شدید خارجی خطرات کے سائے میں جاری سیاسی بحران


\"tanveerتاریخ کا مطالعہ کریں تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی کسی قوم پر کڑا وقت آیا ہے تو قوم متحد ہو جایا کرتی تھی۔ قوم کے بڑے اپنے تمام اختلافات بھلا کر ایک ہو جایا کرتے تھے۔ پاکستان اس وقت بھارت سے نبرد آزما ہے۔ کشمیر میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے جس پر بھارت کی طرف سے مظالم کئے جا رہے ہیں۔ بھارتی حکومت جنگ کی دھمکیاں دے چکی ہے۔ بلوچستان میں \”را\”موساد اور سی آئی اے کی سازشوں کا سامنا ہے۔ کراچی میں را کے وسیع نیٹ ورک کا انکشاف ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا میں امن و امان کا مسئلہ ہے۔ امریکہ ڈومورکا مطالبہ کرتا چلا جا رہا ہے۔ سی پیک منصوبے کو متنازع بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ غرض وہ تمام علامتیں موجود ہیں۔ جو کہ کسی قوم کو متحد کر دیا کرتی ہیں لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے شاید ہمارے رہنما حالات کی سنگینی کا اندازہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہاں ضرورت اس امر کی تھی کہ قومی قیادت کو ملک کے حالات اور چیلنجز سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی جاتی اس کے بعد ان سیشن اجلاس کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ قوم سے خطاب کر کے حالات کی سنگینی کا احساس دلایا جاتا، قوم کوتیار کیا جاتا لیکن ایسی صورت حال میں بھی ہمارے ملک کی اعلیٰ قیادت ملک سے باہر تھی جب کہ بھارت سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کر رہا تھا۔

اس وقت وطن عزیز میں سیاسی ماحول سخت کشیدہ ہو چکا ہے۔ پانامہ لیکس میں نام آنے کے بعد سے تحریک انصاف وزیراعظم سے استعفے اورتحقیقات کا مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے۔ ماضی میں بھی تحریک انصاف اسلام آباد میں تاریخ کا سب سے طویل دھرنا دے چکی ہے اور اس بار بھی تحریک انصاف نے 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عمران خان نوجوانوں کے مقبول ترین رہنماء ہیں اور حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ اسلام آباد میں عوام کو جمع کرنا تحریک انصاف کے لئے چنداں مشکل کام نہیں ہے۔ تحریک انصاف ملک کے کسی بھی مقام پر لوگوں کا جم غفیر جمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن اسلام آباد بند کرنے سے کیا ہوگا اور اس کے نتائج کیا نکلیں گے اس کا اندازہ نہ تو خان صاحب کو ہے اور نہ ہی دوسری اپوزیشن جماعتوں کو اس کی پروا ہے۔ صرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے نتائج بہت خطرناک نکل سکتے ہیں۔

اس حوالے سے ملکی اور عالمی سطح پر پیشن گوئیاں جاری ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اسلام آباد بند کرنے سے تیسری قوت فائدہ اٹھائے گی اور جمہوریت ڈی ریل ہوجائے گی۔ بعض کے نزدیک اسلام آباد بند ہونے سے سی پیک منصوبہ متاثر ہوسکتا ہے۔ چین بھی موجودہ صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار کرچکا ہے اورچینی سفیر نے عمران خان صاحب سے ملاقات کر کے معاملہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر ذور دیا ہے۔
تناؤ کی یہ کیفیت ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوئی ہے جب کہ ایک طرف بھارت لائن آف کنٹرول پر در اندازی کر رہا ہے تو دوسری طرف کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف آزادی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ جاری ہے۔ ایسے میں پاکستان کے اندر سیاسی بحران کا پیدا ہونا یقیناً ملک دشمن قوتوں کو فائدہ دے گا۔ امریکہ اسرائیل ایران اور بھارت سمیت عرب ممالک بھی نہیں چاہتے ہیں کہ سی پیک منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے۔ کیا دوست اور کیا دشمن ہر ملک اپنے مفاد کی خاطر پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ گوادر پورٹ کی تکمیل سے عرب ممالک اور ایران براہ راست متاثر ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق سی پیک منصوبے سے 2030 تک 7 لاکھ لوگوں کو براہ راست روزگار ملے گا اور ملک کی سالانہ ترقی کی شرح2  سے ڈھائی فیصد بڑھے گی۔ سی پیک کا پاکستان کی سالانہ آمدن میں 17 فیصد ہوگا۔ اس منصوبے سے 2020 تک 10 ہزار 400 میگاواٹ یومیہ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔ جس سے ملک میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت کسی بھی رہنماء کو اس منصوبے کی قدرومنزلت کا احساس نہیں ہے۔ ہر سیاسی جماعت اپنی سیاست کی دکان چمکانے میں لگی ہوئی ہے۔
حالیہ کچھ عرصے میں سول ملٹری تعلقات میں بھی سخت کشیدگی دیکھنے میں آئی ہے۔ یقیناً یہ حکومتی ناعقبت اندیشی کی مثال ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ فوج بیک وقت تین مختلف محاذ پر ملک دشمنوں کا مقابلہ کر رہی ہے تو ایسے میں اپنی ہی فوج کو بدنام کرنے کی احمقانہ کوشش کرنا ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ غلطی شاید حکومت کو بہت بھاری بھی پڑے گی۔ باوجود اس کے کہ حکومت اس وقت شدیدپریشانی سے دوچار ہے اور حکومتی رہنماؤں کی جانب سے بجائے اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے تندوتیز بیانات دیئے جارہے ہیں۔ پیپلزپارٹی اس ساری صورت حال سے الگ تھلگ ضرور ہے لیکن وقت آنے پر پیپلز پارٹی بھی سڑکوں پر آسکتی ہے۔ اگر میاں صاحب دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے تو شاید ایسی صورت حال پیدا نہ ہوتی۔ اپوزیشن کے مطالبے پرجوڈیشل کمیشن کی تشکیل معاملات کو حل کرنے کا اشارہ ہوتی لیکن شاید میاں صاحب کے قریبی مصاحبین کو اندازہ نہیں تھا کہ حالات اس قدر سنگین ہوجائیں گے۔ اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ خان صاحب نے کشتیاں جلا دی ہیں۔ اب عمران خان کسی صورت اسلام آباد بند کرنے سے دستبردارنہیں ہوں گے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا نوٹس لے لیا ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید بہت دیر کی مہرباں آتے آتے کے مصداق اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔

اب اگر حکومت اپوزیشن کے خلاف طاقت کا استعمال کرتی ہے تو ملک داخلی انتشار کا شکار ہوجائے گا۔ جب امن و امان کی صورت حال خراب ہوگی تو مجبوراً فوج کو داخلی معاملات میں مداخلت کرنے پڑے گی۔ اس طرح جمہوریت ڈی ریل ہوسکتی ہے۔ اگر حکومت اپوزیشن کو نہیں روکتی انہیں احتجاج کرنے دیتی ہے تو ماضی کو دیکھتے ہوئے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کب مشتعل ہجوم پارلیمنٹ کی طرف مارچ کا فیصلہ کرلے۔ ایسی صورت میں بھی امن وامان کی صورت حال مزید خراب ہوگی۔ نتیجہ پھر وہی نکلے گا کہ فوج کو مجبوراً مداخلت کرنے پڑے گی۔ لیکن آثاراور ذرائع بتاتے ہیں کہ فوج اس وقت کسی ایسے ایڈونچر کے موڈ میں نہیں ہے۔ فوج اپنا کام کرنا چاہتی ہے۔ اعلیٰ عسکری اداروں کو ترجیح اس وقت لائن آف کنٹرول کی صورت حال اور دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن ہے۔ بہرحال ہونے کو کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن نقصان پاکستان کو پہنچے گا، سی پیک منصوبہ متاثر ہوگا، سرمایہ کار اپنا سرمایہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔ ملک عد استحکام کا شکار ہوگا۔ اس صورت حال سے بچنے کی ایک راہ یہ بھی ہے کہ میاں صاحب کمیشن بنا کر استعفیٰ دے دیں۔ اور جب تک انکوائری مکمل نہیں ہوجاتی عنان حکومت کسی دوسرے کے حوالے کر دیں۔ ماضی میں بھی پنجاب میں دوست محمد کھوسہ وزیراعلیٰ رہے ہیں جن کے بعد شہباز شریف صاحب وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔ یہاں دلچسپ صورت حال اس لحاظ سے ہے کہ میاں صاحب کسی پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ ن لیگ پلان اے بی اور سی بنا چکی ہے جو وقت آنے پر سامنے لائے جائیں گے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ ملک ایک بحران کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن اس بحران کو روکنے کو کوئی بھی تیار نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments