کیا ہمارے پاس جمہوریت کا کوئی متبادل موجود ہے؟


\"uzair-salar\"

جمہوریت کا مقدمہ لڑتے ہوئے سب سے پہلے میں ہر اس شخص کے جواب کا انتظار کروں گا جو ملک میں جمہوریت کی بساط الٹانے کے حق میں ہے۔ جو ملک میں جمہوریت کو تمام مسائل کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہ یہ بتائے کہ اس میں اور کسی ناخواندہ قصاب، دھوبی، جولاہے، گوالے، حجام، بھٹہ مزدور اور سبزی فروش یا باقی پسے ہوئے طبقے کے سیاسی شعور میں کیا فرق ہے جس نے کبھی سکول کی شکل تک نہیں دیکھی؟

چونکہ پاکستان کا سارا ناخواندہ اور نیم خواندہ طبقہ فوجی حکومت کو ہی تمام مسائل کا حل سمجھتا ہے اور سیاست دانوں کو اٹھتے بیٹھتے گالی دینا باعث اجر و ثواب جانتا ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستان کا حقیقی طور پر باشعور یعنی intellectual طبقہ بدتر سے بدتر حالات میں بھی جمہوریت پسند ہی رہتا ہے اور کسی بھی منتخب حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کے ایڈوینچر کو ملکی سلامتی کے خلاف سمجھتا ہے اور ایڈوینچر کرنے والی قوت اور شخصیت کی پوری شدت کے ساتھ مخالفت کرتا ہے اور اس کے ہر خوشنما خوشکن نعرے کو دھول میں اڑا دیتا ہے۔ اس سوال کا کوئی جواب اگر کسی کے پاس ہو تو اسے خوش آمدید کہا جائے گا۔

اب دیکھیں پاکستانی عوام کا مسئلہ کیا ہے پتہ نہیں یہ کون سی شامت اعمال ہے کہ پاکستان کی بڑی آبادی لائن میں لگ کر ووٹ بھی دیتی ہے اور اتنی ہی بڑی آبادی مارشل لاء کو تمام مسائل کا حل بھی سمجھتی ہے اور جمہوریت کو گالی بھی دیتی ہے۔ میں لوگوں میں رہتا ہوں ان سے بات کرتا ہوں میں وثوق سے کہتا ہوں پاکستان کی اکثریت سیاسی طور پر انتہا درجے کی نا بالغ واقع ہوئی ہے کیونکہ یہ بہت جلدی رائے قائم کرتی ہے اور بہت جلدی بھول جاتی ہے۔ یہ جمہوریت میں آمریت کی دعا کرتی ہے اور آمریت سے بھی جلد ہی اکتا جاتی ہے، اسے نہ تو شرم آتی ہے نہ ہی عقل آتی ہے۔

جمہوریت کو گالی دینے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ جمہوریت ہے کیا؟

کیا یہ آسمان سے نازل ہوتی ہے اور قومیں اسے کٹی پتنگ کی طرح لوٹ لیتی ہیں؟

ہم بتایا گیا ہے کہ جمہوریت مغرب سے آئی آج مغرب اسی جمہوریت کی وجہ سے اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ ہم لوگ اپنا کچھ بیچ باچ کر بھی گرین کارڈ لینے کی خواہش رکھتے ہیں، ایسا کیوں ہے کہ آج تک کسی جرمن یا فرنچ نے اپنی جائداد بیچ کر پاکستان کا رخ نہیں کیا؟

آخر مغرب کے پاس جمہوری اقدار کے علاوہ ایسی کون سی گیدڑ سنگھی تھی جس نے اسے دنیا کا راہبر بنا دیا؟ یہ وہی مغرب تھا جہاں نہانا جرم تھا بولنا جرم تھا اب ایسا کیا ہوا؟ آپ اس پر کچھ دیر سوچیں میں اگلی بات کرتا ہوں۔

ہماری جمہوریت میں بہت ساری خامیاں ہیں گنوانے کی ضرورت نہیں پاکستان کا بچہ بچہ گن کر بتا سکتا ہے۔
سب سے زیادہ تو یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہے ہی نہیں بادشاہت ہے !
میں پوچھتا ہوں بادشاہت میں تو بولنے کی اجازت نہیں ہوتی پر آپ تو بول رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے بس بولنے کی اجازت ہی ہے اور تو کچھ بھی نہیں !
میں بتاتا ہوں آپکی عدلیہ اس قدر \”آزاد\” ہے کہ یک جنبش قلم ہر دل عزیز وزیراعظم کو پھانسی دے دیتی ہے۔ صرف ایک فضول قسم کا خط نہ لکھنے پر ملک کی سب سے با اختیار آئینی شخصیت سے کرسی چھین لیتی ہے، آپکی فوج اس قدر آزاد ہے کہ ہر وقت اپنے ہی \”باس\” پر بندوق تانے رکھتی ہے، بادشاہت میں ایسا تو نہیں ہوتا ناں؟

پھر اس طرف سے کوئی آواز نہیں آتی تو میں بات جاری رکھتا ہوں کہ جمہوریت کبھی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتی کیونکہ یہ دنیا پرفیکشن کی نہیں جہد کی جا ہے۔ یہاں کچھ بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا، یہاں یا تو کچھ ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا۔ پاکستان میں جمہوریت ہے یہ بات اوپر ثابت ہو چکی، کتنی ہے یہ ابھی بحث طلب ہے۔

ذاتی طور پر میں پاکستان کی مثال امریکا یا یورپ سے دینا پسند نہیں کرتا کیونکہ ہمارا ان سے کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں ہے پر ہمارے ہاں چونکہ ہر چیز میں موازنہ ضرور کیا جاتا ہے اس لیے میں بھی اپنی بات سمجھانے کی خاطر یہ جسارت کر رہا ہوں۔

دیکھا جائے تو امریکی جمہوریت بھی آئیڈیل جمہوریت نہیں۔ اس میں بھی ایسی لاتعداد خامیاں ہیں جنہیں دور کیا جانا ابھی باقی ہے۔ تو کیا اب امریکہ میں خلافت قائم کر دی جائے یا پھر مارشل لاء لگا دیا جائے؟

آپ کے پاس جمہوریت سے بہتر ایسا کون سا آپشن ہے سوائے اس کے کہ جمہوری سسٹم میں موجود خامیوں کو دور کر کے اسے بہتر سے بہتر بنایا جائے؟ بتائیں کیا آپشن یے دوسرا؟

حالانکہ انگلینڈ کے جمہوری نظام کو ہمارے ہاں ایک مثال سمجھا جاتا ہے لیکن انگلینڈ کے جمہوری نظام میں بھی بہت سی خامیاں موجود ہیں۔ تو کیا انگلینڈ میں لوگ جمہوریت کو گالی دیتے ہیں؟
نہیں بالکل بھی نہیں وہ جمہوریت کو نظام حکومت کے طور پر غیر مشروط طور پر قبول کر چکے ہیں اب وہ اس میں موجود غلطیوں کو دور کر رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی جمہوریت پہلے سے بہتر ہو رہی ہے یہاں تک کے آج ہم ان کی جمہوریت کو مثالی سمجھتے ہیں اور ہمارے سیاست دان ان کی جمہوریت کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔

اب یہاں چند سوال ضروری ہیں۔
کیا انگلینڈ میں پہلے دن سے الیکشن شفاف ہو رہے ہیں؟
کیا انگلینڈ میں کبھی بھی پاکستان جتنی کرپشن نہیں رہی؟
کیا انگلینڈ میں انصاف کا معیار ہمیشہ سے اتنا ہی بلند ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں!
اسی لیے میں کہتا ہوں کہ پاکستان میں دھاندلی، کرپشن یا نا انصافی کے نام پر جمہوریت ہی کو تختہ مشق بنا لینا اسی شاخ کو کاٹنے کے مترادف ہے جس پر آشیانہ ہو۔

ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے سے انسان بہتر نتائج پر پہنچتا ہے اب ٹھنڈے ٹھار دماغ سے ایک اور پہلو سے سوچتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ دنیا کا کوئی نظام خامیوں سے ماورا نہیں۔ ہر نظام میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے۔ کوئی بھی سسٹم سو فیصد کامل نہیں ہوتا تو ایسے میں ہمیں دیکھنا یہ ہوگا کہ موجود آپشنز میں سے سب سے بہترین آپشن کون سا ہے پھر وہ آپشن سلیکٹ کیا جائے گا اور پھر اس آپشن یعنی سسٹم میں موجود خامیوں کی نشاندہی کر کے اسی سسٹم میں رہ کر اس کی اصلاح کی جائے نہ کہ اسے تہس نہس کر کے۔

پتہ نہیں یہ مقدمہ لڑنے کا پھر کب موقع ملے، تو میں مزید دلائل دینا چاہوں گا۔ ہمیں پتہ ہے کہ بانیان پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کے سبھی بڑے لوگ اور طبقے جمہوری نظام پر متفق ہیں، یہاں تک کہ پاکستان کے نام میں بھی جمہوریت کا سابقہ ہے مزید یہ کہ پاکستان کا آئین بھی جمہوریت کو ہی سب سے بہتر نظام سمجھتا ہے اور اس کے دفاع کی قسم کھاتا ہے اس سے یہ تو ثابت ہوا کہ پاکستانی قوم ایک نتیجے پر بہت دیر پہلے سے پہنچ چکی ہے کہ پاکستان میں صرف اور صرف جمہوری نظام ہی نافذ العمل ہوگا۔

اب جب جمہوریت کو متفقہ طور پر دستور تسلیم کر لیا گیا ہے تو اس پر تنقید کرنا حماقت ہوگی کیونکہ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ہم دن کو دن ماننے سے انکار کر دیں اور رات کو رات سمجھنے سے انکاری ہو جائیں۔ اس حماقت کے بجائے ہم جمہوری نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنے کا ہر آئینی طریقہ آزمائیں گے۔

چونکہ کسی غیر آئینی اقدام کو دوسرے غیر آئینی اقدام کے خلاف جواز بنا کر پیش نہیں کیا جاسکتا، جس طرح کسی قاتل کو ہم خود قتل نہیں کر سکتے، اسی طرح کرپشن یا دھاندلی کو ہم ڈنڈے کے زور پر روکنے کے مجاز نہیں۔ اس کی روک تھام کے لئے بھی وہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا جو ہم قاتل کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے چنتے ہیں یعنی آئینی اور قانونی راستہ۔

آج ایک بھائی نے پوچھا کہ یہ بتائیں ہم کس پارٹی کو سپورٹ کریں اتنی خامیوں کے باوجود جمہوریت کو کیسے قبول کریں؟

میں نے ان سے کہا کسی چیز کو رد کرنے سے پہلے اس کا متبادل سوچتے ہیں، آپ کے پاس جمہوریت کا کوئی متبادل ہے ہی نہیں تو آپ اسے قبول کرنے سے انکار کیسے کر سکتے ہو؟ یہ تو ہو گئی پہلی بات دوسری بات یہ کہ کس پارٹی کو سپورٹ کریں تو اس کا جواب یہ ہے کہ شعور پارٹی کو سپورٹ کریں جس کا اس وقت پاکستان میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ آپ کی اس شعوری سپورٹ سے پاکستان کی ساری پارٹیاں وقت کے ساتھ باشعور ہو جائیں گی۔ پاکستانیوں کے لئے کسی پارٹی کو سپورٹ کرنا ضروری نہیں۔ اپنا سیاسی وژن کلئیر کریں جو کہ صرف وسیع النظری سے ہوگا۔

کافی سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستانیوں کے موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کے لیے ہمیں چند فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

نمبر ١: ہر شہری خود کو کسی بھی قسم کی مذہبی یا سیاسی جماعت سے الگ کر لے۔ پسندیدہ جماعت اور طبقے سے وابستگی ضرور رکھے لیکن اپنی پسندیدہ جماعت کے ساتھ اس قدر انوالو نہ ہو کہ اس کی خامیاں ہی نہ پہچان پائے اگر پہچان لے تو ان پر تنقید نہ کر پائے۔ اگر آپ کسی جماعت کی غیر مشروط حمایت پر خود کو مجبور پاتے ہیں تو آپ کو ہر قیمت پر اس سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہیئے۔

نمبر ٢: پاکستان کا آئین ایک جمہوری آئین ہے چونکہ ہم اپنے وطن کے آئین کے وفادار شہری ہیں تو ہمیں آئین کا ہر صورت دفاع کرنا ہے کہ یہ ہمارا اساس ہے ہماری پہچان اسی سے ہے ورنہ بنگلہ دیش بھی پاکستان تھا لیکن آئین تبدیل ہوا اور وہ غیر ملک بن گیا۔ لہذا ہمیں ہر صورت اپنے آئین سے وفادار رہنا ہے، پاکستان کا آئین نہ صرف جمہوری نظام کا محافظ ہے بلکہ پاکستان کا جمہوری ڈھانچہ بابائے قوم کی امنگوں اور خواہشات کے عین مطابق ہے، اسی جمہوریت کے نام پر ہی یہ ملک حاصل کیا گیا تھا اب کسی کو پسند ہو یا نا پسند لیکن جمہوریت ہی اس ملک کا مستقبل ہے، لہٰذا شہری جمہوری نظام کو مکمل سپورٹ کریں لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ کسی بھی پارٹی کی غیر مشروط حمایت ترک کر دیں کیونکہ نومولود جمہوریت میں سیاسی پارٹیاں اندھی حمایت کرنے والے شہریوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments