اعتماد لیک ہوا


شاہد عباس

\"Shahidایک صحافی کے علاوہ دو سے تین لوگ شک کی زد میں ہیں۔ جو تحقیقات مکمل ہونے تک ملک سے باہر نہیں جا سکتے اور یہ تحقیقات زیادہ سے زیادہ چاردن میں سامنے آجائیں گی۔ اور میں اس بات کا آپ کو یقین دلاتا ہوں۔‘ یہ خلاصہ ایک صحافی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے اور اس پہ ہونے والے واویلا کے بعد چوہدری نثار علی خان صاحب کی جوابی پریس کانفرنس کا ہے۔ نو بج کر تیس منٹ پر خبر لیک ہونے کے بنیادی کردار کی بیرون ملک روانگی، ایف آئی اے سے اس روانگی کی تصدیق، اور دو سے تین مزید لوگوں کے شامل ہونے جیسی حقیقتیں ایسی ہیں جو اس وقت چوہدری نثار علی خان کے لیے حقیقی معنوں میں پہلی دفعہ مشکل پیدا کیے ہوئے ہیں۔

خبر اخبار کی زینت بنتے ہی میڈیا میں ایک طوفان سا برپا ہو گیا۔ کچھ لوگ اس کو قومی سلامتی کا مسئلہ مان رہے ہیں لیکن کچھ اس کو صرف اعلیٰ صحافت گردان رہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس اہم ترین خبر میں جو ملک کی اعلیٰ ترین سول و عسکری قیادت کے متعلق ہے اس میں تحقیق کا عنصر یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ 14 اکتوبر کی پریس کانفرنس میں اسی خبر کے مندرجات کا ذکر کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان کا یہ کہنا کہ خبر میں خود صحافی نے کہا کہ میں نے اس خبر کی تصدیق کی کوشش کی لیکن جن ذمہ داران سے بھی رابطہ ہو پایا انہوں نے اس خبر کی تردید کی۔ اس کے باوجود اس خبر کا یوں شائع ہو جانا نہ صرف بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے بلکہ ملکی سلامتی کے حوالے سے عسکری قیادت کی بے چینی کا سبب بھی ہے۔ جس اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی اس کے معتبر ہونے میں راقم کو کبھی شک نہیں رہا تھا۔ مگر تردید کی گئی خبر کی اشاعت، اس پہ قائم رہنے اور عالمی جگ ہنسائی ہونے کے باجود اس کی تردید نہ آنا بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔

آزاد میڈیا نے خود کو ذمہ دار میڈیا نہ کہلوانے کا شاید مصمم ارادہ کر لیا ہے۔ کیوں کہ تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو جب سے میڈیا آزاد ہوا تب سے بریکنگ نیوز کے چکر میں تحقیق و جستجو کا پہلو یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ تحقیق کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ آئی سی آئی جے نے پوری دنیا کو پانامہ لیکس سے ہلا کر رکھ دیا لیکن انہوں نے عجلت میں یہ کام نہیں کیا بلکہ اس سکینڈل کے پیچھے ایک سال سے زائد کی عرق ریزی شامل تھی۔ اور پانامہ لیکس تحقیقاتی صحافت کا منہ بولتا ثبوت بھی تھا۔ جس میں پوری دنیا سے صحافی شامل تھے۔ لیکن حالیہ خبر کے شائع ہونے سے پوری دنیا کے میڈیا کو پاکستان پہ انگلی اٹھانے کا نہ صرف موقع ملا ہے بلکہ وہ اپنے موقف کو سچ کہنے کا جواز بھی یہی خبر پیش کرنے لگے ہیں۔ ہندوستان ٹائمز، الجزیرہ، انڈیا ٹوڈے وغیرہ میں اس سٹوری کو بہت اہمیت دی گئی ۔ انڈین ایکسپریس میں ایک پاکستانی صحافی کا آرٹیکل اس موضوع کے بارے میں نمایا ں طور پر شائع کیا گیا اور اس آرٹیکل میں جس طرح تین مفروضوں پہ بات کی گئی وہ اپنی جگہ بہت دلچسپ ہے۔

یہ صرف ایک خبر لیک ہونے کا معاملہ نہیں رہا۔ بلکہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے اہم دوراہا ہے۔ اعتماد لیک ہوا ہے۔ اس خبر کے لیک ہونے پہ جس طرح کا ردعمل عسکری قیادت نے دکھایا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تمام کور کمانڈرز کے نزدیک یہ قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا تھا کہ اس طرح کی خبر میڈیا کی زینت بنے۔ آرمی چیف کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد یہ خبر سول و ملٹری قیادت کے لیے الگ الگ اپنی جگہ اپنا کردار واضح کرنے کا باعث بھی بن رہی ہے۔ حکومتی جماعت کی عسکری قیادت سے چپقلش کی جو تاریخ رہی ہے وہ دوبارہ سے سامنے آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ صرف محدود اعلیٰ ملکی شخصیات کے میٹنگ میں موجود ہوتے ہوئے بھی ایسی خبر کا باہر نکلنا یہ ثابت بھی کرتا ہے کہ یہ خبر کسی عام ذریعے سے میڈیا تک نہیں پہنچی۔ اور عسکری قیادت مکمل ہم آہنگی سے جب اس خبر کو قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دے چکی ہے تو تمام دباؤ سول قیادت پہ آ چکا ہے کہ وہ اس خبر کے محرکات تک پہنچے۔ اس حوالے سے غیر اعلانیہ میڈیا سیل سمیت، بہت سے ایسے پردہ نشینوں کے نام بھی زیر گردش ہیں جو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتے ہیں۔

چوہدری نثار علی خان پہ اب دباؤ اس لیے بھی زیادہ ہے کہ وہ خود مان چکے ہیں کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں۔ چوہدری صاحب ایک مضبوط اور واضح موقف کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ جب کہ کئی دن گزر چکے ہیں۔ ان کا وعدہ ایفا نہیں ہوا۔ اور وہ وعدوں کے پکے مشہور ہیں۔ لہذا آنے والے دن یہ ثابت کریں گے کہ سول و ملٹری چپقلش کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ یا پھر شیخ رشید کی چوہدری صاحب کے حوالے سے دس دنوں والی پیش گوئی سچ ثابت ہو گئی۔ انتظار کیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments