پاکستا ن، سیاست اور فوج


\"waqarایک سال ہونے کو ہے کہ خبروں کی زینت بننے والی اقتدار کے ایوانوں کی سرگوشیاں اب باقاعدہ آوازوں کی شکل میں پاکستان کے سول ملٹری ( سیاسی عسکری ) تعلقات پر انگلیاں اٹھاتی نظر آتی ہیں۔ ایک سال پہلے پاکستانی فوج کے ایک اور \”مقبول ترین\” آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع پر قیاس آرائیوں، قیافہ شناسیوں اور بحثوں نے ذرا رک کر سانس بھی نہیں لیا ہے حالانکہ کئی ماہ پہلے جنرل راحیل شریف نے اپنے غیر براہ راست ٹوئٹری بیان میں واضح کر دیا تھا کہ وہ” آئین کے اندر رہ کر ملکی دفاع کو مضبوط کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہوئے اپنی مدت ملازمت پوری ہوتے ہی گھر جائیں گے“ لیکن اس کے بعد بھی جب یہ بحث نہ رکی تو بنتی بگڑتی سول ملٹری صورت حال میں کچھ ہفتے پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں کہہ دیا کہ آرمی چیف کی ریٹائر منٹ کی توسیع کا معاملہ وقت پرآنے پر دیکھا جائے گا۔

رہی سہی کسر ایک انگریزی اخبار کی خبر نے نکال دی جس کا لب لباب یہ تھا کہ فوج ایسی تنظیموں کے خلاف جو سرحد پار دہشت گردی کے الزامات میں ملوث ہیں کوئی قدم نہیں اٹھاتی جس سے پاکستان پر دہشت گرد تنظیموں کو پالنے کے الزامات کے تحت عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی تنہائی میں شدت آتی جا رہی ہے۔ کئی ماہ پہلے کئی طرح کے پوسٹر اور ریلیاں بھی نکلتی رہیں جن کا مدعا جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع اور انہیں قدم بڑھانے کا مشورہ بھی شامل تھا۔ حکومتی شریف سے کر فوجی شریف تک اور پھران غیر معروف تنظیموں کے جلوسوں اور پوسٹر سے لے کر دیگر سیاستدانوں کے بیانوں اور صحافتی مباحثوں تک سب کچھ اشاروں ہی اشاروں میں بیان ہو رہا ہے ہر طرف سے”صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں“ والی صورت حال درپیش ہے۔ کون کسی کے اشاروں کو کسی طرح لے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

لیکن یہ مسلسل صورتحال یقینی طورپر ملک پاکستان کی سول ملٹری توازن کے خدو خال سمجھنے کا اشارہ ضرور دیتی ہے۔ پاکستان میں سول ملٹر ی توازن کا بگاڑ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اقتدار کے حوالے سے پاکستان میں جمہوری ادوار کا دورانیہ اب کہیں جا کر عسکری ادوار کے برابر پہنچا ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے2002-2007میں پہلی بار اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی۔ یہ مدت بھی ایک فوجی آمر کے زیر سایہ پوری ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف پہلے ایک جمہور ی حکومت کا تختہ الٹا کر ملک کے چیف ایگزیکٹوبنے اور پھر صدر پاکستان بن کر اپنے زیر سایہ اسی قومی اسمبلی کی مدت پوری کرا کے اسے ایک جمہوری عمل قرار دیا۔

الغرض یہ قومی اسمبلی کی پہلی دفعہ پوری کردہ مدت بھی ایک فوجی آمر کی مرہون منت ٹھہری۔ اس کے بعد 2007-2012والی قومی اسمبلی نے بھی پانچ سال پورے کئے۔ اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اس تلخ حقیقت کے باوجود کہ شہید بینظیر بھٹو کے قتل کی سازش کے تانے بانے پرویز مشرف کی فوجی قیادت کے دور کے کچھ عناصر سے ملتے ہیں فوج سے مصلحت کی راہ لی تاکہ وہ اپنے دور کو بغیر کسی عسکری چپقلش کے پورا کر سکیں۔ ملک پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہ 1947میں ایک طویل خون ریزی کے بعد معرض وجود میں آیا۔ حقوق کی بنیاد پر چھڑنے والی انگریز استعما ر کے خلاف جنگ آزادی نے مذہبی نظریہ کی شکل لے لی اور ہندوستان میں خون کی ندیاں بہہ گئیں۔ لاکھوں جانیں گئی پاکستان بننے کے بعد لٹی پٹی حالت میں عدم تحفظ کے احساس نے بھارت سے نفرت کی دیوار کو اور اونچا کر دیا۔ دفاعی نقطہ نگاہ سے فوج کی بالادستی ہو گئی۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستان بنتے ہی عسکری بالادستی کا آغاز ہو گیا تھااور یہ ہی ایک بنیادی وجہ ہے کہ پاکستان میں فوج کو نفسیاتی بالادستی حاصل رہی۔ اس بگڑتے ہوئے سول ملٹری توازن کو بھارت کے ساتھ لڑی گئی جنگوں اور بہتر حکمرانی (گڈگورنس) کے نام پر اقتدار پر فوجی قبضوں نے اور بگاڑ دیا۔ اپنی ناکامیوں سے خوف زدہ سیاست دانوں نے بھی استقامت کے بجائے ملٹری کے بھاری پلڑے کی طرف لڑھکنا شروع کر دیا اور چند دہایوںمیں یہ سول ملٹری عدم توازن ملک کی جمہوری بقا کے لئے واضح خطرہ بنتاگیا سیاست دان اپنی ناکامیوں کا ملبہ فوج پر ڈالنے کی کرتے ہیں اور فوجی قوت اپنے غیر عسکری ارادوں کو سیاسی نااہلی کے جواز کے پیچھے چھپاتی نظر آتی ہے۔ سیاست دان چاہتے ہیں ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات کے خلاف جنگ فوج لڑے اور کریڈٹ وہ لیں جبکہ فوج یہ سمجھتی ہے کہ اگر وہ معاملات کو نہ دیکھے تو کمزور سیاست دان ملک کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کریں۔

ملک میں مسلسل بے احتسابی اور ناانصافی کے ستائے ہوئے انسان بھی اپنے تحفظ کے لئے بلا آخر فوج ہی کی طرف ہی دیکھتے ہیں کیوں کو انہیں مسئلہ کا کوئی حل سجھائی نہیں دیتا۔ بلکہ کئی تو کسی \”خمینی \” کا انتظارکرتے نظر آتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام آج سیاستدانوں سے زیادہ جنرل راحیل شریف سے محبت کرتے نظر آتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جنرل راحیل شریف رہیں یا جائیں، فوج کی یہ نفسیاتی بالادستی شاید آگے چند اور دہائیوں تک برقرار رہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ بجائے اس سول ملٹر ی تواز ن کو مزید بگاڑنے کے اسے بہتر کرنے کی مخلص کوششیں جاری رکھی جائیں۔ فوج اور سیاست دانوں کو یہ بات ٹھنڈے دل سے سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان سول ملٹر ی توازن کے بغیر صحیح معنوں میں ہرگز آگے نہیں بڑھ سکتا۔

سیاست دان فوج نوازی چھوڑیں اور فوج سیاست دانوں کو استعمال کرنا بند کر دے۔ سول ملٹری توازن کے لئے دونوں اطراف کو ایک دوسرے پر کھیلنا بند کرنا ہوگا اور اپنے اپنے آئینی کردار کے اندر رہتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔ اور اس میں سب سے بنیادی چیلنج سیاسی عناصرکا اس نفسیاتی بالا دستی کے حصار سے باہر آناہے۔ اس لئے اب وزیر اعظم نواز شریف بھی فوج نوازی اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی خبریں پھیلا کر فوج کے ردعمل پر مختلف عناصر کو کھیلنے کا موقع دینے کی بجائے بطورمنتخب وزیر اعظم واضح طورپر یہ اعلان کریںکہ وہ توسیع کی اس روایت کو ختم کر رہے ہیں۔ اور منتخب قومی اسمبلی بھی اس بات کا اعا دہ کرے۔ وقت آگیا ہے کہ سیاست دان اس طرح کی توسیع نوازیوں کی بجائے اپنا دامن صاف کریں بہتر حکمرانی کریں تاکہ فوج اور عوام کو کوئی دوسرا جواز نہ ملے۔ وزیرا عظم خود قوم سے وعدہ کریں کہ آئندہ اس طرح نہیں ہو گا۔ تاکہ ناصر ف سول ملٹر ی توازن بہتر ہو سکے بلکہ فوج بھی ایک مزید منظم ادارے کے طورپر میرٹ پر مشتمل با صلاحیت قیادت کے ساتھ آگے بڑھتی رہے۔ ویسے بھی 2007کے بعد سول ملٹر ی توازن کا منظر نامہ بدل چکا ہے۔ اب کوئی جرنیل مارشل لاءلگانے سے پہلے کئی دفعہ سوچے گا۔ اس لئے وزیر اعظم کو چاہیے کہ اس نفسیاتی بالادستی کو ختم کرنے لئے ایک قدم اور آگے بڑھائیں تاکہ فوج اور سیاست دان دونوں کی عزت میں اضافہ ہو اور سول ملٹری توازن کو بہتر بنانے کی بنیادی کوششوں کا آغاز ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments