجھے ریٹنگ نہیں لینی۔“ میری ساری ٹیم کا خیال تھا، کہ میں نے جذبات میں آکر ایک اچھا ”موقع“ گنوا دیا۔ میں آج بھی اس موقف پہ قائم ہوں، کہ آنسووں ہی کی مدد سے ریٹنگ لینی ہے، تو اس کے لیے ٹیلے ویژن ڈراما کافی ہے۔ سنسنی پھیلانا، دوسروں کو کسی کے جذبات بیچنا، اور جذبات پہنچانا، ان دونوں میں فرق ہے۔ یہ وہی فرق جو ”ڈراما“ اور ”خبر“ کے بیچ میں ہے۔۔ یہ واقعہ سن کر، اب آپ میرے کہے گی تائید کریں گے، کہ میں صحافی نہیں ہوں۔ میری ایسی تربیت ہی نہیں ہوئی، کہ ”ایسا“ صحافی بنتا۔

ٹیلی ویژن ڈراموں ہی کی طرح، نیوز چینل پہ بھی میرے کچھ تحفظات ہیں۔ اس لیے کم کم دیکھتا ہوں۔ انھی دنوں ایک خاتون رپورٹر کی وڈیو ”وٹس ایپ“ پر موصول ہوئی۔ بتایا گیا کہ یہ نادرا کے دفتر کی کوریج کے دوران کی فوٹیج ہے۔ خاتون جس طرح سے مخاطب تھی، معلوم ہو رہا تھا، وہ کوئی مجسٹریٹ ہیں، جو موقع ہی پر سزا دینے کے لیے مامور کی گئی ہیں۔ جس طرح انھوں نے ایف سی اہل کار کو ”رسوا“ کیا، وہ بھی، اور جس طرح ایف سی اہل کار نے ”جواب“ دیا، وہ بھی آپ سبھی دیکھ چکے ہوں گے۔ یہاں یہ سوال نہیں کہ ایف سی، پولِس، صحافی قوم پر کیا کیا احسان کرچکے ہیں، یا کون کون سی خدمات سرانجام دینا باقی ہیں۔ میڈیا سے تعلق ہونے کے ناتے سے، میں صاف کہتا ہوں، خاتون نے جو رویہ رکھا، نہ وہ صحافت ہے، اور نہ ایف سی اہل کار کو ایک غلط عمل کا جواب، غلط ردعمل سے دینا چاہیے تھا۔ اس واقعے کا انجام یہ ہوگا، کہ فریقین میں صلح نامہ ہو جائے گا، کیوں کہ دونوں ہی قصوروار ہیں۔ مجھ سے پوچھیں تو میں صحافی خاتون کو زیادہ قصوروار سمجھوں گا، کیوں کہ غلطی کی ابتدا ان سے ہوئی۔

یہ صحافت کا کون سا نمونہ ہے، کہ آپ کسی بھی گھر میں، کسی بھی راستے میں کھڑے ہوجائیں، اور کسی پہ کیمرا فوکس کرتے، یوں سوال جواب شروع کر دیں، جیسے وہ کسی دشمن ملک سے سرحد پار کر کے آیا ہے، اور آپ اس کا مقدمہ لگائے بیٹھے ہیں۔ آپ ہی وکیل، آپ ہی منصف کی گدی پہ براجمان ہیں۔ نیوز چینلوں پہ ان پروگراموں کی بھرمار ہے، جن میں چھوٹے چھوٹے تاجروں کی دکانوں، گوداموں، فیکٹریوں پہ کیمرا ٹیم کے چھاپے دکھائے جاتے ہیں، بتایا جاتا ہے، کہ عوام کے ساتھ کتنی زیادتی ہوتی ہے، گدھے کا گوشت کھلایا جا رہا ہے، کتے کی چربی سے بنا گھی ہے۔ وغیرہ۔ میڈیا سے وابستہ افراد یہ جانتے ہیں، کہ سنسنی پھیلاتے، ایسے کئی پروگرام ”اسکرپٹڈ“ ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد سنسنی پھیلانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ فارمولا ہے، سنسنی پھیلا کر ریٹنگ اٹھاؤ۔ آپ ان ٹیلے ویژن چینل پر کوئی ایک پروگرام نہیں دکھا سکیں گے، کہ کیمرا ٹیم نے کسی ملٹی نیشنل کمپنی، یا فائیو اسٹار ہوٹل کے کچن پہ چھاپا مارا ہو۔ مار کر دیکھیے، وہ آپ کو نکلنے کی راہ نہیں دیں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے، کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں انھی ٹیلے ویژن چینل کو کروڑوں کا دھندا دیتی ہیں۔ اس لیے ان کے خلاف کوئی پروگرام نہیں ہو سکتا۔ کوئی ”جری“ ایسا کچھ رکارڈ کر لائے، تو وہ پروگرام نشر نہیں ہو سکتا۔

تصور کیجیے، آپ اپنی بیوی کے ساتھ کسی پارک میں گھوم رہے ہیں، اور دوچار لوگ آپ پر کیمرا فوکس کرتے یہ سوال کرنے لگیں، کہ بتائیے آپ یہاں‌ کیا کر رہے ہیں، کیوں ائے، کس کی اجازت سے آئے، ان خاتون سے آپ کا کیا رشتہ ہے، نکاح‌ نامہ دکھائیے؛ وغیرہ۔ بیوی ہی کیوں، آپ کسی کے ساتھ گھوم رہے ہیں، تب بھی کسی صحافی کو ایسے سوال کرنے کی اجازت کس نے دی؟۔ ایسے ہی کوئی بنک میں، یونیورسٹی میں، تھانے میں، نادرا کے دفتر میں، اسپتال میں، جی ایچ کیو میں گھس جائے، اور سوال جواب شروع کر دے تو؟۔ صحافی کو ایسا کرنے کا حق کیسے حاصل ہوا؟ کیا یہی تحقیقاتی صحافت ہے؟ جب کسی سرکاری ادارے میں ریکارڈنگ کے لیے جانا ہو، تو آپ کو متعلقہ اداروں سے ایک قاعدے کے مطابق اجازت نامہ حاصل کرنا ہوتا ہے؛ یہی نہیں آپ نے جتنا بتا کر اجازت لی ہوتی ہے، اسی حد کے اندر رہتے اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی گھر، یا نجی ادارے میں مالک کی اجازت کے بغیر داخل ہونے کی صورت میں، زبردستی گھس آنے والے کے خلاف ایف آئی آر کٹ سکتی ہے۔ میرے گلے میں صحافی کا کارڈ لٹکا ہونے کا یہ مطلب نہیں، کہ میں کسی چار دیواری میں زبردستی داخل ہوجاؤں، اور نشر کرنے لگوں، کہ یہاں کیا ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ رپورٹنگ کرنا، اور عدالت لگانا، یہ دو الگ عمل ہیں۔ رپورٹنگ میں سنسنی پیدا کرنے کے لیے غلط ہتھ کنڈے استعمال کرنا، صحافت نہیں، صحافتی اصولوں سے انحراف ہے۔ صحافت جیسے مقدس شعبے کی تضحیک ہے۔ ایف سی اہل کار نے یہ تمانچا خاتون کے منہ پر نہیں، بل کہ اس خاتون رپورٹر نے صحافت کے منہ پر لگایا ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments