سیاست اور مائینس ون فارمولا


\"khurram1\"عدالت عالیہ (سپریم کورٹ) کے نوٹس لینے اور پانامہ پر تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرنے کے باوجود عمران خان صاحب اس بات پر اٹکے ہوئے ہیں کہ وہ اور ان کی پارٹی دھرنا ضرور دے گی۔ ایک جانب وہ سپریم کورٹ کا شکریہ بھی ادا کر رہے ہیں کہ انھوں نے نواز شریف اور ان کے ساتھ لوگوں کو نوٹسز جاری کیے دوسری جانب وہ خود فرماتے ہیں کہ ”یہ دھرنا انصاف دینے والے اداروں کے خلاف ہے“۔ خان صاحب خود کنفیوژ نظر آتے ہیں یا ان کو یہ لگتا ہے کہ سپریم کورٹ انصاف دینے والا ادارہ نہیں ہے یا ان کی مرضی کا انصاف ان کو وہاں سے نہیں ملے گا۔ آخر اس طرح وہ کیوں کر رہے ہیں؟ یہ بات ذہن میں آتے ہی مجھے خان صاحب کی وہ پریس ٹاک یاد آ گئی جس میں انھوں نے 30 اکتوبر کو اسلام آباد کی تالا بندی کا اعلان کیا تھا اور ساتھ ہی بلاول بھٹو زرداری کو آصف علی زرداری سے اور اُن کی مبینہ کرپشن سے مائنس آصف زرداری کے الفاظ استعمال کر کے پارٹی یعنی پیپلز پارٹی اور اپنے آپ کو بچانے کا مشورہ دیا تھا۔ جب خان صاحب نے مائنس آصف زرداری کے الفاظ استعمال کیے تو میرا ماتھا ٹھنکا کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ تب کڑیوں سے کڑیاں ملانی شروع کیں تو ایسا محسوس ہوا کہ ہر پارٹی میں مائنس ون کیا جا رہا ہے۔ اور ہر پارٹی کے قائد کو عوام کی نظر میں رسوا کیا جائے گا۔ میں سوچنے لگا کہ بھائی قائد تحریک نے تو صرف الفاظ بولے تھے پاکستان کے خلاف، مگر جی ایم سید نے تو پوری کتاب ہی لکھ ڈالی سندھی میں ”ھاں پاکستان ٹوٹن گھر جے ‘ جس کا اردو میں مطلب ہے ”اب پاکستان ٹوٹنا چاہیے“ ان کے اور ان کی اولاد کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ خیر میں قائد تحریک کی وکالت نہیں کر رہا اور نہ ہی ان کے اقدام کو درست قرار دے رہا ہوں مگر ایک جیسے جرائم کے مرتکب افراد کو ایک جیسی سزا دینی چاہیے ورنہ نہ صرف نظام عدل پر بلکہ آپ کی حب الوطنی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خان صاحب کو چند ماہ جب وہ چپ تھے اس وقت آصف زرداری صاحب کی کرپشن نظر کیوں نہیں آئی اور کیا جو بھی خان صاحب کی بات نہ مانے وہ کرپٹ ہے، وہ ملک دشمن ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بات خان صاحب سے کہلوائی گئی ہے اور اب پیپلزپارٹی میں مائنس ون مستقبل کا ہدف ہے۔ میرے خیال میں اب شاید کراچی میں چند دفاعی اداروں میں تبدیلیاں کی جائیں گی اور وہی چہرے جو پہلے کراچی میں رہ چکے ہیں دوبارہ سے کراچی میں نظر آئیں گے مگر اور پوزیشن پر، اس طرح ایم کیو ایم کو کچھ سانس آراستہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔ کیونکہ وہاں مائنس ون ہو چکا، اور اس وقت کراچی پر راج کرنے والی جماعت تین حصوں میں بٹ چکی۔ تو یہ جن تو قابو میں آ گیا۔ اب یہ آپریشن میری دانست میں ختم ہو جائے گا اور ایک نیا آپریشن شروع کر دیا جائے گا جو کہ پیپلزپارٹی کے لیے ہو گا اس میں مائنس ون کرنے کی کوشش ہو گی کامیابی یا `ناکامی یہ وقت طے کرے گا۔ مگر بلاول کی ”ریلی“ اگرچہ ”ریلہ“ نہیں تھی مگر اتنا بڑا شو آف پاور بھی نہیں تھا۔ کچھ تجزیہ کار جو بغضِ پیپلزپارٹی میں رہتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ اتنا بڑا شو نہیں تھا جتنا ہونا چاہیے تھا۔ اور عوام کی یادداشت بہت چھوٹی ہے شاید میرے یاد کروانے سے عوام کو یاد آئے کہ جب بی بی نے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا تو ان کے ساتھ بھی اتنے ہی عوام تھے پھر انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے کچھ انکلز سے جان چھڑوائی اور اپنی ایک ٹیم بنا کر سفر کا آغاز کیا اور پھر سب نے ان کی سیاسی بصیرت کی نہ صرف داد دی بلکہ قائل بھی ہوئے۔ اب پیپلزپارٹی دوسری بڑی جماعت ہے۔ اور بلاول کے خود میدان میں آنے سے چاہے ایک فیصد ہی سہی مگر پیپلزپارٹی پر مثبت اثر پڑا ہے اور اب جو بلاول نے ریلی اور جلسوں کا سلسلہ شروع کیا ہے وہ انھیں روکنا نہیں چاہیے۔ ان کی اس عوامی ریلیوں اور عوامی رابطہ مہم کو ہر طرح سے روکنے کی کوشش کی جائے گی جس طرح 2013 کے الیکشن میں کیا گیا تھا۔ اسی لیے اس وقت مائنس ون کی بات پیپلزپارٹی کے لیے شروع کی گئی ہے۔ قرائن یہ کہتے ہیں کہ 2018 کے الیکشن میں سندھ کی قوم پرست جماعتوں کا ایک اتحاد بنایا جائے گا جس میں پیر صاحب پگاڑا کی جماعت مسلم لیگ فنکشنل بھی شامل ہو گی۔ اور ایک اطلاع یہ ہے کہ وہ اس اتحاد کو لیڈ کرے گی۔ پیر صاحب پگاڑا کے کسی اتحاد میں ہونے کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ اتحاد کیا ہے اورکیا چاہتا ہے؟

اب یہ بلاول صاحب پر ہے کہ پارٹی میں چند انتظامی تبدیلیاں کر پائیں۔ کراچی والوں کا پانی کا مسئلہ اور تمام سندھ بھر میں پہلے سے بنی سڑکوں کی درست طور پر مرمت کروا دیں اور کراچی کی ٹریفک اور سڑکوں کو درست کر دیں اور دوبارہ کہوں گا کہ عوام سے رابطہ نہ چھوڑیں اور اپنی ٹیم تشکیل دیں اور ان کو عوامی رابطہ کی نہ صرف ہدایت دیں بلکہ ان سے پندرہ دن کی بنیاد پر رپورٹ لیں اور اپنی پارٹی کے ورکرز بلکہ رجسٹرڈ ورکرز کے ساتھ خود رابطہ میں آئیں اور ان کو خود کے موجود اور ورکرز کے ساتھ ہونے کا احساس دلائیں۔ باقی تمام خوف اور شک ذہن سے نکال کر صرف عوام کی خدمت اور آنے والے الیکشن کے لیے ان کو تیار کرنے پر توجہ مرکوز کر دیں۔ تب کہیں جا کر 2018 میں پیپلزپارٹی اپنا وجود برقرار رکھ پائے گی ورنہ تیاری اس پارٹی کو بھی ختم کرنے کی مکمل کی جا رہی ہے۔ اب یہ ان بڑوں پر ہے اور زرداری صاحب کی فراست پر کہ وہ کس طرح بچتے ہیں اور پارٹی کو بھی بچاتے ہیں یا قائد تحریک کی طرح اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارتے ہیں۔

اسی طرح یہ دھرنا اور یہ خبر کا لیک ہونا یہ سب حکومت وقت میں سے مائنس ون کا چکر ہے۔ مگر نواز شریف کسی طور پر بھی استعفیٰ نہیں دیں گے کیونکہ ان کو صرف طاقت کے زور پر ہٹایا جا سکتا ہے اور ن لیگ کے پاس ان کا متبادل کوئی نہیں ہے اور نہ ہی اپنی بات سے پیچھے ہٹیں گے۔ اب سوال کرنے والا یہ بات کر سکتا ہے کہ پھر ان سب سے بچنے کے لیے نواز شریف کیا کریں تو جناب عرض ہے کہ نواز شریف صاحب بہت دیر کر رہے ہیں ان کو چاہیے کہ نیا آرمی چیف اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف مقرر کریں۔ میرا اندازہ ہے کہ آرمی چیف کا اعلان ہوتے ہی یہ سب باتیں بتدریج دم توڑ دیں گی۔ ورنہ نواز شریف صاحب کو اپنے آپ کو بچانے کے لیے کئی اپنوں کی سچی یا جھوٹی قربانی دینا ہو گی۔ نواز شریف صاحب اس وقت کنفیوژ معلوم ہو رہے ہیں کہ آرمی چیف کے مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ لیں۔ مگر میرے تجزیہ کے مطابق نواز شریف اپنے فیصلے اور اپنوں کے فیصلے کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ نواز صاحب کو فیصلہ خود کرنا چاہیے کیونکہ اگر کوئی کچھ کھیل میں اگر کسی کا نقصان ہوگا تو وہ شخص نواز شریف خود ہیں باقی سب کا کچھ نہیں جائے گا۔ اگر نواز شریف اپنے فیصلے پر قائم رہیں اور نئے چیف کا تقرر کر دیں تو پھر ان کے خلاف ہونے والے ہر قدم کا ملبہ دوسروں پر پڑے گا اور نواز شریف مضبوط ہوں گے کیونکہ نواز شریف کو ہٹانا براہ راست ممکن نہیں ہو گا۔ اِس کے لیے اِس مرتبہ پھر شاید 2012 والی تاریخ دہرائی جائے۔ اسی لیے عرض کروں گا کہ تمام لیڈر شپ ہر پارٹی اور ہر ادارے کو چاہے وہ انصاف والا ہی کیوں نہ ہو چاہئے کہ اپنی حدود اور قیود کا خیال رکھے ورنہ تاریخ بہت ظالم ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments