جالب جیل میں اکیلا کیوں تھا؟


\"wajahat1\"غالب پنشن بحال کروانے کے لئے کلکتہ گئے۔ دور کا سفر تھا، غالب مزاج کے اشراف تھے۔ پنشن تو خیر کیا بحال ہوتی، ایسٹ انڈیا کمپنی کی راجدھانی کلکتہ میں مرزا نوشہ نے آنے والے زمانے کی جھلک دیکھ لی۔ گورا صاحب بہادر کی جیب میں رکھی ماچس کی ڈبیا پر حیران ہوئے اور فرمایا \”یہ اصحاب تو جیب میں آگ کا سامان لئے پھرتے ہیں\”۔ شاید اسی حیرت کے رد عمل میں کوئی سو برس بعد اقبال نے لکھا ہوگا، ید بیضا لئے پھرتے ہیں اپنے آستینوں میں۔ فرق ملاحظہ کر لیجئے، غالب کا مشاہدہ یہ کہتا تھا کہ ایک بڑھتی اور پھیلتی ہوئی توانا قوم کے عام افراد بھی حیرت کا معدن ہوتے ہیں۔ غلام اور زیردست قوم کے شاعر کو خرقہ پوشوں کی تلاش تھی جو فوق العادت صلاحیت رکھتے ہوں۔غالب اور اقبال ایک ہی روایت کی کڑیاں ہیں لیکن حالات، طبائع اور ردعمل بالکل مختلف۔

کلکتہ کے اسی سفر میں غالب نے ریل گاڑی دیکھی۔ بظاہر ریل گاڑی برصغیر کے طول و عرض میں فوج کی سریع الرفتار نقل و حرکت کا ذریعہ تھی لیکن ریل گاڑی نے ہندوستان کو انتظامی تار و پود بھی بخشا۔ مختلف منطقوں کے رہنے والے ہندوستانیوں میں باہم میل جول کا امکان بڑھا۔ بولان کی چوٹیوں اور گنگا جمنی میدانوں میں جہاں جہاں ریل کی پٹری پہنچی، وہاں لال ٹوپی والے کی لالٹین بھی آن پہنچی۔ ان دنوں ہم اپنے ملک میں ایک راہداری تعمیر ہونے کی خبریں سن رہے ہیں۔ انیسویں صدی کے وسط میں ریل گاڑی نے ہندوستان بدل دیا تھا۔ \"icffirst\"بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں آب پاشی کے نئے نظام نے پنجاب کو بدل کر رکھ دیا۔ اب توجہ سے دیکھنا چاہئے کہ اقتصادی راہداری کے رگ و ریشے سے پاکستان کے کن حصوں تک آکسیجن پہنچے گی؟ کن کی آنکھوں میں چمک آئے گی؟ کسے روزگار مل سکے گا؟ قلم اور کتاب تک رسائی کی کیا صورتیں ہوں گی؟ کیا علاج معالجے کی سہولتیں ان حرماں نصیبوں تک بھی پہنچ سکیں گی جو زندگی کی پہلی سالگرہ دیکھنے سے پہلے ہی انتقال کر جاتے ہیں، ان ماو ¿ں کی زندگیوں میں بھی اس راہداری سے کچھ ہمواری آ پائے گی جو ایک نئی زندگی کو اس دنیا میں لانے کی کشمکش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ فی الوقت خبر یہ ہے کہ ہم اکتوبر 2016 کے جنگل میں ہیں۔ پنجاب ہائی کورٹ کے جج شمیم حسین قادری کے نام ایک پیغام میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا \’ابھی ہم جنگل سے نہیں نکلے\’۔ چالیس برس گزر گئے ہیں، ہم آج بھی جنگل سے گزر رہے ہیں۔

جنگل میں بھید پائے جاتے ہیں۔ بے پروا حسن کی رونمائی، انہونی کا دھڑکا، اور کسی انجانے موڑ پر خطرے سے آنکھیں چار ہونے کا \"dr-mubashir-hasan\"اندیشہ۔ جنگل کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے۔ ہمارے لکھنے والے نے رات کے اندھیرے میں جنگل سے گزرتی ریل گاڑی کا منظر بیان کرنا چاہا تو لکھا کہ یوں معلوم ہوا گویا چراغوں کی ایک قطار ہے جسے کوئی ان دیکھی رسی سے باندھے کھینچ رہا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں 1920 کی دہائی کے کچھ چراغ یاد کر لوں جنہوں نے ہماری نسل کے لئے روشنی کا سامان کیا۔ 1921 سے 1930 تک دس برس ہوتے ہیں اور درویش نے دس چراغ چن لئے۔ آپ چاہیں تو اپنے حسب طبع دس مختلف چراغ چن لیں۔ مجھے یقین ہے کہ روشنی میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔ مبشر حسن، انور علی (ننھا)، مشتاق احمد یوسفی، انتظار حسین، ناصر کاظمی، اشفاق احمد، داؤد رہبر، منیر نیازی، آئی اے رحمٰن اور ضیا محی الدین۔غلامی کے جنگل سے یہ سب اور ایسے ان گنت دوسرے چراغ قطار اندر قطار نکلے اور ہم بیک وقت آزادی اور تقسیم کے دوراہے پر آپہنچے۔ ٹھیک سے یہ بتانا مشکل ہے کہ اس دوراہے پر کیا واقعہ پیش آیا تھا مگر سات دہائیوں کا سفر کچھ ایسے گزرا کہ ہر چراغ کو اپنی ہی لو میں آندھی سے لڑنا پڑا۔ فیض نے کہا تھا ’اک شمع کو حلقہ کیے بیٹھے رہو یارو‘۔ لیکن اس بیچ ایسے مرحلے بھی آئے کہ کوئی شمع کو حلقہ کرنے والا بھی نہ بچا۔ باچا خان آٹھ برس قید تنہائی میں نظر بند رہے۔ 1958 آیا تو ملک میں ایک ہی آواز سنائی دیتی تھی، رستم خان کیانی۔ چٹاگانگ کے ریسٹ ہاؤس میں کیانی صاحب خاموش ہوگئے تو لاہور میں ابو الاعلیٰ مودودی نے للکار کر کہا \’اگر میں بھی بیٹھ گیا تو کون کھڑا رہ سکے گا؟\’ حیدر آباد دکن سے آنے والے حسن ناصر نے لاہور کے عقوبت خانے میں موت کو گلے لگایا تو بالکل اکیلا تھا۔ بیروت کے ہوٹل میں حسین شہید سہروردی اکیلے تھے۔ 1962 کے دستور کو نامنظور قرار دینے والا شاعر اکیلا تھا۔ یحییٰ خان کی آمریت کو چیلنج کرنے والی عاصمہ جہانگیر اکیلی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عتاب کا سامنا کرنے والا معراج محمد خان اکیلا تھا۔ چار اپریل 1979 کی \"meraj-muhammad-khan-3\"رات راولپنڈی جیل میں ذوالفقار علی بھٹو اکیلا تھا۔ سکھر جیل میں بے نظیر بھٹو اکیلی تھی۔ اٹک قلعے میں نواز شریف اکیلا تھا۔ 2004 میں جاوید ہاشمی اکیلا تھا۔ 2016 میں پرویز رشید اکیلا ہے۔ اور ہاں یاد آیا 1857 کے اندولن کے بعد نیپال کے جنگلوں میں تانتیا ٹوپے بھی اکیلا تھا۔ قومیں چراغوں کی قطار اور فرد کی تنہائی کی باہم کشاکش سے خدوخال پاتی ہیں۔ کبھی ایسا سانحہ بھی گزرتا ہے کہ گروہ کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ایک چراغ جلتا رہے تو قوم کا امکان ختم نہیں ہوتا۔

ہمارے محترم عمران خان بڑے کٹیلے رہنما ہیں۔ اسلام آباد پر چڑھائی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم پائی ہے۔ تاریخ تو ان کے ناخنوں میں بھری ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں میگنا کارٹا کی لڑائی لڑ رہا ہوں۔ بادشاہ کو قانون کے دائرے میں لانا ہے۔ تیری آواز مکے اور مدینے۔ میگنا کارٹا تو تاریخ ساز معاہدہ تھا جو تیرھویں صدی میں انگلستان کے مطلق العنان بادشاہ اور عوام کے درمیان طے پایا تھا۔ اس شجاعانہ سفر میں عمران خان صاحب کے لئے بہت سی نیک تمنائیں لیکن یہ وضاحت عمران خان نے نہیں فرمائی کہ اکیسویں صدی کے اسلام آباد میں بادشاہ کون ہے؟ قومی سلامتی کے اس موسم میں بادشاہ کی نشاندہی آسان نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ ایک پرانا واقعہ پڑھتے ہیں اور بات \"jalib-1\"ختم کرتے ہیں۔

یحییٰ خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد حبیب جالب رہا کر دیے گئے۔ لارنس باغ کے باہر جھنجھلائے ہوئے پھر رہے تھے۔ کسی نے غصے کا سبب پوچھا تو اپنے مخصوص انداز میں بولے ’جب سے رہا ہو کے آیا ہوں، جو ملتا ہے، مجھے بتاتا ہے کہ جالب بھائی یحییٰ آمریت کے خلاف آپ نے اور میں نے مل کر بہت جدوجہد کی۔ مجھے غصہ اس لئے آ رہا ہے کہ اگر آمریت کے خلاف جدوجہد میں یہ سب لوگ حبیب جالب کے ساتھ تھے تو حبیب جالب جیل میں اکیلا کیوں تھا؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments