سیاست میں بدصورتی، نہیں چلے گی، نہیں چلے گی!


\"husnainفطرت کا ایک طے شدہ اصول ہے کہ خوب صورتی ہر نظر کو بھاتی ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ خوب صورتی کا معیار ہر ایک فرد الگ الگ رکھتا ہے، ٹھیک کہتے ہوں گے۔ کم از کم ایک معاملہ ایسا ہے جس میں خوب صورتی کی مروجہ تعریفوں پر ہم لوگ اکثر متفق ہوتے ہیں اور وہ سیاست ہے۔ قائد اعظم سے بات شروع کریں، پاکستان کے بانی تھے، برصغیر کے بڑے سیاست دانوں میں تھے، گفتار کے، کردار کے شاہ سوار تھے لیکن ایک چیز کا ووٹ ان کے پاس اضافی تھا اور وہ ان کی پرسنیلیٹی تھی۔ یہ لمبا قد، تیکھے نقوش، ستواں ناک، دور تک دیکھتی آنکھیں، نہایت سلیقے سے پیچھے کے رخ کیے ہوئے بال، ہاتھ میں سگار، انگریزی سوٹ جس میں کھڑی کریز کی پتلون اور ٹھیک سے جما ہوا ڈبل بریسٹ کوٹ، موسم کی مناسبت سے ہیٹ، اعلی ترین جوتے، غرض کچھ تو خدا کی دین تھی، کچھ جامہ زیب ایسے تھے کہ دیکھنے والی آنکھ سراہے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ شیروانی پہننا شروع کی تو وہ بھی معلوم ہوتا تھا انہیں کے لیے بنی ہے، جناح کیپ پہنتے، پاؤں میں پمپس ہوتے، ایک لمحے کو گمان نہ ہوتا کہ یہ شخص جو ایسے تن کر کھڑا ہے اندر نہ جانے کن کن بیماریوں کا شکار ہے۔ تو لوگ جو انگریزی نہیں بھی جانتے تھے وہ بھی آ کر ان کی تقریریں ضرور دیکھتے، سن کر سمجھ نہیں سکتے تو کیا ہوا، دیکھ تو سکتے تھے، اور اس کشش میں کچھ حصہ ان کی شخصیت کا بہرحال تھا۔

ہماری تاریخ کا دوسرا بڑا نام ایوب خان تھے۔ او ماہی چھیل چھبیلا ہائے نی کرنیل نی جرنیل نی، میرا ماہی چھیل چھبیلا کرنیل نی جرنیل، ان کا\"jinnah-2.jpg-ns\" نام جب بھی آتا ہے کانوں میں یہ گانا بجنا شروع ہو جاتا ہے۔ بچپن میں کبھی نہیں معلوم ہوا کہ ایوب خان کے دور میں کیا سنہرے کارنامے ہوئے، ملکی معیشت کی ترقی کیسے دن دگنی اور راتوں میں چوگنی ہوئی، پنج سالہ منصوبہ کیا ہوتا تھا، کون بناتا تھا، کیسے عمل ہوتا تھا، انہیں ہلال پاکستان کیسے ملا، وہ فیلڈ مارشل کب ہوئے، وہ فاطمہ جناح سے کیسے جیت گئے، چین کے ساتھ ان کے تعلقات کیسے تھے، تھینک یو امریکہ کی تختیوں والا قصہ کیا تھا، یہ سب کبھی معلوم نہیں ہوا۔ یہ ضرور معلوم تھا کہ چھ فٹ سے بھی نکلتا ہوا قد، خوب چوڑے شانے، عقابی نظریں، انتہائی جچتی ہوئی تیکھی مونچھیں، چوڑی پیشانی، کھلا ہوا گندمی رنگ اور اس سب کے ساتھ ورزشی جسم پر جب یونی فارم پہنے ہوتی تھی تو غضب لگتے تھے۔ اس دور کی خواتین آج بھی یاد کرتی ہیں کہ ایوب خان جیسی پرسنیلیٹی پھر نہ ہوئی کسی کی، سچ کہتی تھیں۔

قائد عوام، فخر ایشیا، بابائے آئین پاکستان، پہلے صدر رہے، پھر وزیر اعظم رہے پھر وہاں رہے جہاں اکثر منتخب وزرائے اعظم رہا کرتے ہیں اور پھر اللہ میاں کے پاس چلے گئے۔ انہوں نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنایا اسے آئین دیا، احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا، جمعہ کی چھٹی شروع کروائی، ملک کے طول و عرض میں پھیلے شراب خانے بند کروائے، نجی ادارے نیشنلائز کیے اور بہت سے اچھے کام کیے لیکن یہ سب اس وقت معلوم ہوا جب ہم لوگ بڑے ہوئے۔ بھٹو صاحب سے پہلا تعارف یہ تھا کہ انہوں نے عوامی سوٹ متعارف کروایا، آستینیں جس کی کبھی بند نہیں ہوتی تھیں، ہاتھ لہرا کر جلسوں سے خطاب کرتے تو اوپر چڑھ جاتیں، ہاتھ نیچے کرتے تو جھولتی رہتیں۔ مقدمے کی \"za-bhutto1-640x480\"سماعت کو جاتے تب بھی انگریزی سوٹ زیب تن کرتے۔ چہرے سے ذہانت ٹپکتی تھی، دیکھنے والا ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو جاتا تھا۔ بھرے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے پوچھتے لڑو گے، جواب آتا لڑیں گے، پوچھتے مرو گے، کہتے مریں گے۔ یہ الگ بات کہ ان کی نماز جنازہ میں شاید پندرہ لوگ بھی پورے نہیں تھے۔ پھر غیر ملکی اداروں کو جو انٹرویو دئیے جاتے، ان کی دھومیں تھیں، جو سوٹ وہ پہنتے نئی نسل اسے کاپی کرنا شروع کر دیتی، بھٹو کبھی کف لنک لگا لیتے تو بازاروں میں کف لنک شارٹ ہو جاتے، جلسوں میں جس رنگ کا عوامی سوٹ پہنتے بازاروں میں لوگ اس رنگ پر ٹوٹ پڑتے، یہ سب ان کی ذاتی شخصیت کا کرشمہ تھا، سیاست رہی نہ رہی، خود وہ رہے نہ رہے، بھٹو لیکن آج بھی زندہ ہے اور اس زندگی میں بڑا ہاتھ ان کی پرسنیلیٹی کا ہے جس کا اردو اور انگریزی دونوں والا کیرزما کمال تھا!

خواتین دیوانہ وار ایک جھلک دیکھنے کو دھکے کھاتی پھرتی ہیں، نوجوان پروانوں کی طرح آس پاس منڈلاتے ہیں، ٹی وی پر آئیں تو قوم ٹی وی کے آگے جڑ جاتی ہے، چونسٹھ برس کی عمر میں بھی تیس برس والوں سے زیادہ سٹیمنا ہے۔ ورزش کرتے ہیں، ویڈیو چل جاتی ہے، نماز پڑھتے ہیں تصویریں کھچ جاتی ہیں، کھانا کھا رہے ہوں لوگ موبائل سے یادگار عکس بنا لیتے ہیں۔ شلوار قمیص پہنیں تو اکثر سفید رنگ کی \"imranسادہ سی ہوتی ہے لیکن سادگی میں بھی نفاست، جو بھی پشاوری چپل پہنیں گے وہ ان کے نام سے منسوب ہو جائے گی، جوگنگ کریں تو بھی عام سے ٹریک سوٹ میں ہوتے ہیں، دھوپ پڑ جائے تو کالا رے بین لگا لیں گے، ایک آدھی ڈیجیٹل گھڑی پہنی ہو گی، وہی لمبا قد، وہی فٹ جسامت، بہترین ہئیر کٹ، کالے سیاہ چمکتے ہوئے بال، چلیں گے تو بال بھی باقاعدہ ہلیں گے غرض خوب صورتی اور مردانہ وجاہت کی تمام تعریفوں پر پورے اترتے ہوئے ہمارے آج کل کے لیڈر عمران خان ہیں۔ ورلڈ کپ جیتے تو امر ہونے والے تھے کہ سیاست میں کود پڑے۔ تازہ ترین بیان کے مطابق عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے عمران خان فوج کو دھائیاں دیتے پائے جا رہے ہیں۔ چیخ چیخ کر پکارتے ہیں کہ آئیے مہربان، اس خانہ ساز جمہوریت کا بھٹہ سا سر اڑائیے اور حرام ہے جو ہم چوں بھی کر جائیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ عوام پھر بھی ان کے ساتھ ہیں۔ عوام سب دیکھتے ہیں سب سمجھتے ہیں لیکن وہ پرسنیلیٹی جو ہے وہ بہت ظالم ہے۔ تو عمران خان بھی اپنی شخصیت کی وجہ سے دیوانہ وار چاہے جاتے ہیں۔

وہ بدنصیب جو نہ شکل و صورت میں اچھے تھے اور نہ قد ان کے لمبے تھے اور نہ کھڑی ناکیں ان کے پاس تھیں، وہ بنگالی تھے۔ بھگا دیا انہیں ہم نے، ان کی تو زبان بھی کچھ عجیب سی تھی اور وہ مچھلی کی بدبو کا بھی آج تک سننے میں آتا ہے۔ نہ کپڑے پہنے جچتے تھے، نہ اردو ٹھیک سے بولتے تھے، کچھ ہوتا تو چاہے جاتے، وار دئیے گئے!

سرفراز نواز بھی آئے دن ٹی وی پر عمران خان کے خلاف بیانات دیتے تھے لیکن ہم چوں کہ شخصیت کے اسیر تھے تو کبھی نہ سوچا کہ یہ \"bilawal1\"ایویں سا آدمی شاید بات ٹھیک کر رہا ہو، کبھی لفٹایا ہی نہیں، یاد ہی نہیں کہ بات کیا کرتا تھا، بس اتنا یاد ہے کہ عمران خان کے خلاف بولتا تھا اس لیے زہر لگتا تھا۔ وہ عمران خان جس کے شوکت خانم کے بیس روپے والے ٹکٹ ہماری نسل نے دیوانہ وار بیچے تھے، ماں باپ کے بٹوے خالی کر دئیے تھے، بلے پر اس کا ایک سائن لینے کے لیے گھنٹوں دھوپ میں کھڑے رہتے تھے، یہ اس کے خلاف بولتا تھا، ہاؤ ڈیر ہی!

بلاول ہے، بچہ سا سیاست دان، لوگ کہتے ہیں بولنا تک نہیں آتا، باقاعدہ مذاق اڑاتے ہیں۔ شیخ رشید جو کچھ اس کی والدہ کے ساتھ بھری اسمبلی میں کیا کرتے تھے اور لوگ ہنستے تھے، آج اس کے ساتھ کرتے ہیں اور لوگ ہنستے ہیں۔ ہنستے ہنستے اس کی ماں نہ رہی لیکن بھاڑ میں جائے سب کچھ۔ چوں کہ بلاول ایک پختہ عمر کا منجھا ہوا بلکہ ماچو سیاست دان نہیں دکھتا، شیں جوانوں والی کوئی بات اس میں نہیں ہے، اتھرا کھلاڑی وہ نہیں ہے اس لیے ہم بلاول کو ووٹ نہیں دیں گے۔ جس کی شخصیت میں کوئی کرزما ہی نہیں، جو لٹک لٹک کر بات کرے اسے ہم بھلا لیڈر کیسے مان لیں۔ لیڈر تو وہی جو اوپر بیان کی گئی ملکوتی صفات والے ہوں، ورنہ نہ ہوں!

الطاف بھائی کی تو بات ہی کیا کرنی۔ پہلے ہی دن سے ولن لگتے تھے۔ کالا بھجنگ رنگ، عجیب مجرمانہ سی مونچھیں، یہ بڑا سا چشمہ لگایا\"farooq-sattar-2\" ہوا، سمگلروں جیسا لک، کون شریف آدمی ان پر بھروسا کرتا۔ پھر آخری عمر میں اتنے موٹے ہو گئے کہ چشمہ بھی چھوٹا پڑ گیا، بولنا بھی عجیب طریقے سے شروع ہو گئے، پھر ہم نے بھی جی بھر کے مذاق اڑایا۔ بھئی بندہ تو کوئی ڈھنگ کا ہو، نہ ہو تو بات ہی میٹھی کر دے۔ پھر بھائی نے بغاوت کر دی، اور ظاہری بات ہے کسی بھی ملک کی سیاست ایسے وقت میں انہیں کہاں افورڈ کرتی۔

فاروق ستار بے چارے بھی لاکھ قسمیں کھا لیں، جب شکل پر ولن لکھا ہے تو ہیرو کیسے ہو سکتے ہیں۔ اور اندازہ کریں، اگر پروفیسر حسن ظفر PHD تھے تو کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ ہمارے یہاں سیاست کی حرکیات کیا ہیں۔ بھلے آدمی ایک تو لوگ آپ کو دیکھتے ہی آپ کے بارے میں ججمینٹل ہو جاتے ہیں کہ یہ بندہ تو ہے ہی پریم چوپڑہ جیسا، اس نے کیا اچھی بات کرنی ہے پھر آپ ایم کیو ایم کا علم تھامے اتر آئے۔ صاحب، جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے سامان اتارا کرتے ہیں، نہ کہ اندر چڑھا جاتا ہے۔ اور یاد رکھیے اگر اندر چڑھنا ہو تو لازم ہے کہ مصطفی کمال بھائی جیسی ایک بارعب، نستعلیق، پریزینٹیبل اور خوب صورت شخصیت کا مالک ہوا جائے۔ اس چمن میں \”تو ورنہ\” گزارا نہیں!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments