عمران خان کی بلی تھیلے سے باہر


\"edit\"ملک میں عوام کی قوت سے کرپشن پاک نظام قائم کرنے کی خواہش کا دعویٰ کرنے والے تحریک انصاف کے چئیر مین عمران نے کہا ہے کہ دو نومبر کو تصادم کی صورت میں اگر تیسری قوت ملک میں جمہوریت کا خاتمہ کرتی ہے تو اس کی ذمہ داری نوز شریف پر عائد ہو گی۔ اس طرح انہوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ فوج کی طرف سے کسی ناخوشگوار اقدام کا خیر مقدم کریں گے تاکہ ملک میں ان کے اقتدار کا راستہ ہموار ہوسکے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر عزت پانے والے ایک رہنما کا یہ طرز عمل خطرناک اور ناقابل قبول ہی نہیں بلکہ اس ملک میں جمہوریت کی جد و جہد کرنے والوں اور اس کے لئے جیل کی سزائیں کاٹنے اور جان کی قربانی دینے والوں کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ اقتدار کی ہوس میں کسی سیاسی گروہ کو اس حد تک جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

عمران خان 2014 میں کئے جانے والے دھرنے کے دوران ایمپائر کی انگلی کا استعارہ استعمال کرتے رہے ہیں۔ سب جانتے تھے کہ وہ فوج کی طرف سے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اپنے لئے راستہ ہموار کرنے کی بات کررہے تھے۔ انہیں بعض ریٹائر یا حاضر سروس فوجیوں نے اس قسم کی امید بھی دلائی تھی۔ تاہم چار ماہ تک ناکام دھرنے کے بعد جب انہیں پشاور آرمی اسکول پر دہشت گرد حملہ کے بعد اسے ختم کرنا پڑا تو وہ اپنی خفت مٹانے کے لئے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ایمپائر کی انگلی سے ان کی مراد عوام کی امداد تھی۔ عوام پر ان کے عدم اعتماد کا اندازہ اس بات ہی کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کبھی 2013 کے نتائج کو قبول نہیں کیا۔ وہ صرف خیبر پختون خوا کے انتخابات کو جائز مانتے رہے ہیں جہاں پاکستان تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکی تھی۔ جن حلقوں میں تحریک انصاف کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے، عمران خان کے نزدیک وہاں دھاندلی ہوئی تھی۔ جمہوری نظام میں کسی سیاسی قائد اور جماعت کی پالیسیوں اور طرز عمل سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن عوام کے ووٹ کو دھاندلی کہہ کر مسترد کرنے کا طریقہ صرف عمران خان کا ایجاد کردہ ہے۔ وہ گزشتہ انتخاب سے پہلے نام نہاد ’سونامی‘ کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ ان کو توقع تھی کہ جو قوتیں انہیں ملک کا آئیندہ وزیر اعظم بننے کا خواب دکھارہی ہیں ، وہ ان کی کامیابی کے لئے بھی راستہ ہموار کریں گی۔ جب نہ سونامی آیا اور نہ غیبی امداد نے عمران خان کو اقتدار کی کرسی تک پہنچایا تو ان کی مایوسی بڑھنے لگی۔

انتخاب میں کامیابی حاصل کرکے ملک کے حالات ٹھیک کرنا اور پالیسیوں کو اپنے پارٹی پروگرام کے مطابق چلانا ہر سیاسی لیڈر اور پارٹی کا حق ہے۔ لیکن یہ حق صرف اسی صورت میں تسلیم کیا جا سکتا ہے اگر اس حوالے سے وہ سیاسی لیڈر اور پارٹی جمہوری عمل میں اپنے فرائض کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ ہو۔ جو لیڈر کھلے الفاظ میں جمہوریت کی توہین کرتا ہو اور عوام کے فیصلے کو مسترد کرنے کے علاوہ یہ امید لگائے بیٹھا ہو کہ فوج اس کی دہائی سن کر ملک کی جمہوری حکومت کا بستر گول کردے گی اور اسے اپنی مرضی کے مطابق ملک چلانے کا موقع دے گی، وہ نہ تو عوام دوست ہو سکتا ہے اور نہ ہی جمہوری عمل میں ایسے رویہ کو قبول کیا جا سکتا ہے۔

عمران خان نے اب یہ واضح کردیا ہے کہ وہ 2 نومبر کو اسلام آباد میں جس احتجاج کو اپنا جمہوری حق قرار دے رہے ہیں ، دراصل وہ اس نام نہاد حق کو اسی جمہوری عمل کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان کا واحد مقصد نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرکے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنا ہے۔ حالانکہ پاکستان کی سیاست کے بارے میں معمولی شدھ بدھ رکھنے والا شخص بھی یہ بتا سکتا ہے کہ اگر خدا نخواستہ فوج نے ایک بار پھر جمہوریت پر شب خون مارا تو عمران خان کے لئے اقتدار کے سارے راستے بند ہو جائیں گے۔ پھر وہ جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے نہ احتجاج کرسکیں گے اور نہ ہی کوئی فوجی لیڈر انہیں منہ لگانے کو تیار ہو گا۔

ملک کی فوجی قیادت نے 2008 کے بعد سے نہایت ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہ اب تک اس پر قائم ہے۔ فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان سیکورٹی اور خارجہ امور کے معاملات پر مشاورت ہوتی ہے اور دونوں مل کر اختلافات دور کرنے اور متفقہ حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ سیاسی حکومت کے معاملات میں فوجی مداخلت پر بھی سوال اٹھائے جاتے ہیں لیکن ملک کے جمہوری لیڈروں نے، جن میں موجودہ حکمران اور سابقہ حکمران پارٹیاں شامل ہیں، اس طریقہ کار کو قبول کیا ہے تاکہ دہشت گردی جیسے عفریت کا سامنا کرتے ہوئے ہم آہنگی اور اتفاق رائے پیدا ہو۔ اسی لئے اہم معاملات میں فوج کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے اور اس کے مشورے کو قبول کیا جاتا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ ملک کی فوجی قیادت اس طرز عمل سے گریز کی کوئی صورت اختیار نہیں کرے گی۔

عمران خان نے تیسری قوت کی طرف سے مداخلت کی بات کرکے ملک کے جمہوریت پسند حلقوں کو مایوس کیا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ عمران خان جمہوری طریقے سے ہی تبدیلی کے خواہاں ہیں، آج کے بیان سے ان کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ تحریک انصاف کے متوازن سوچ رکھنے والے عناصر کو اپنے لیڈر کی گرفت کرنی چاہئے۔ اس قسم کا رویہ اور جمہوری نظام کو تلپٹ کرنے والا احتجاج اس ملک کے عوام کی خواہشات کے برعکس ہے۔ یہ ملک عوام کے ووٹ سے وجود میں آیا تھا۔ عوام کے ووٹ سے ہی اسے مضبوط اور مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ جو عناصر بھی معاملات کو ٹھیک کرنے کے لئے شارٹ کٹ کی تلاش میں ہیں ، وہ کل بھی غلط تھے اور آئیندہ بھی انہیں مایوسی ہوگی۔ یہ درست ہے کہ ضرب عضب میں فوج کی کامیابی اور جمہوری حکومت کی کارکردگی حسب توقع نہ ہونے کے سبب ملک میں فوج کے حامیوں کا ایک حلقہ پیدا ہو چکا ہے۔ یہ لوگ کسی فوجی مداخلت کا خیر مقدم کریں گے لیکن ماضی کی طرح مستقبل میں بھی فوجی آمریت ملک کے مسائل حل کرنے کی بجائے ، ان میں اضافہ کرنے کا سبب بنے گی۔

امریکہ میں صدارت کے امید وار ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کے ساتھ آخری مباحثہ میں میزبان کے اس سوال کا واضح جواب دینے سے انکار کیا تھا کہ وہ انتخابات کے نتائج کو قبول کرلیں گے۔ ان کے اس رویہ کو امریکی جمہوری روایت کے خلاف قرار دے کر تمام حلقوں کی طرف سے مسترد کیا جارہا ہے۔ سیاست دانوں کے علاوہ میڈیا کی طرف سے انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عمران خان امریکہ اور برطانیہ کی جمہوری روایات کی مثالیں دے کر ملک کے سیاست دانوں پر دشنام طرازی کرتے رہے ہیں۔ اب جمہوریت کے خلاف بیان دینے پر انہیں قوم سے معافی مانگنی چاہئے ۔ انہیں یہ بھی وعدہ کرنا ہوگا کہ 2 نومبر کے احتجاج کے دوران ان کے کارکن نہ ہنگامہ کریں گے، نہ سیکورٹی فورسز پر حملہ کریں گے اور نہ ہی سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ اگر وہ یہ وعدہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ نہ جمہوری روایت کا مفہوم سمجھتے ہیں اور نہ اس نظام کے تحت ملنے والے حق کو استعمال کرتے ہوئے ان حدود کو ماننے پر آمادہ ہیں جو کسی بھی حق کا لازمہ ہوتا ہے۔ عمران خان جن ملکوں کی مثالیں دے کر لوگوں کو سنہرے خواب دکھاتے ہیں وہاں کسی احتجاج کے دوران کوئی سیاسی پارٹی یا مظاہرین پولیس کی قائم کردہ حدود کو توڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کجا کوئی سیاسی لیڈر اپنے احتجاج کے نتیجے میں تیسری قوت کی مداخلت کی بات کرے۔ عمران خان جب خود جمہوری رویہ اختیار کریں گے تب ہی وہ ملک میں جمہوری نظام استوار کرنے کے لئے کام کرنے کے قابل ہوں گے۔

میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے یہ ناقص دلیل بھی دی ہے کہ سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز کے حوالے سے معاملہ کی سماعت سے ان کے احتجاج کا جواز ختم نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ سپریم کورٹ تو انہیں بدعنوانی پر سزا دے گی۔ گویا عمران خان جو لایعنی باتیں سیاسی جلسوں میں کرتے رہے ہیں ، ان کے نزدیک ان سے نواز شریف کے خلاف الزامات ثابت ہو گئے ہیں ۔ اب عدالت صرف سزا کا اعلان کرے گی۔ اس طرح تحریک انصاف کے لیڈر صرف جمہویت ہی نہیں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے اختیار کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیں۔ ایسے نعرے لگاتے ہوئے وہ جو احتجاج کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں ، وہ خود عمران خان کی سیاسی زندگی کے کفن میں آخری کیل ثابت ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments