پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ کی پنشن سے محرومی


\"saleemساڑھے چھ لاکھ اساتذہ پاکستان میں غیر سرکاری سکولوں میں پڑھاتے ہیں۔ ان میں سے ایک بھاری تعداد ان اساتذہ کی ہے جو نسبتا سستے غیر سرکاری سکولوں سے منسلک ہیں۔ یہ سکول چھوٹے شہروں، دیہی علاقوں اور بڑے شہروں کے نسبتا غریب علاقوں میں پائے جاتے ہیں ان سکولوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، ان میں پڑھانے والے اساتذہ کی تعداد لاکھوں میں ہے اور ان میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ ان سکولوں کی حیثیت عام طور پر ایک فیملی بزنس کی ہوتی ہے۔

ان، نسبتاً سستے، ہزاروں سکولوں میں پڑھانے والے لاکھوں اساتذہ کا ایک اہم مسئلہ ان کی پنشن سے محرومی ہے۔ کیونکہ پرائیویٹ سکول اپنے اساتذہ کو EOBI کے ساتھ رجسٹر ہی نہیں کرواتے ہیں۔

پاکستان میں EOBI کے نام سے ایک سرکاری ادارہ ہے جو 1976 سے کام کر رہا ہے۔ اس ادارے کا کام غیر سرکاری اداروں کے ملازمین کو سوشل سیکیورٹی کی سہولیات مہیا کرنا ہے۔ ان سہولیات میں سے ایک اہم سہولت پنشن بھی ہے۔ نومبر 2014 کے اعدادوشمار کے مطابق اٹھانوے ہزار (98000) پرائیویٹ ادارے EOBI کے ساتھ رجسٹرڈ تھے اور پانچ لاکھ بائیس ہزار (522000) لوگوں کو باقاعدہ پنشن مل رہی تھی۔

قانون کے مطابق وہ تمام غیر سرکاری ادارے جن میں پانچ یا اس سے زائد افراد کام کرتے ہوں ان پر لازم ہے کہ وہ EOBI کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں۔ تمام رجسٹرڈ اداروں پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے ملازمین کا اندراجEOBIکے ساتھ کروائیں۔ تمام اداروں پر یہ بھی لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام ملازمین کے لئے ایک مقرر شدہ رقم EOBI کو ماہانہ جمع کروائیں۔ یہ رقم آجکل تقریبا 500 روپے ماہانہ بنتی ہے۔ قانون کے مطابق100 روپے ملازم کی تنخواہ سے کٹتے ہیں اور باقی400 روپے ادارہ اپنی طرف سے ڈالتا ہے۔ غیر سرکاری اداروں کے ملازمین اپنی پوری مدت ملازمت، یعنی کام شروع کرنے کی عمر سے لے کر 60 سال کی عمر تک، کے دوران میں اگر یہ فنڈ 15 سال یا اس سے زیادہ مدت تک جمع کروائیں تو 60 سال کی عمر کو پہنچنے پر انہیں باقاعدہ پنشن ملتی ہے جو کہ آج کے قانون کے مطابق کم از کم8000 روپے ماہانہ سے شروع ہوتی ہے۔

جیسا کے پہلے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پرائیویٹ سکولوں میں پڑھانے والے لاکھوں اساتذہ پنشن کی سہولت سے محروم رہیں گے۔ کیونکہ بہت سے پرائیویٹ سکول اپنے اساتذہ کا اندراجEOBI کے ساتھ نہیں کرواتے۔ بہت سے سکول جو EOBI کے رجسٹرڈ ہیں انہوں نے اپنے سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کی بجائے اپنے گھر والوں اور قریبی رشتہ داروں کا اندراج EOBI کے ساتھ کروایا ہوا ہے جو اصل میں ان کے سکول میں کام نہیں کرتے۔ اس طرح سے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ اپنے ایک اہم حق یعنی پنشن سے محروم ہیں۔

اب یہ لاکھوں اساتذہ جو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھاتے ہیں ان کی کوئی کارآمد ایسوسی ایشن یا یونین بھی موجود نہیں ہے۔ پرائیویٹ سکولوں کے مالکان نے تو اپنی بڑی مضبوط ایسوسی ایشن بنا رکھی ہے لیکن وہ اپنے سکولوں کے اساتذہ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ لہذا ان پرائیویٹ سکولوں کے لاکھوں اساتذہ کو پنشن کا حق حاصل کرنے کے لئے  دلانے کے لئے خود بھی جدوجہد کرنی ہو گی اور حکومت کو بھی EOBI کے ذریعے ان کی مدد کرنا ہو گی۔

اساتذہ کو چاہیئے کہ وہ اپنی اور اپنے سکول کی EOBI کے ساتھ اپنی رجسٹریشن کو یقینی بنائیں۔ اور EOBI کو چاہیئے کہ بڑے پیمانے پر جان کاری کی مہم چلائے اور یہ معلومات لوگوں کو بہم پہنچائے کہ EOBI غیر سرکاری ملازمین کے کون کون سے حقوق کی ضامن ہے اور غیر سرکاری ملازمین ان تک کیسے رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ جانکاری مہم میں اس بات پر خاص زور ہونا چاہیئے کہ آپ کا EOBIکا کارڈ آپ کی پنشن کی ضمانت ہے۔ اس لئے اپنے سکول یا اپنی کمپنی سے اپنا حق مانگیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کا ادارہ آپ کے لئے EOBIکی ماہانہ ادئیگی باقاعدگی سے کر رہا ہے۔

یاد رہے کہ ان نسبتا سستے سکولوں میں لاکھوں لوئر مڈل کلاس خاندانوں کے بچے تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں جن کے والدین بڑی مشکلوں سے اپنا پیٹ کاٹ کر ان سکولوں کی فیسں اس امید پر پوری کرتے ہیں کہ شاید ان کے بچوں کو اپنے وقت پر اس مشکل سے برقرار رکھی ہوئی سفید پوشی سے کچھ بہتر زندگی گزارنے کا موقع مل جائے۔ بچوں کی تعلیم کا دارومدار اساتذہ اور ان کی محنت پر منحصر ہے۔ استاد صرف اس صورت میں ہی اپنا فرض نبھا پائیں گے اگر وہ اپنی جاب سے مطمئن ہوں گے۔ اس اطمینان کا تعلق اس بات سے ہوتا ہے کہ ان اساتذہ کا اپنا مستقبل کتنا محفوظ ہے۔ پنشن کی امید بھی محفوظ مستقبل کا ایک اہم جزو ہے۔

ایک مطمئن استاد ہی ہمارے بچے کا تعلیم کا حق ادا کر سکتا ہے۔ لہذا بچوں کے والدین کو بھی چاہیئے کہ وہ اپنے بچے کے استاد کا پنشن کا حق لینے میں ان کی مدد کریں۔ سکولوں کے مالکان بچوں کے والدین کی بات کو ضرور اہمیت دیں گے کیونکہ ہر بزنس کے لئے اس کا کلائینٹ بہت اہم ہوتا ہے۔

 

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments