میرا اصلی نام مشتاق یوسفی ہے


\"saleemمیرا اصلی نام مشتاق یوسفی ہے لیکن میں بتاتا کسی کو نہیں کیونکہ وہ زرگزشت اور آب گم وغیرہ نام کی کتابوں والے مشتاق یوسفی ثانی ابھی حیات ہیں اور کافی مظلوم لگتے ہیں۔ میں اگر بتا دوں کہ اصلی مشتاق یوسفی میں ہوں تو ادبی حلقے سے ان کی چھٹی ہو جائے گی اور پھر وہ بیچارے کدھر جائیں گے۔ یہ بات صیغہ راز میں رکھ کر مشتاق یوسفی ثانی پر میں نے بڑا احسان کیا ہے۔ اور ہاں اگر یہ بات میں کبھی ظاہر بھی کر دوں تو پلیز مذاق ہی سمجھیے گا۔

مذاق سمجھنا بھی سب لوگوں کا کام نہیں ہے۔ کچھ لوگ اس میں بہت ہی کورے ہوتے ہیں۔ میں فیض صاحب اور مشتاق یوسفی ثانی کا ذکر خاص طور پر کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے سن رکھا ہو گا جب فیض صاحب ساہیوال جیل سے واپس آتے ہوئے ابن انشا سے ملنے چلے گئے اور ابن انشا انہیں پریشان دیکھ کر جذباتی ہو گئے۔ پوچھنے پر فیض صاحب نے بتایا کہ کوئی آمد نہیں ہو رہی اور وہ کچھ لکھ نہیں پا رہے ہیں اس لئے مشورہ اور مدد چاہتے ہیں۔ خیر ابن انشا نے اپنے کچھ مسودے ان کے حوالے کیے اور کہا کہ انہیں زنداں نامہ اور دست صبا وغیرہ کے ناموں سے چھپوا لیں۔ فیض صاحب خوش ہو گئے اور فورا ہی دونوں کتابیں اپنے نام سے چھپوا لیں۔ ابن انشا کو اس بات کا بہت افسوس ہوا کہ انہوں نے اگر جذبات میں آکر یہ پیشکش کر ہی دی تھی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ فیض صاحب سچ مچ ہی ایسا کر لیتے۔ ابن انشا نے خیر بعد میں لوگوں کو بتا دیا کہ یہ کام اصل میں ان کا ہے اور فیض صاحب کا نہیں۔ اکثر لوگوں نے اس بات کا یقین بھی کر لیا ہے۔ میں نے اپنی کاپی پر تصحیح بھی کر لی ہے اور زنداں نامہ اور دست صبا پر جہاں فیض صاحب کا نام لکھا ہوا تھا اس کو کاٹ کر ابن انشا کا نام لکھ دیا ہے۔ اس سے ان کتابوں کو پڑہ کر زیادہ مزا آتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے کیونکہ اب وہ ابن انشا کی جو ہیں۔

مشتاق یوسفی ثانی کے تو کئی ایسے قصے ہیں کہ پہلے وہ کچھ کہتے اور پھر لوگوں کا ردعمل دیکھ کر اپنی بات سے مکر جاتے ہیں۔ ایک کتاب میں خود ہی لکھا کہ ان کی ناک بہت بڑی اور چہرہ بہت چھوٹا ہے بعد میں مکر گئے کہنے لگے کہ وہ محض طنزومزاح تھا۔ مشتاق یوسفی ثانی کو خیر لوگوں کے متعلق گندی باتیں کرنے کی عادت بھی تھی۔ اپنے انگریز باس بیچارے اینڈرسن پر طرح طرح کے الزامات لگائے کہ وہ شراب پیتا تھا اور بنک میں کام کرنے والی گوری کے ساتھ اس کا معاشقہ تھا وغیرہ وغیرہ۔ ان گندے الزامات کو ایسا مکس کر دیا ہے کہ پڑہنے والے کنفیوز ہو جاتے ہیں اور فیصلہ نہیں کر پاتے کہ بل کلنٹن کا ذکر ہو رہا ہے یا ڈونلڈ ٹرمپ کا۔ یہ سالے انگریزوں کے نام بھی تو ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔

\"mushtaq-ahmad-yousafi\"

شروع میں میں نے جب زرگزشت، آب گم اور خاکم بدہن دیکھی تھیں تو میں نے سوچا یہ تو میں نے خود لکھنی تھیں اور یہ اس مشتاق یوسفی ثانی نے کیوں لکھ دی ہیں اور میں تھوڑا جذباتی ہوا۔ لیکن بعد میں میں نے جب وہ کتابیں غور سے پڑہیں تو مجھے اندازہ ہوا کہ ان کتابوں میں تو بہت گندی گندی باتیں لکھی ہوئی ہیں لہٰذا میں نے ان کتابوں کا خیال نہ صرف دل سے نکال دیا بلکہ خدا کا شکر ادا کیا کہ یہ میری نہیں ہیں۔

ویسے بھی ان ادیبوں کی مجھے سمجھ نہیں آتی ایسے ہی کتابیں لکھتے رہتے ہیں۔ حالانکہ کتابیں لکھنے سے زیادہ بیکار کام کوئی نہ ہو گا۔ اس کام سے نہ تو دنیا میں کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی اگلے جہان اس کا کوئی امکان ہے۔ اکثر ادیبوں کو ان کے بیوی بچے سمجھاتے بھی ہیں کہ یہ کتابیں لکھنے کی بجائے کوئی ایسا کام کر لو جس سے کچھ پیسے وغیرہ مل جائیں یا پھر کوئی عبادت وغیرہ ہی کر لیا کرو تاکہ اگلے جہان تو کام آئے۔ مگر کون سنتا ہے۔

مشتاق یوسفی ثانی کی طرح آج کل بھی یہ عدنان خان کاکڑ، فاروق ندیم پراچہ، حاشر بن ارشاد اور زنیرہ ثاقب وغیرہ کچھ ایسے لوگ ہیں جو پہلے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور پھر یہ کہہ کر اپنی چھڑا لیتے ہیں یہ طنزومزاح تھا۔ فاروق ندیم پراچہ کو ہی دیکھو پہلے ملالہ کے بارے میں مضمون لکھ کر اپنے بھائی فرید پراچہ کی مدد کی تاکہ وہ کامران شاہد کے پروگرام میں ثبوتوں کے ساتھ فرزانہ باری اور ماروی سرمد پر اپنی دھاک بٹھا سکیں اور بعد میں لبرل حلقے میں اسے satire کہہ کر اپنی جان چھڑا لی۔ اسی طرح عدنان خان کاکڑ کو ڈارون کی مخالفت جب مہنگی پڑی تو اب حیلے بہانوں سےکام لے رہے ہیں۔ بھائی آپ ارتقاء کے قائل نہیں ہیں تو پاکستانیوں کو تو بدنام نہ کرو۔ ہم تو بحیثیت معاشرہ ڈارون کی تھیوری کے قائل ہیں بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ ڈارون نے اپنی کتاب کو فائنل کرنے میں ہم سے ضرور مدد وغیرہ لی ہو گی۔ حاشر اور زنیرہ اسی طرح دو قومی نظریہ اور پاکستانیات پر کئی دفعہ ہم سے مات ہو چکے ہیں۔ مجھے مبشر زیدی ٹھیک آدمی لگتے ہیں۔ وہ ایک کھڑوس بڈھا بننا چاہتے تھے اور ماشااللہ کامیاب رہے۔

”ہم سب“ پر بخت محمد برشوری صاحب، قراۃ العین فاطمہ اور مس نوشین حسین میرے پسندیدہ مزاح نگار ہیں۔ عالم دین کے خاکے اور خواتین کے حقوق ان کے فیورٹ موضوعات ہیں اور ان کے لکھے ہوئے مضمون ہمیں خوب سمجھ آتے ہیں۔ شاید ہی کسی پاکستانی کو ان سے کوئی شکایت ہو۔

اب آپ یقینا یہ جاننا چاہتے ہوں گے کہ اتنے جھگڑے پڑے ہوئے ہیں تو یہ وجاہت مسعود آخر کس مرض کی دوا ہے۔ تو بتاتا چلوں کہ ظفراللہ خان، فرنود عالم، جمشید اقبال اور افتخار ملک کا اس بات پر اتفاق پایا گیا ہے کہ وجاہت مسعود کو ”ہم سب“ پر دف مارنے کے لئے رکھا ہوا ہے تاکہ لوگ بلاخوف کچھ بھی لکھ سکیں۔ مثلا آپ اقبالیات کے لتے لیں یا دو قومی نظرئے کے، درویش ایک مضمون لکھے گا اور سب برابر کر دے گا۔ جب پچاس مضمون میں لوگ جمعیت کی غنڈہ گردی کی بات کرتے ہیں اور اور ان کے تشدد کی شہاتیں دے چکتے ہیں تو وجاہت صاحب کا مضمون آجاتا ہے کہ اسلامی جمعیت نے مجھ پر تشدد نہیں کیا۔


سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments