دہلی، دعا اتنی جلدی قبول کیوں کر لی خدایا؟


\"jamal

دفتری امور کے سلسلے میں انڈیا جانا ہوا۔ تقریباً تین برس وہاں قیام رہا۔ اس دلچسپ سفر کی روداد پیش کرنے کی ٹھانی تھی کہ مصروفیت کچھ اس درجہ بڑھی گویا خدائے بزرگ و برتر ہمیں اس کام سے باقاعدہ باز رکھنا چاہتے ہیں۔ کچھ فرصت ہوئی تو یاد آیا کہ ابھی تو انڈیا ٹھیک طرح پہنچے بھی نہیں تھے کہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔ یادش بخیر، انڈیا پہنچ کر دفتری معاملات اگلے ہی دن سے شروع تھے، داستان جمال بھی وہیں سے شروع کرتے ہیں۔

دفتر پہنچے اور باقاعدہ دفتری امور کی انجام دہی شروع کر دی۔ دہلی میں انڈین ائیر لائن ہماری ہینڈلنگ ایجنٹ ہے، صرف تین لوکل سٹاف پی آئی اے کے مستقل ملازم ہیں۔ جن میں انور، ثناالحق اور عرشیہ بیگم شامل ہیں۔ یہ تینوں پی آئی اے کی نمائندگی کرنے اور ہینڈلنگ ایجنٹ کی کارکردگی کی نگرانی کرنے پر مامور ہیں۔ باقی تمام امور کی ادائیگی کے لیے انڈین ائیر لائن کا عملہ مختص ہے۔ جو دس پندرہ لوگوں پر مشتمل ہے۔

اب سب سے پہلا کام مکان کی تلاش تھی کیوں کہ ہوٹل میں زیادہ دن رہنے میں نقصان مایہ کی فکر تھی۔ چنانچہ دفتری اوقات کے بعد اور کئی دفعہ ان کے دوران بھی پراپرٹی ڈیلرز کے پھیرے شروع کر دئیے۔ کئی گھر پسند آئے مگر سب کچھ معلوم ہو جانے کے بعد جب یہ معلوم ہوتا کہ ہم پاکستانی ہیں تو سب سے پہلے تو مالک مکان کے چہرے کا رنگ بدلنا شروع ہو جاتا، پھر بدن بولی کچھ اور ہی کہانی سنانے لگتی۔ آخر میں کہا جاتا کہ کل فائنل بتا دیں گے۔ اور کل کسی کے دادا جی نہ مان رہے ہوتے اور کسی کے چاچا جی کی فیملی گاؤں سے اچانک شفٹ کر آتی۔ ایک صاحب نے تو صاف صاف بتا دیا کہ ماتا جی نے کہا ہے کہ اگر کسی مٌسلے کو گھر دیا تو میرا مرا منہ دیکھنا۔ ایک اور بات ہم نے خاص طور پر نوٹ کی (محض اتفاق ہو گا) کہ اکثر پراپرٹی ڈیلرز کے نام کے آخر میں ”در“ ضرور آتا جیسے نریندر، بریندر، راجندر، منندر، شیلندر وغیرہ۔

\"img_0838\"

شہر میں حضرت نظام الدین کے مرقد کے آس پاس مسلمانوں کی اکثریت رہائش پذیر ہے اور انہیں کی مناسبت سے اس آبادی کا نظام الدین ایسٹ اور نظام الدین ویسٹ ہے۔ اکثر لوگوں کی رائے تھی کہ مکان وہاں لے لیا جائے اور وہاں مل بھی رہا تھا مگر ساری عمر خاکسار کا یہ اصول رہا ہے کہ رہائش ڈیوٹی کی جگہ سے نزدیک ترین علاقے میں رکھی جائے تاکہ کسی ایمرجینسی کی صورت میں ائیرپورٹ جلد از جلد پہنچا جا سکے۔

نظام الدین سے ائیرپورٹ کے راسطے میں ایک تو ٹریفک جیم بہت ہوتا تھا اور پہنچنے میں کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ لگتا تھا۔ تو حضور تین گھنٹے روزانہ کی ڈرائیونگ ایں جانب کے لیے کسی طور ممکن نہ تھی۔ اس لیے ائیر پورٹ کے قریب کی آبادیاں جیسے وسنت وہار، رنگ پوری، ماہی پال پور، دوارکا وغیرہ چھاننا شروع کر دیں اور بالاخر بڑی ردوکد کے بعد ائیرپورٹ کے قریب کی صاف ستھری آبادی دوارکا (جو صرف بیس منٹ کی ڈرائیو پر ہے) کی ایک اچھی سوسائٹی گلیکسی اپارٹمنٹس میں تین کمروں کا فلیٹ مل گیا۔ گھر بہت اچھا اور مکمل فرنشڈ تھا۔ یعنی دو ائیر کنڈیشنڈ، دو ٹی وی، واشنگ مشین، فریج، گیزر، مکمل فرنیچر غرض ہر لحاظ سے بہترین تھا۔ ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ دیر آید درست آید (ویسے تو ماشاللہ ایک سے بڑھ کر ایک دانشور حضرات اور نابغے آج کل ٹیلی ویژن پر رونق افروز ہوتے ہیں مگر کافی دنوں سے اس محاورے کی مٹی پلید ہوتی دیکھی جا رہی ہے۔ اکثر اسے دیر آئے درست آئے کہا جا رہا ہے۔ اور ایسے ایسے لوگ کہتے ہیں کہ بے ساختہ سر پیٹنے کا دل چاہتا ہے ۔۔۔ ان کا!)

\"img_0837\"

یہاں دستور ہے کہ پراپرٹی ڈیلرز دونوں پارٹیوں سے ایک ماہ کا طے شدہ کرایہ بطور کمیشن وصول کرتے ہیں، چنانچہ مبلغ ستائیس ہزار روپے انڈین سکہ رائج الوقت ان کی نذر کیا، مالک مکان کو ایک سال کا کرایہ ایڈوانس ادا کیا اور نئے مکان میں شفٹ ہو گئے۔ گھر اتنا خوبصورت اور ضرورت کی ہر چیز سے آراستہ تھا کہ اگر پاکستان سے کمترین کی بیگم نے آنا نہ ہوتا تو ایک نئی پتنی کے لیے مکمل انتظام موجود تھا۔

آہستہ آہستہ زندگی اسی ڈھرے پر آ گئی جیسے ملتان سے لے کر چلے تھے۔ وہی صبح صبح اٹھنا، دفتر کے لیے تیار ہونا، اور شام کو تھکے ہارے واپس گھر لوٹ آنا۔ مگر اس زندگی میں ایک نیا پن اور حسن یہ تھا کہ ”فیملی“ نہیں تھی۔ جو لوگ تیس برس سے قید و بند شادی میں مبتلا ہیں وہی اس آزادی کا صحیح لطف اٹھا سکتے ہیں کہ ہر چیز ”بازار“ کی آ رہی ہے۔ گرما گرم، چٹ پٹی، ڈانٹ ڈپٹ اور لاگ لپٹ کے بغیر۔ جب دل چاہا نیچے اترے اور گاڑی میں بیٹھے اور سڑکیں ماپنا شروع کر دیں۔ جب وقت لامحدود اور پٹرول سرکاری ہو تو نئے شہر میں گھومنے کا الگ ہی مزا ہے۔ پندرہ ہی دنوں میں دہلی کے اکثر قابل دید (اور بیشتر ناقابل دید) مقامات دیکھ ڈالے۔ حضرت نظام الدین کے مزار پر تو اکثر حاضری رہتی۔ اتنا عجیب لگتا کہ واقعی ہم قطب مینار کی سیر کر رہے ہیں، جہاں عامر خان نے ”چاند سفارش جو کرتا ہماری“ گایا ہے۔ یا ہمایوں کے مقبرے کی تصویریں لی جا رہی ہیں، یہ رہا کناٹ پیلیس اور یہ رہا انڈیا گیٹ، غرض سب کچھ ایک خواب سا لگتا تھا، بقول اپنی کرینہ کپور، ”ارے واہ، ہم رتلام کی گلیوں میں گھوم رہے ہیں، کتنا عجیب لگ رہا ہے۔“ نہیں صاحب فلم کا نام ہم نہیں بتائیں گے، اب اگر آپ نے اتنی بہترین فلم بھی نہیں دیکھی تو آپ کو اس ڈائیلاگ سے لطف اندوز ہونے کا کوئی حق نہیں۔

\"img_0839\"

جیسا کہ عرض کیا حضرت نظام الدین کی درگاہ پر اکثر حاضری کا شرف ملتا تھا۔ ذاتی تجربہ ہے یہاں مانگی گئی دعا بڑی تیزی سے در قبولیت سے منظور ہو جاتی ہے۔ ہمیں انڈیا کے سفارت خانے میں پاسپورٹ جمع کرانے کے تقریباً چھ ماہ بعد ویزا ملا تھا۔ اس کے بعد ہم نے فیملی کا پاسپورٹ فروری کے شروع میں جمع کروایا اور خود دہلی کے لیے روانہ ہو گئے۔ سب کا خیال تھا کہ تقریباً تین چار ماہ تو ضرور لگیں گے۔ یہ مارچ کے وسط کی بات ہے، چتلی قبر کے قریب چہلم کے جلوس میں شرکت کے بعد ہم حاضری کے لیے درگاہ پہنچے اور نماز عشا کے بعد غیر ارادی طور پر دعا مانگی کہ یا اللہ، جلدی سے فیملی کا ویزا لگ جائے۔ یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ دعا میں کوئی اضطراب بھی نہیں تھا۔ مگر آپ حیران ہوں گے کہ دو دن بعد صبح دفتر پہنچ کر کمپیوٹر کھولا تو ای میل آئی ہوئی تھی کہ آپ کی فیملی کا ویزہ لگ چکا ہے اور فلاں پرواز سے پاسپورٹ ملتان بھیجے جا رہے ہیں۔

یقین مانیے ایک لحظے کے لئے تو ایسا لگا جیسے دل رک جائے گا۔ اتنی سرعت سے دعا قبول ہو گی؟ یہ تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ اے فلک، تجھ سے چار دن بھی ہماری آزادی کے نہ دیکھے گئے؟ خیر صاحب، خود کردہ را علاج نیست، گھر والوں کو خوشخبری سنائی اور بلاوے کے انتظامات شروع کر دئیے۔ بالاخر وہ شبھ گھڑی بھی آ گئی جب بیٹی اور بیگم آن پہنچیں۔ مارچ کا آخری ہفتہ تھا، دہلی میں گرمی پڑنا شروع ہو چکی تھی۔ آمد پر سارے عملے نے زبردست سواگت کیا اور کیوں نہ کرتے، آخر اسٹیشن منیجر صاحب کی فیملی تھی۔ چوں کہ رات کے کھانے کا وقت ہو چکا تھا اس لیے ائیر پورٹ سے سیدھے پہاڑ گنج کے ذائقہ ریسٹورینٹ گئے۔ اس عرصے میں ہم دہلی کے اچھے اچھے کھابوں والے حلال ریسٹورینٹ چھان چکے تھے۔ منیجر صاحب سے اچھی سلام دعا تھی۔ انہوں نے بھی خوب آؤ بھگت کی۔ مگر ایک مسئلہ ہو گیا، آؤ بھگت کے چکر میں سارا وقت ہماری میز پر ہی براجمان رہے، اور اپنی ذاتی نگرانی میں کھلاتے رہے، آپ خود بتائیے، بھلا خاک کھایا جائے گا۔ دستور میزبانی تو یہ ہوتا ہے کہ عملہ کو ہدایات دے کر مہمان کو آزادی سے کھانے کا موقع دیا جاتا ہے نہ کہ اس کے سر پر سوار ہو کر نوالے گنے جائیں۔

\"img_0836\"

کھانا زہر مار کر کے گھر پہنچے۔ شکر ہے اہل خانہ کو بھی گھر پسند آیا۔ ایک بیڈ روم بیٹی نے لے لیا۔ ایک ہم دونوں کا ہو گیا۔ اور تیسرا اس مہمان کے لیے تیار کر لیا جو ان تین برس میں تو کبھی نہیں آیا، ہمارے واپس آنے کے بعد کی خبر نہیں ( بقول اپنے نصیر الدین شاہ، ”مذاق تھا بھئی مذاق“)

گلیکسی سوسائٹی کے جنرل سیکرٹری جناب سہگل صاحب کی معرفت کام والی بائی سنیتا بھی رکھ لی گئی اور یوں جمال میاں تین سال کے لیے باقاعدہ دہلی میں قیام پذیر ہو گئے۔ اگلے دن بازار سے کچن کا سامان، کٹلری، سبزی، کریانہ وغیرہ خریدا گیا اور شام کو تقریباً دو ماہ بعد بیگم کے ہاتھ کا کھانا کھایا۔ واہ واہ لطف آ گیا (Wink)۔ لیکن جتنی ہلکی پھلکی اور دبلی پتلی روٹیاں سنیتا بناتی تھی اس کا واقعی جواب نہیں۔ انڈیا سے واپس آنے کا اور کوئی دکھ ہو یا نہ ہو، یہ افسوس ضرور ہوا کہ ہم سنیتا کے پکائے ہوئے نازک نازک، گرم گرم پھلکوں سے محروم ہو گئے جو بلامبالغہ ہم تو سات آٹھ کھا جاتے تھے۔

چوں کہ چھڑوں کو کہیں بھی معزز نہیں سمجھا جاتا اس لیے فیملی آنے کے بعد دعوتیں بھی شروع ہو گئیں اور فنکشن اور شادیوں میں شرکت کے لیے بھی باقاعدہ بلاوے شروع ہو گئے۔ معزز قارئین، یادیں اتنی گڈ مڈ ہو رہی ہیں کہ فی الحال ایک شعر پر یہ مضمون ختم کرتے ہیں، یار زندہ صحبت باقی۔

“کہاں تک پڑھو گے، کہاں تک پڑھائیں؟
ہزاروں ہی یادیں ہیں کیا کیا سنائیں؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments