پُنوں نے مجھے حرفِ راز سکھایا


\"jamshedپُنوں پُل اڈا خاص نواب پور پہ بُوڑھے برگد کے سایے میں سالن روٹی والے کا دھوتی پہننے والا چھ سالہ اکلوتا بیٹا تھا۔ جب اُس نے مجھے حرفِ راز سکھایا تو میں بی اے کے امتحانات کے بعد درسی کتب سے آزادی کا جشن ان کتب کی بنیاد بننے والی کتب پڑھ کر منا رہا تھا۔ ان دنوں ہمارے قصبے کے ایک نوجوان کراچی سے خوب کما کر اور ایک دینی جماعت سے اس قدر متاثر ہوکر لوٹے تھا کہ انہوں نے قصبے میں کندری نہر کے کنارے تمام اسلامی مسالک کی نمائندہ کتب پر مشتمل ایک لائبریری بنا ڈالی تھی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہاں بیٹھ کر جو بھی تحقیق کرے گا وہ اُن کا ہم مسلک ہوجائے گا۔ لائبریری بنانے کے بعد انہوں نے ہر نوجوان کو کتب بینی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی لیکن چند ماہ تک میرے علاوہ کسی کو قائل نہ کر پائے۔

جب میں نے نو تعمیر شدہ ہال کی شیلفوں میں کتابیں ہی کتابیں بھری دیکھیں تو مطالعے کی پیاس بھڑک اٹھی۔ وہ مجھے اپنے مسلک کے بی ایس سی پاس عالم کی کتب دینے لگے تو میں نے پہلے انکار کیا اور بعد میں تسلی کرا دی کہ آخری منزل تو آپ کا مسلک ہی ہے لیکن منزل کا اصل لطف اس بھٹکاؤ اور اس سفر میں ہے جو آپ منزل پر پہنچنے کے لئے کرتے ہیں۔ جو آسانی سے مل جائے وہ منزل بھی راستہ لگتی ہے۔ وہ میری اس منطق کے سامنے فوراً ڈھیر ہوگئے اور میرا بھٹکاؤ آسان کرنے کے لئے مجھے لائبریری کی ہر کتاب پڑھنے کی اجازت دے کر لائبریری کے اندر لگے بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت فرما دی کہ راہِ راست پر آنے کے بعد میرا فرض ہے کہ میں اُن سے چمٹا رہوں۔

لائبریری میں بہت سے ایسے علما کی کتب موجود تھیں جو خود کو درست کرنے سے پہلے مذہب درست کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ کتب اور مشمولات دیکھتے دیکھتے میں نے اُس عالم کی کتاب اٹھالی جنہوں نے بی ایس کی بجائے ا نڈین سول سروس کا امتحان پاس کررکھا تھا۔

مجھے ایک ہفتے میں ایک کتاب مکمل کرنی ہوتی تھی۔ کتب پُر مغز تھیں اور اس خوبی سے آراستہ کہ عقل کی بجائے صدیوں سے بند ناک

\"Wali

کھول کر رکھ دیتیں۔ میری ناک کھلی تو پہلی بار مجھے ہرچیز سے عجمی سازش کی بو آنے لگی۔ میں پڑھتا گیا اور وہ پھر وہ مقام آیا کہ میں سازشوں کے علاوہ کچھ اور سونگھنے کے قابل نہ رہا۔ یہ وہ مقام ِ محمود تھا جہاں پہنچ کر میرے اندر دُوسروں کی بند ناک کھولنے کا شوق پیدا ہوا۔

مصنف نے میری کایا ایسی الٹائی کہ مجھ بے خبر کو پہلی بار خبر ہوئی کہ وطن ِ عزیز مذہب کے لئے نہیں بلکہ مذہب وطنِ عزیز کے لئےاترا ہے۔ حق و باطل کے تمام فیصلے یہیں پر ہونے ہیں۔ یہیں سے شور ِ محشر اٹھنا ہے اور حساب و کتاب کے لئے مختص ارض موعودہ بھی یہی ہے۔ لیکن ان تمام خوبیوں اور بشارتوں کے باوجود اس ارضِ موعودہ کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ وہ یہ کہ یہاں نہ صرف خرافات میں لتھڑے عجمی آباد تھے اور وہ بھی اس قدر گستاخ کہ جو اچھے بچے بن کر چپ رہنے کی بجائے بلاغت کی گستاخی کربیٹھے تھے۔یہ سب پڑھ کر میں اکثر کفِ افسوس ملتا کہ کاش میں مطالعہ پاکستان کے پرچوں سے قبل مصنف کو پڑھ لیتا۔

بات عجمیوں کی گستاخیوں کی ہورہی تھی۔ مصنف کے پاس ان کی ہر گستاخی کا حل تھا۔ جیسے لوہے کو لوہا کاٹتا ہے ویسے ہی وہ ٹھیٹ پنجابی اور اُردو ئے معلیٰ کی آری سے اس سازش کا جگر مسلسل کاٹ رہے تھے۔

ایک دن میں مطالعے میں غوطہ زن تھا کہ لائبریری کے مالک نے مجھے جھنجھوڑ کر یہ بتانے کے لئے نکالا کہ شہر کے ایک صنعت کار ہر جمعے کے روز علامہ کے ویڈیو درس کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ سن کر میں قصبے میں موجود ایک سندھی دوست کے ساتھ ہر جمعے درس میں شامل ہونے لگا۔

\"village\" درس میں علامہ صاحب خالص پنجابی لہجے میں مغربی فلسفہ کی زنبیل سے اپنی پسند کی رنگ برنگی ٹوپیاں نکالتے اور نت نئی سارشیں بے نقاب کرتے۔ میں اور میرا دوست واپس آکر ایک ہفتے تک سندھی اور سرائیکی زُبان میں عجمی سازشیں بے نقاب کرتے رہتے۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ کچھ لوگوں کی ناک کھلتی تو اس کی باس میں ہماری عجمیت دب جاتی۔

کتب اور درس نے ہماری اس فہم کو سہ آتشہ کردیا کہ خُدا کو لغات کے علاوہ کہیں اور تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ دنیا میں انسانوں کی غالب تعداد عجمیوں پر مشتمل تھی ؛ اس لئے نفسِ انسانی اور شعور کی بھول بھلیوں میں اس کی تلاش عبث تھی۔ ایسے میں راغب اور قاموس کے علاوہ کوئی اور جگہ نہیں بچتی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ جیمز جوائس کی طرح خُدا نے بھی اپنے آپ کو زبان میں مستور کر رکھا ہے۔

اس سہولت کے علاوہ ڈکشنریوں میں خُدا تلاش کرنا ہمارا قومی فریضہ اور حب الوطنی کی دلیل بھی تھا۔ مصنف کا دعویٰ تھا کہ وہ خُدا کو کہیں اور تلا ش کررہے تھے لیکن مصورِ پاکستان انہیں اپنی رہنمائی میں منزل ِ لغات تک لے آئے اور پھر انہوں نے خود اپنے اوپر ان ڈکشنریوں کے احسانات بھی گنوادیے۔وہ خود لُغات کی مدد سے مشیت ِ خُدا وندی تک پہنچے اور اب وہ ہر خاص و خواص کی سہولت کے لئے ایسی لغت تشکیل دے چکے تھے جن میں ہزاروں لوگ کئی سالوں سے خُدا تلاش کررہے تھے۔

 یہ تلاش مجھے بھی تھی۔ اس لئے میں بھی لائبریری سے لغت کی وہ کتاب اٹھالایا اور دن رات اس سے خُدا تلاش کرنے لگا۔ لغت کے اندر انسائیکلو پیڈیا بھی تھا جس میں بڑے بڑے فاتحین کا ذکر تھا جنہوں نے کئی عجمی تہاذیب کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔یہ سب اتنے بڑے لوگوں کی باتیں تھیں کہ پنوں تو دُور کی بات ہم اور ہماری جیسوں کے تذکرے کی بھی کوئی جگہ نہ تھی۔ ڈکشنری مل گئی تو ہر وقت سر پر مطالعے اور دماغ پر عجمی سڑانڈ کا بخار سوار رہنے لگا اور یہی وہ دور تھا جب پنوں میرے لئے درد سر بن گیا۔

 موسمِ گرما کی تعطیلات تھیں۔ اس کی ماں گھر میں تازہ روٹیاں پکاتی، باپ ریڑھی پر فروخت اور وہ ہر پانچ دس منٹ بعد باپ کو روٹیوں کی

\"Women

تازہ رسد پہنچانے کا فریضہ پدری سر انجام دیتا۔ میری بیٹھک اُس کے باپ کی ریڑھی اور گھر کے عین وسط میں تھی۔ وہ جب بھی ناچتا گاتا، باپ کی طرح آوازیں لگاتا وہاں سے گذرتا، مجھے مطالعے میں غرق گرد و پیش سے بے خبر پاتا تو کچھ دیر کے لئے رُک جاتا۔ میری نظریں اُس پر پڑتیں تو زور سے ’روٹی بھاجی کھاسو‘ ( روٹی سالن کھاؤگے ) کی آواز بلند کرتا اور چوکڑیاں بھرتا ہوا بھاگ جاتا۔ میں جب بھی مرغِ تخیل کے پروں پر سوار عرب فاتحین کے شانہ بشانہ عجمیوں کی لاشیں گراتا آگے بڑھ رہا ہوتا اور وہ اسی لمحے روٹی سالن کی صدا لگا کر مجھے عجم کے پاتال میں گرا دیتا۔

ایک بار میں اُس سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے اٹھا تو اُس نے روٹیوں سمیت نہر میں چھلانگ لگادی۔ چھلاوے کی طرح روٹیاں بچا کر دُوسرے کنارے جالگا لیکن دھوتی نہر میں گر گئی۔ اس نے بڑے اعتماد سے روٹیوں کا رُومال گھاس پر رکھا، نہر میں اتر کر دھوتی نکالی، کسی اور پھر کوئی لوگ گیت گاتا ہوا پل کی طرف دوڑ گیا۔ میں نے کرسی سے اٹھ کر اُسے بُرا بھلا کہا اور یہ سوچ کر دیر تک بُڑ بڑاتا رہا کہ لوگ کہاں کہاں سے انہیں تہذیب سکھانے آئے لیکن یہ لوگ اتنے ڈھیٹ ہیں کہ مہذب نہیں ہوپائے۔

کیا ہوا جو تہذیب لانے والے کچھ لوگوں کو مار کر اپنی فیس خود لے گئے۔ تہذیب مفتے کی شے تھوڑی ہے ؟

میں ایک بار پھر کتاب میں غرق ہوکر معتزلہ پر مضمون پڑھنے لگا۔مجھے خبر ہوئی کہ اگر معتزلہ نامی عقل پسند مفکرین (جو مصنف کی طرح اپنے عہد کے علمی انکشافات کو مشرف بہ مذہب کررہے تھے اور یوں مفکر کی بجائے متکلم کہلا نے کے مستحق تھے ) عجمی سازش کا شکار ہوکر علمی میدان سے باہر نہ کئے جاتے تو عرب کی حالت ہی کچھ اور ہوتی۔ یہ لوگ علمی و فکری معاملات میں اس قدر موشگاف اور سریع الرفتار تھے کہ دوہزار سالہ مغربی فکری میدان ایک جناتی زقند میں مارلیتے۔ اگر معتزلہ باقی رہتے تو کشش ثقل، حرکت کے قوانین، مہر مرکزی نظریہ، نظریہ اضافیت، نظریہ ارتقا مغرب کے برعکس بنا کسی سماجی بنیاد، فکری تسلسل، معاشی اساس کے عرب میں پیش ہوتے۔ معتزلہ باقی رہتے تو سب ممکن تھا کیونکہ جدال و قتال پر کتب بینی کو ترجیح دینے والا یزید کا بھائی دراصل نظریہ اضافیت پر کام کررہا تھا۔

یہ سب پڑھ کر میں نے شکر کی گہری سانس لی کہ میں بھی انہی میں سے ہوں۔ پل کی طرف دیکھا تو پنوں پھر آتا دکھائی دیا اور میں اس کے

\"Pakistani

شر سے بچنے کے لئے ایک بار پھر مطالعے میں غرق ہوگیا۔ پھر مرغ ِ تخیل کے پروں پر سوار ہوا اور جدال و قتال کا کھیل کھیلنے لگا۔ کبھی سومنات، کبھی پرہلاد۔کبھی دشت، کبھی بحر، کبھی بیابان اور کبھی بحرِ ظلمات میں روشن کھُروں والے گھوڑے۔عجمی تہاذیب کی یکے بعد دیگرے اینٹ سے اینٹ بجنے لگی۔ عذاب کا فیصلہ ہوجانے پر خُدا کی طرف سے اتمامِ حجت کے لئے خواہ مخواہ بھیجی گئی ہستیاں اترنے لگیں۔ بخت نصر، دارا و سکندر کا تذکرہ اور پھر معتزلہ کا ذکر ہائے کی آواز کے ساتھ چھاتی پر ہاتھ۔

’ معتزلہ کو اگر علمی فتح نصیب ہوتی تو حملہ آور گھوڑوں پر نہیں جنگی جہازوں پر آتے۔ پنوں کے گھر پر بم برساتے اور مجھے آنچ تک نہ آتی کیونکہ میں تو ان کا اپنا تھا ‘، میں نے یہ سوچا ہی تھا کہ کسی نے میرے ہاتھ سے کتاب اچک لی۔

 میرے اوسان بحال ہونے تک پنوں نہر کے کنارے گھاس پر جا بیٹھا تھا اور تیزی سے کتاب کے ورق پلٹ رہا تھا۔ میں اٹھ کر کتاب نہیں چھین سکتا تھا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ وہ کہیں نہر میں چھلانگ نہ لگادے۔ کتاب بہہ بھی سکتی تھی اور گیلی ہوکر خراب بھی ہوسکتی تھی۔پانی کے ساتھ وہ ’پرم گیان‘ بھی بہہ سکتا ہے جو، بقول مصنف، صرف اسی کتاب میں میسر تھا۔ پنوں سے کیا بعید، کچھ بھی کرسکتا تھا وہ ننگ تہذیب۔ اس لئے میں اپنی کرسی پر بیٹھا بار بار یہی تقاضا کرتا رہا۔

میری کتاب واپس کرو۔

وہ میری بات پر توجہ دیے بغیر تیزی سے اوراق پلٹتا اور کن اکھیوں سے میری طرف دیکھتا رہا۔ جب کتاب کے تمام اوراق پلٹ چکا تو اٹھا، بے خطر اور پُر اعتماد انداز میں چلتا ہوا میرے پاس آکر رُک گیا۔ کتاب حقارت سے میرے ہاتھ میں تھمائی اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا :

’’ جھوٹ بولتے ہوتم۔ یہ کتاب نہ تمہاری ہے نہ میری ! نہ اس میں میری کہانی ہے نہ تمہاری ؟ ‘‘

یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا لیکن میں کافی دیر تک اس کے تین مختصر جملوں پر غور کرتا رہا۔ اُس نے کتاب نہر میں نہ پھینکی لیکن اس کا سارا گیان تین جملوں میں بہا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments