نومبر کا محاذ
سِرل المیڈا کی \’\’جادو کی پٹاری\’\’ کھلنے کے بعد خبر پر تبصرہ کرنے والے مزدوروں یعنی کالم نگاروں کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہیں۔ ایک طرف حکومت اور \’\’اسٹیبلشمنٹ\’\’ اس خبر کو لیک کرنے والے کی تلاش میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں تو دوسری جانب مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس معاملے پر\’\’چسکے\’\’ لینے کا سلسلہ جاری ہے۔ خورشید شاہ اور عمران خان نے تو لگائی بجھائی کا سارا الزام سویلینز المعروف مسلم لیگ (ن) کے سر منڈھ دیا ہے جس کے جواب میں اب تک مسلم لیگ (ن) صرف سٹپٹا ہی سکی ہے۔ دھرنے کے شوقین عمران خان نے پانامہ پیپرز پر ایک\’\’ فائنل دھرنے پلس اسلام آباد بند\’\’ کے انتظامات کے لئے کارکنوں سے \’\’چندے \’\’ کی اپیل کر دی ہے جس سے شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس بار اس حرکت کا بوجھ علیم یا ترین صاحبان کے ناتواں کندھوں پر نہیں بلکہ عوام کے سر ہو گا۔ اس اپیل کے جواب میں کہیں اور نہیں مگر سوشل میڈیا پر مزاحیہ تبصروں کی ایک بھرمار ہے جس سے ہر کوئی لطف لیتا نظر آرہا ہے۔
جیسے جیسے \’\’دھرنے پلس اسلام آباد بند\’\’ کی تاریخ قریب آ رہی ہے ویسے کم از کم میڈیا کی سطح پر ہیجان میں کسی قدر اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ دوسری جانب آج کل میاں صاحبان کے دھماکے دار بیانات دیکھیں تو یہ اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ وہ یہ بڑھکیں غصے میں لگا رہے ہیں یا وہ پریشانی میں نکل رہی ہیں۔ محمد زبیر، دانیال عزیز اور طلال چوہدری بالکل چابی والے گڈوں کی طرح عمران خان اینڈ کمپنی کے ہر بیان کے بعد مختلف چینلز اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے پی ٹی آئی کے الزامات کا رخ واپس ان ہی کی جانب موڑنے کی ناکام کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن یوں لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور خصوصاً میاں صاحب کو پانامہ لیکس کے معاملے پر عدالت میں جواب تو لازماً دینا ہو گا۔ اگر ٹھنڈے دل سے آف شور کمپنیوں سے متعلق سوالات اور دنیا بھر میں اس معاملے پر کی جانے والی کارروائی اور بحث کا جائزہ لیا جائے تو اپوزیشن کے مطالبات کچھ ایسے غلط بھی نہیں لگتے بس یہ ہے کہ دارالحکومت کو بند کر کے عوام کو احتجاج کے نام پر پریشان کرنے کے اقدامات کے اعلان سے خان صاحب نے خوامخواہ کی بدنامی مول لے لی ہے اور بجائے لوگ میاں صاحب پر سوال اٹھائیں موضوع بحث اسلام آباد کی بندش ہی بن کر رہ گیا ہے۔
پنجاب میں سیاسی ہانڈی اگر ابلتی نظر آرہی ہے تو سندھ میں بھی کوئی \’\’ٹھنڈ پروگرام\’\’ نہیں چل رہا۔سابق ناظم کراچی اور موجودہ گورنر سندھ کے حالیہ \’\’ملاکھڑے\’\’ نے بڑے بڑے سیاسی جغادریوں کو انگلیاں دانتوں تلے دبانے پر مجبور کردیا ہے۔ اب یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ بعد از ٹوٹ پھوٹ، ایم کیو ایم میں کون سا دھڑا کس کے ساتھ کھڑا ہے۔ قبل ازیں مصطفیٰ کمال کے سامنے آنے پر بہت سے حلقے انھیں اسٹیبلشمنٹ کے مہرے کے طور پر پیش کر رہے تھے۔ ایم کیو ایم میں مزید دھڑے بندی اور گورنر سندھ کے تازہ بیانات کے بعد یہ تاثر بھی پس منظر میں جاتا لگ رہا ہے۔ عشرت العباد نے مصطفیٰ کمال کے الزامات کا جس لہجے اور جن الفاظ میں جواب دیا ہے اس سے یہ اندازہ تو بہرحال ہو گیا ہے کہ عشرت العباد بھی کوئی ہلکے کھلاڑی نہیں اور وہ بنا \’\’فائٹ\’\’ آرام سے اپنی جگہ چھوڑنے والے نہیں۔ ان کے تابڑ توڑ حملے مصطفیٰ کمال پر اب تک کی جانیوالی سب سے خطرناک \’\’سرجیکل اسٹرئیک\’\’ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ دوسری جانب اس الزام در الزام کی بھر مار نے کراچی کے شہریوں خصوصاً ایم کیو ایم کے ووٹروں کے دماغ میں سوالات کی ایک یلغار کر دی ہے۔ اگلے الیکشن میں ایم کیو ایم کے دھڑوں کی کیا صف بندی ہو گی، ایم کیو ایم لندن اور پاکستان کا کیا کردار ہو گا اور کراچی میں جاری آپریشن کس کروٹ بیٹھے گا، یہ وہ معاملات ہیں جو بجائے سلجھنے کے الجھتے ہی جا رہے ہیں۔
ملک میں جاری اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مستقبل کا کوئی خاکہ بنانے کی کوشش کی جائے تو نومبر سیاسی طور پر ایک نہایت تہلکہ خیز مہینے کے طور پر سامنے آتا دکھائی دیتا ہے کہ جس میں ایک طرف حکومت کو پی ٹی آئی کے ساتھ فائنل کھیلنا ہے تو دوسری جانب نئے آرمی چیف کی تقرری کا امتحان بھی حکومت کے سر پر ہوگا۔ اپوزیشن کی باقی جماعتیں بھی اس صورت حال کو نہایت غور سے دیکھ رہی ہیں اور اگر حکومت کی جانب سے کسی بھی طرح کی کسی بے وقوفی یا جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا تو یہ بات یقینی ہے کہ اس کی پوزیشن مزید کمزور ہو گی۔ اسٹیبلشمنٹ کو پیش قدمی کا موقع مل جائے گا اور اگلے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے لئے پنجاب اور سندھ کا محاذ مزید گرم ہو جائے گا جو موجودہ حکومت کبھی بھی نہیں چاہے گی۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت ان تمام چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے جارحانہ اقدامات اور بیانات سے اجتناب برتتی ہے یا ماضی کی طرح اس بار بھی مسلم لیگ (ن) قوت کا جواب قوت ہی سے دینے کی روایت برقرار رکھتی ہے۔
مصنف کا تعارف
میرا نام خرم صدیقی ہے اور میں کراچی یونیورسٹی میں صحافت کا طالب علم رہا ہوں۔ آج کل میرا تعلق ایک نیوز میڈیا کے ادارے سے ہے۔ لکھنا میرا شوق ہے اور آج پہلی بار آپ کی محفل میں شامل ہونے کا خواستگار ہوں۔
- خان صاحب سے گزارشات - 02/11/2016
- نومبر کا محاذ - 23/10/2016
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).