ملا عمر کے متعمد خاص طالبان میں اندرونی کشمکش سے پردہ اٹھاتے ہیں


\"tayyab\"سید محمد طیب آغا ایک زمانے میں ملا محمد عمر کے معتمد خاص رہ چکے ہیں۔ وہ اب تحریک کی حکمت عملی میں مکمل اصلاح اور نظر ثانی چاہتے ہیں۔ سید محمد طیب آغا کو ملا عمر نے قطر میں طالبان کے مذاکراتی آفس کا سربراہ مقرر کیا تھا اور وہ ملا منصور کے امیر بننے پر استعفی دینے تک اس عہدے پر فائز رہے۔

سید محمد طیب آغا یہ چاہتے ہیں کہ طالبان کے موجودہ لیڈر ہیبت اللہ اخوند زادہ ڈرامائی حد تک تشدد کو کم کر دیں، پاکستان سے بہت حد تک اپنے تعلقات پر نظر ثانی کریں، ایک نئی سیاسی سوچ اپنائیں اور جہادی عناصر کے ساتھ طالبان کے تعلقات پر نئے سرے سے غور کریں۔

اپنے طویل خط میں، جو ریڈیو مشعل نے حاصل کیا ہے، آغا صاحب نے عسکریت پسند اسلامی تنظیم میں داخلی طور پر جاری کشمش پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

آغا کا شمار طالبان میں نظریاتی لوگوں میں ہوتا ہے۔ وہ طالبان کی جاری حکمت عملی پر سوال اٹھاتے ہیں جس کا مکمل انحصار دیہاتی علاقوں پر حکمرانی اختیار کرنے اور شہری علاقوں پر مسلسل حملے کرنے پر ہے جس سے اکثر کثیر تعداد میں انسانی جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔

انہوں نے اپنے خط میں لکھا ’’طالبان کی پاکستان میں پناہ گزین قیادت کیسے یہ مطالبہ کر سکتی ہے کہ افغانستان یا کہیں اور کے لوگ ان سے اپنی وفاداری کا اظہار کریں؟ـ اس سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ طالبان کی قیادت ابھی بھی پاکستان سے کام کر رہی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ \” کیا ہم ایسے عمل کو اسلامی تعلیمات کے مطابق کہہ سکتے ہیں؟‘‘

آغا نے پچھلے سال ہی قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہی چھوڑی ہے اور انہوں نے طالبان کے کلیدی نظریاتی عقائد پر سوال \"taliban\"اٹھایا ہے۔

اپنے خط میں وہ اخوند زادہ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ امیر المومنین کا خطاب چھوڑ دیں اور طالبان کا باضابطہ نام ’اسلامی امارتِ افغانستان‘ بھی ترک کر دیں۔

’’ہمیں امارت کی بجائے تحریک کا نام استعمال کرنا چاہئے،‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’افغانستان کے زیادہ تر رقبے پر کنٹرول اور خاص کر کابل پر قبضہ کے بغیر اور قانونی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے بغیر طالبان کے لئے ناممکن ہے کہ وہ افغانستان کی جائز حکومت کا انداز اختیار کریں۔

’’میڈیا کے ذریعہ شیڈو حکومتوں کے پراپیگنڈے اور غیر ملک میں ساری تحریک کی موجودگی کے ہوتے ہوئے ہم اپنے آپ کو ملک کا جائز حکمران نہیں کہہ سکتے۔ اپنے آپ کو امیر المومنین کہنے کی بجائے آپ کو بس امیر کا خطاب رکھنا چاہئے۔‘‘

اندرونی خلفشار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اخوند زادہ کو نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے جبر کا استعمال کرنے سے منع کیا۔ \” آپ کو تشدد اور جبر سے لوگوں سے امیر المومنین کی حیثیت کی بیعت تب تک نہیں لینی چاہئے جب تک آپ میں اس کے سب خواص پورے نہ ہوجائیں۔ \”

آغا کا پشتو میں لکھا ہوا خط طالبان کی جانب سے تشدد کے استعمال پر شدید تنقید کرتا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں طالبان نے مختلف اضلاع پر قبضہ کیا ہے اور افغانستان کے مختلف دارالحکومتوں کو دھمکایا ہے۔ سن  2014سے بین الاقوامی افواج کی واپسی کے بعد طالبان کی طرف سے تشدد ڈرامائی انداز میں بڑھا ہے جس میں ہزاروں افغان باشندوں کی اموات ہوئی ہیں۔

\”تمام مجاہدین کو اس بات کا حکم دینا چاہئے کہ وہ مخالفین کی قتل و غارت جن میں مساجد میں قتال اور قیدیوں کا قتل شامل ہے کو فی الفور بند \"express-news-anchor\"کر دیں۔\”، \”مسافروں کو شک کی بنیاد پر قتل کرنا بند کیا جائے۔ پلوں، سڑکوں اور دیگر جگہوں کو بموں سے اڑانا بند کیا جائے۔ امدادی کارکنوں اور مزدوروں کو جو قوم کی خدمت کر رہے ہیں انہیں قتل کرنا بند کیا جائے۔\”

آغا نے کئی برس تک طالبان کی سیاسی تنظیم کی سربراہی کی ہے اور طالبان کے سینئر سیاسی حکمت کار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں موجود ملا منصور اختر کو طالبان کا سربراہ نامزد کرنے کو ایک تاریخی غلطی قرار دیا تھا۔

\”ہمارے عسکری رہنماؤں کو آپسی اتحاد اور آزادی کا دفاع کرنا چاہئے\” انہوں نے اگست 2015 میں اپنے استعفیٰ میں لکھا۔۔ \”نجات کا حقیقی ذریعہ صرف یہ ہے کہ طالبان رہنما خود قربانیاں دیں۔ انہیں افغانستان خود منتقل ہو کر آزادی سے اپنی قیادت کو چننا چاہیے۔\”

اخوند زادہ کو لکھے خط میں انہوں نے طالبان رہنماؤں کی جانب سے ایرانی اور افغانی خفیہ ایجنسیوں سے پوشیدہ تعلقات پر شدید تنقید کی۔

’’پاکستانی، ایرانی یا دوسری غیر ملکی ایجنسیوں سے کھلے یا پوشیدہ تعلقات رکھنے والے تمام عسکری و غیر عسکری طالبان رہنماؤں کو ان کے عہدوں سے فی الفور ہٹا دینا چاہئے، اس بات کا پہلے بھی تجربہ ہے کہ تحریک کے خفیہ عناصر نے غیر ملکی ایجنسیوں کی طرف سے جھوٹی اطلاعات کی بنیاد پر اپنے ہی ساتھیوں کو نقصان پہنچایا۔‘‘

طالبان کے حالیہ سربراہ کو اپنی نصیحت میں وہ تحریک کو پاکستان کی اجارہ داری سے چھٹکارا حاصل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

\”آزاد فیصلے لینے کے لئے آپ کی کونسل کے ارکان، مختلف کمشنوں کے ارکان کو پاکستان چھوڑ دینا چاہئے۔۔۔ تحریک کے کلیدی فیصلے لینے والوں کی پاکستان میں موجودگی کا موجودہ حالت میں یہ معنی ہے کہ پاکستان ان پر تحریک اور افغانستان کے مفاد کے بر خلاف فیصلے تھوپ سکتا ہے۔\”

ملا عمر کے آفس کے سابق سربراہ اور ان کے ترجمان کے طور پر آغا نے مشاہدہ کر رکھا ہے کہ کیسے القاعدہ اور دوسرے غیر ملکی\"a14\" جہادیوں کو پناد دینے کی پاداش میں طالبان حکومت کا نوے کی دہائی میں خاتمہ ہوا۔

\”اس بات کی یقین دہانی کرنی چاہئے کہ غیر افغان جنگجوؤں کے داخلے کو روکنا چاہئے،\” جنوبی افغانستان اور زابل میں پچھلے سال ہوئی جنگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں جب وسطی ایشیا کی طرف سے آئے ہوئے جنگجوؤں نے دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کر لی اور طالبان کے خلاف لڑنا شروع کر دیا جس پر طالبان کو ان کا خاتمہ کرنا پڑا۔

’’ہم نے دیکھا کہ یہ جہادی مہاجر اور مہمان بن کر رہنے پر کبھی بھی آمدہ نہیں ہوئے، یہ ہمیشہ مجاہد بن کر رہنا چاہتے تھے، یہ جنگجو حکومت میں اپنے آپ کو حصہ دار سمجھتے تھے۔‘‘

آغا نے کہا کہ موجودہ طالبان قیادت کی جانب سے اپنے زیر تسلط علاقوں میں کسانوں اور تاجروں پر ٹیکس کی پالیسی غلط ہے نیز مالدار افغانوں کو زبردستی چندوں پر مجبور کرنا بھی غلط ہے۔ انہوں نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ \”پیسہ تو آنے جانے والی شئے ہے مگر ہماری تحریک اور قوم یہی رہیں گے اور ہمیں ان پر جبراً مالی بوجھ نہیں لادنے چاہئے۔‘‘

آغا نے طالبان کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی نہ کرنے کی صورت میں برے مستقبل کے لئے تیار رہنے کو کہا۔

\”اگر ہم نے اصلاحات پر اور اپنی تبدیلی پر توجہ نہیں دی تو طالبان اور ہمارا جہاد نفرت کا استعارہ بن جائیں گے۔ ہمارا ملک ایک بد ترین انارکی کی کھائی میں گر جائے گا، ایسی انارکی جو ہم نے نوے کی دہائی میں بھی نہیں دیکھی ہوگی۔‘‘

_______________

گندھارا پر شائع اس خط کو \’ہم سب\’ کے لئے ملک عمید نے ترجمہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments