سازش کی جمہوریت


رینجرز نے کراچی میں ایم کیو ایم لندن کی طرف سے بنائی گئی رابطہ کمیٹی کے ارکان کو کراچی پریس کلب کے باہر سے گرفتار کر لیا ہے۔ \"edit\"پروفیسر حسن ظفر عارف ، کنور خالد یونس اور امجد اللہ پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کیلئے وہاں پہنچے تھے کہ رینجرز نے انہیں گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ سرکاری طور سے ان گرفتاریوں کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی ہے۔ نہ ہی حکومت نے ایم کیو ایم لندن پر کسی قسم کی پابندی عائد کی ہے۔ اس لئے رینجرز کا اقدام ناقابل فہم ہے اور کراچی میں حکومت کی بے یقینی اور غیر واضح پالیسی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس دوران سندھ کے گورنر عشرت العباد اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کے درمیان کراچی میں برآمد ہونے والے اسلحہ کے حوالے سے سنگین الزامات کا تبادلہ ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما بھی عشرت العباد اور مصطفی کمال کے بیانات کی روشنی میں تحقیقات کرنے اور حقائق سامنے لانے کی بات کر رہے ہیں۔ نہ جانے یہ مطالبہ کس سے کیا جا رہا ہے کیونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اسے امور حکومت میں طاق ہونا چاہئے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سندھ کے معاملات پر تحقیقات کا مطالبہ کرنے والے بیان میں ہی یہ فرما چکے ہیں کہ عمران خان کو سیاست اور نواز شریف کو حکومت کرنا نہیں آتی۔ بہتر ہو گا کہ شاہ صاحب مسلم لیگ (ن) کو حکمرانی کے رموز سکھانے سے پہلے سندھ میں اپنے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کی تربیت مکمل کر لیں تا کہ وہ حسب ضرورت نتائج فراہم کر سکیں۔

22 اگست کو الطاف حسین کی پاکستان کے خلاف نعرے بازی کے نتیجے میں متحدہ قومی موومنٹ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے لندن سے رابطہ ختم کرتے ہوئے الطاف حسین کی قیادت کو ماننے اور ان کے احکامات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے لندن میں مقیم ایم کیو ایم کے لیڈروں نے گزشتہ دنوں 12 رکنی نئی رابطہ کمیٹی قائم کر کے ازسر نو تنظیمی کام شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کمیٹی میں پاکستان سے بھی 9 افراد کو شامل کیا گیا۔ اس کمیٹی نے گزشتہ ہفتہ کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران ایم کیو ایم لندن کے خلاف انتقامی کارروائی ختم کرنے اور اس کے کارکنوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم آج ان لوگوں کو میڈیا سے بات کرنے سے روک دیا گیا۔ لندن کی قیادت ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں بننے والی ایم کیو ایم پاکستان سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے استعفے دینے کا مطالبہ کر چکی ہے۔ لندن کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے الطاف حسین کے نام پر ووٹ حاصل کئے تھے۔ انہیں عوام میں کوئی مقبولیت حاصل نہیں ہے۔ جب یہ لوگ الطاف حسین کو لیڈر ماننے سے انکار کرتے ہیں تو انہیں ان کے ماننے والوں کے ووٹوں کی بنیاد پر حاصل ہونے والی رکنیت سے بھی دستبردار ہونا چاہئے۔ ایک رکن قومی اسمبلی کے سوا کسی نے بھی اس مطالبے پر کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔ فاروق ستار اور ان کے ساتھی ایم کیو ایم پاکستان کو ہی حقیقی پارٹی قرار دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں پارٹی کارکنوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ الطاف حسین پاکستان کے خلاف نعرے لگوانے کے بعد قیادت کے حق سے محروم ہو چکے ہیں۔

تاہم یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ آج رینجرز نے ایم کیو ایم لندن کے نمائندوں کے خلاف کارروائی کر کے اس خوف کی نشاندہی کی ہے جو الطاف حسین کی مہاجر ووٹر میں مسلسل مقبولیت کی وجہ سے سیاسی اور انتظامی حلقوں کو لاحق ہو سکتا ہے۔ عملی طور سے ایم کیو ایم اس وقت چار یا پانچ دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ 90 کی دہائی میں بننے والی ایم کیو ایم حقیقی بھی میدان عمل میں ہے۔ اس سال کے شروع میں کراچی کے سابق میئر مصطفی کمال نے متحدہ عرب امارات سے واپس آ کر اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایم کیو ایم کا باغی گروپ قائم کیا اور بعد میں اسے پاک سرزمین پارٹی کا نام دیا گیا۔ 22 اگست کی تقریر کے بعد انتہائی ابتر حالات میں الطاف حسین کا ساتھ دینے والے رہنماؤں نے بھی ’’علم بغاوت‘‘ بلند کیا اور ایم کیو ایم پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ حال ہی میں سندھ کے گورنر اور الطاف حسین کے سابق چہیتے ڈاکٹر عشرت العباد اور مصطفی کمال کے درمیان الزامات کا تبادلہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شاید ایم کیو ایم کا ایک نیا گروپ بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ عشرت العباد دسمبر 2002 میں الطاف حسین کی سرپرستی کی وجہ سے سندھ کے گورنر بنائے گئے تھے۔ وہ صوبے کے سب سے زیادہ مدت تک رہنے والے گورنر ہیں۔ ان برسوں میں پرویز مشرف کے بعد پیپلز پارٹی اور اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ لیکن عشرت العباد اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ الطاف حسین دو برس قبل عشرت العباد کو خود سے علیحدہ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ تاہم عشرت العباد نے اس بارے میں کوئی بیان نہیں دیا۔ اگست کی تقریر اور اس کے بعد پارٹی میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کے دوران بھی وہ خاموشی سے گورنر کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں لیکن مصطفی کمال کے ساتھ الزامات کے تبادلے میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایم کیو ایم یا اس سے وابستہ رہنے والے عناصر کے حوالے سے ابھی تک معاملات پوری طرح طے نہیں ہو سکے ہیں۔

اس بے یقینی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ کراچی میں روایتی طور پر الطاف حسین کی قیادت میں بننے والی ایم کیو ایم کو ووٹ دینے والے لوگ آئندہ انتخابات میں کس کو ووٹ دیں گے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو اگرچہ منتخب نمائندوں کی حمایت حاصل ہے لیکن اس کے بارے میں یہ تبصرے سامنے آتے رہے ہیں کہ اگر یہ لوگ الطاف حسین کی ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست لڑائی میں اپنے سابق لیڈر کا ساتھ دینے کی کوشش کریں گے تو ان کیلئے آزادی سے کام کرنا ممکن نہیں ہو گا اس لئے وہ باقی مدت اسمبلیوں کی نشستوں پر برقرار رہ کر الطاف حسین کے خلاف اپنے سیاسی نقطہ نظر کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس ملک کی دیگر پارٹیاں ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتی ہیں جو اپنے حلقوں میں مقبول ہوں اور برادری یا کسی دوسری وجہ سے منتخب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں جبکہ ایم کیو ایم کی طرف سے ہمیشہ ان لوگوں نے انتخاب لڑا اور جیتا ہے جنہیں الطاف حسین نے نامزد کر دیا۔ سرکاری طور پر اور ایم کیو ایم کے موجودہ یا سابقہ رہنما تو یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ صورتحال اب بدل چکی ہے۔ اب الطاف حسین کا جادو چلنے والا نہیں ہے۔ تاہم ایم کیو ایم لندن نے پاکستان میں رابطہ کمیٹی نامزد کر کے اور اب رینجرز نے اس کمیٹی کے ارکان کو گرفتار کر کے اہل پاکستان کو یہ سوچنے پر ضرور مجبور کر دیا ہے کہ کیا اب بھی عام ووٹر الطاف حسین کے دیوانے ہیں اور انہی کے نامزد کردہ لوگوں کو ووٹ دیں گے۔ 2018 کے انتخابات میں الطاف حسین اگر اپنی یہ صلاحیت ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے تو تمام تر الزامات کے باوجود ملک کی سیاست میں ان کے اثر و رسوخ سے کوئی انکار نہیں کر سکے گا۔

سندھ کی سیاست سے دور اسلام آباد میں 2 نومبر کو منعقد ہونے والے سیاسی دنگل کے سلسلہ میں سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ عمران خان خیبرپختونخوا کی حکومت کے ساتھ مل کر زیادہ سے زیادہ لوگ اس روز اسلام آباد لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آج پشاور کے نزدیک ایک ریلی س خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس احتجاج کو ملتوی کرنے کے امکان کو مسترد کی اور کہا کہ اب حکومت سے 2 نومبر کو اسلام آباد میں ہی بات ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ کرپشن اور حکومت مل کر نہیں چل سکتے۔ نواز شریف استعفیٰ دیں یا احتساب کیلئے تیار ہوں۔ البتہ بہت سے لوگ بدستور یہ سوال کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ اب اس معاملہ پر غور کا آغاز کر چکی ہے۔ ابھی عمران خان کی ان درخواستوں پر بھی فیصلہ ہونا باقی ہے جن میں نواز شریف اور اسحاق ڈار کو کام کرنے سے روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔ ان حالات میں عمران خان انتشار اور انارکی پیدا کرنے کے سوا 2 نومبر کے احتجاج سے کیا مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے عمران خان کے دعوؤں اور دھمکیوں کے باوجود ملک کے عوام کو یقین دلایا ہے کہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور ملک میں انتخابات شیڈول کے مطابق 2018 میں ہوں گے۔

حکومت کے وزرا اور سیاسی حلیف بھی زوردار بیان بازی کے ذریعے عمران خان کو نیچا دکھانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ کل فیصل آباد میں جمعیت علماء اسلام کی صد سالہ تقریبات کے سلسلہ میں مفتی محمود کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ وہ پاناما پیپرز کے نام پر اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں۔ ادھر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کابینہ کے دیگر ارکان کی طرف سے ان الزامات کے بعد کہ عمران خان مولانا سمیع الحق اور دیگر انتہا پسند گروہوں کی مدد سے اسلام آباد میں ’’شرپسند عناصر‘‘ کو لانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ مولانا سمیع الحق کی قیادت میں دفاع پاکستان کونسل کے وفد سے طویل ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں کالعدم تنظیموں کے نمائندے بھی موجود تھے۔ وزیر داخلہ نے مذہبی گروہوں کو بعض مراعات دینے کا وعدہ کیا اور ان کی بعض شکایات کا ازالہ کرنے کیلئے احکامات جاری کئے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ ملاقات کس حد تک 2 نومبر کے ممکنہ احتجاج کے تناظر میں کی گئی ہے اور فورتھ شیڈول سے تحفظ کیلئے مراعات حاصل کرنے کے بعد مولانا سمیع الحق اور ان کے ساتھی کس حد تک عمران خان کی بجائے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے پر راضی ہوئے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان لوگوں میں ایسے گروہوں کے رہنما بھی شامل ہیں جن کے بارے میں ڈان نے 6 اکتوبر کی رپورٹ میں خبر دیتے ہوئے بتایا تھا کہ حکومت نے ڈی جی آئی ایس آئی سے ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ان کی وجہ سے عالمی سطح پر ملک کے سفارت کاروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعد میں حکومت اور فوج نے اس خبر کو من گھڑت قرار دیا تھا اور چوہدری نثار علی خان اس خبر کو اخبار تک پہنچانے والوں کے خلاف تحقیقات بھی کروا رہے تھے۔ اب وہی عناصر چوہدری نثار علی خان سے ملاقات میں ’’نیک چال چلن‘‘ کا سرٹیفکیٹ حاصل کر چکے ہیں۔

اس صورتحال میں مولانا سمیع الحق البتہ مشکل کا شکار ہوں گے۔ وہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت سے دارالعلوم حقانیہ کیلئے 30 کروڑ روپے کی کثیر امداد وصول کر چکے ہیں۔ انہیں عمران خان کو بھی جواب دینا ہو گا کہ وہ درحقیقت کس کے ساتھ ہیں۔ کیونکہ عمران خان مولانا فضل الرحمان ، آصف علی زرداری اور اسفند یار ولی سے مایوس ہو کر انہیں نواز شریف کے کیمپ میں شامل کر چکے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ کرپشن کے خلاف جنگ میں یہ سارے ایک طرف ہوں گے اور وہ تن تنہا ’’نیا پاکستان‘‘ تعمیر کریں گے۔ مولانا سمیع الحق اور ان کے ہم مشرب دیگر لوگوں کا کردار البتہ ابھی متعین ہونا باقی ہے۔ اس کیلئے شاید دیگر لوگوں کی طرح عمران خان کو بھی 2 نومبر کا انتظار کرنا پڑے گا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سکھر میں عمران خان کی خام سیاست اور نواز شریف کے ناقص طرز حکمرانی کا بھانڈا پھوڑنے کے بعد اب اسلام آباد پہنچ چکے ہیں جہاں وہ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کے ساتھ مل کر امور حکومت کے بارے میں تبادلہ خیال کریں گے۔ اس ملاقات کے بعد ہو سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ملک پر حکومت کرنے کا بہتر انداز اختیار کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ خورشید شاہ تو واضح کر چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت کا ساتھ دیا ہے اور وہ موجودہ حکومت کو گرنے نہیں دے گی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ احتجاج ان کا حق ہے لیکن شہر بند کرنا غیر آئینی ہے۔

قباحت صرف یہ ہے کہ عمران خان اپنے سوا کسی کی نہیں سنتے اور نواز شریف سب کی سنتے ہیں (خاص طور سے جب وہ سیاسی مشکل میں گرفتار ہوں) مگر کرتے وہی ہیں جو ان کے اپنے مفاد میں ہوتا ہے۔ ایسے میں بیچارے خورشید شاہ مشورے دینے کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments