خادم اعلی شہباز شریف کے تاریخی یو ٹرن


خبر اڑی ہے کہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف صاحب نے ہسپتالوں کو درست کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے۔ خادم اعلی کا کہنا ہے کہ وہ قوم کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے ڈینگی کی ادویات کی بروقت خریداری نہ کرنے پر بھی اتوار کے روز ویڈیو لنک کے ذریعے مسلسل تین گھنٹے تک برہمی ظاہر کی اور بتایا کہ یہ انسانی زندگی کا معاملہ ہے۔ ابھی یہ تحقیق نہیں ہو پایا کہ ویڈیو لنک کے دوسرے سرے پر بھی کوئی موجود تھا یا نہیں۔

ڈینگی بھِی عجب شے ہے۔ خادم اعلی کے شہر لاہور میں واقع ہمارے گھر اس قدر تواتر سے ڈینگی مچھر تشریف لا رہے تھے کہ دو دن پہلے ہی اپنے گھر میں زر کثیر خرچ کر کے سپرے کروایا ہے۔ اب اگر ہم گھر سے باہر گلی میں نہ نکلے تو ہم ڈینگی سے سو فیصد محفوظ ہیں۔ ہم تحریک انصاف کے ٹائیگر نہیں ہیں جو ان ڈینگی مچھروں کی موجودگی پر ہم خادم اعلی کو الزام دیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بندہ چاہے وزیراعلی ہی کیوں نہ ہو جائے، رہتا پھر بھی وہ لاچار ہی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو خادم اعلی لارنس گارڈن میں اپنے دفتر کے عقب میں واقع اس پہاڑی پر ہی ڈینگی سپرے کروا دیتے جہاں دن بھر پنجاب کے عوام کی طرح چمگادڑیں الٹی لٹکی ہوتی ہیں اور عوام کی بلامعاوضہ خدمت کی خاطر بے تحاشا ڈینگی مچھر چوبیس گھنٹے دستیاب ہیں۔ آپ چاہے دن کے بارہ بجے وہاں جائیں، ڈینگی مچھر آپ کے استقبال کے لئے موجود ہوں گے۔

خادم اعلی رائے ونڈ کے تحصیل ہسپتال میں گرد و غبار دیکھ کر بھی بہت ناراض ہوئے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ گزشتہ دو سال سے کسی نے خادم اعلی کو خبر کیے بغیر یہ جو آدھا لاہور کھود رکھا ہے، اس سے اٹھنے والے گرد و غبار کی جب بھی خادم اعلی کو خبر ہوئی تو وہ تو مارے غصے کے سالم لاہور شہر کو ہی معطل کر دیں گے۔

لیکن ان کے بیان کا سب سب اہم حصہ وہ ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ وہ قوم کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دیں گے۔

دوپہر کے کھانے کا وقت ہے اور بھوک سے برا حال ہے، اس لئے سستی روٹی یاد آ رہی ہے۔ خادمِ اعلی کیونکہ قوم کا پیسہ ضائع نہیں کرنا چاہتے ہیں، اس لئے بجائے مہنگائی کنٹرول کرنے اور ذخیرہ اندوزوں اور تاجروں کی کرپشن پر حکومتی گرفت سخت کرنے کے، انہوں نے حکومت کا پیسہ عوام کو سستی روٹی کھلانے پر لگا دیا اور آج آپ پنجاب کے کسی بھی ڈھابے پر جا کر ارزاں نرخوں پر سستی روٹی کھا سکتے ہیں۔ یہ غریبوں کے لئے ایک بڑی سہولت ہے جو کہ مسلسل کئی برسوں سے جاری و ساری ہے۔ لیکن اگر آپ بلاوجہ ہی خادم اعلی کے مخالف ہیں اور کٹ حجتی پر اترے ہوئے ہیں تو آپ کہیں گے کہ یہ سستی روٹی کسی کو نہیں مل رہی ہے۔ راقم الحروف آپ سے یہی کہنا چاہتا ہے کہ کسی کی دشمنی میں اندھے نہ ہو جایا کیجیے، انصاف سے کام لیا کریں۔ آپ کسی وقت بھی قومی اسمبلی یا پنجاب اسملبی کے کیفے ٹیریا میں جا کر سستی روٹی کھا سکتے ہیں جو کہ بازار سے نہایت سستے نرخوں پر مہیا کی جاتی ہے۔ خادم اعلی کی طبیعت سستی شہرت حاصل کرنے سے نفور رکھتی ہے، اس وجہ سے وہ سستی روٹی کے اپنے اس بڑے کارنامے کا اب تذکرہ نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی ماضی کی طرح اب اس کے اشتہار چلاتے ہیں۔

دانش سکول بھی یاد آتے ہیں۔ غریب کے بچے کو وہاں مفت قیام و طعام کی سہولت دی گئی ہے۔ کئی برسوں سے یہ منصوبہ جاری و ساری ہے۔ جو شخص بھی خود کو غریب محسوس کرتا ہے، دانش سکول میں اپنے بچے کو داخل کروا کر نچنت ہو جائے۔ ماشا اللہ وہاں ویسا ہی تعلیمی معیار ہے جیسا کہ آپ کسی بھِی مہنگے ترین سکول میں پاتے ہیں۔ اور کمال یہ ہے کہ آپ کی جیب سے تعلیم، کتابوں، یونیفارم وغیرہ پر ایک ٹکہ بھی خرچ نہیں ہو گا۔ اپوزیشن الزام لگائے گی کہ عام سرکاری سکول بند کیے جا رہے ہیں اور وہاں تعلیم کا معیار ایسا ہے کہ گھروں میں کام کر کے پیٹ پالنے والی ماسیاں تک اپنے بچے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھاتی ہیں۔ اپوزیشن کہے گی کہ خادم اعلی نے اربوں روپے کے اس پراجیکٹ میں اتنا سارا پیسہ لگا دیا ہے تو اس کی بجائے عام سرکاری سکولوں کی مینیجمنٹ اور حالت کو بہتر کرنے پر توجہ کیوں نہیں دی گئی ہے جس سے لاکھوں بچے فیض پاتے؟ یہ کہا جائے گا کہ اب دانش سکول کا نام سننے میں کیوں نہیں آتا ہے، کیا اس پر لگا ہوا تمام پیسہ ضائع ہو چکا ہے؟ نہیں جناب، آپ سے پہلے بھی درخواست کی تھی کہ انصاف سے کام لیا کریں۔ یہاں بھی وہی معاملہ ہے کہ خادم اعلی شہرت اور نام و نمود سے بھاگتے ہیں، اس لئے اب اس دانش سکول کا نام سننے میں نہیں آتا ہے۔

وفاق کی ییلو کیب وغیرہ وغیرہ سکیموں کو تو چھوڑ ہی دیتے ہیں۔ لیکن کیا کسی کو خادم پنجاب ییلو کیب سکیم یاد ہے؟ اسی زمانے میں پنجاب بیمہ شدہ مویشی بھی تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ امید ہے کہ ان دونوں سکیموں میں بھِی پیسہ ضائع نہیں ہوا ہو گا اور دیہات کے بے شمار غریب اس وقت کالی بھینس چرا رہے ہوں گے اور شہر کے لاتعداد غریب کالی ٹیکسی چلا کر غربت ختم کرنے میں مصروف ہوں گے۔ بلاشبہ یہ ایک اچھی سکیم تھی۔ کون سا دوسرا ملک ہے جہاں ایم اے پاس نوجوان ٹیکسی چلاتے ہیں؟

خادم اعلی نے طبیعت ہی ایسی پائی ہے کہ ہر روز بیٹھے یہی سوچتے رہتے ہیں کہ آج کیا نیا کیا جائے۔ کبھی سنیں کہ بارش ہو گئی ہے تو لانگ بوٹ پہن کر فوٹوگرافر کو ساتھ لیتے ہیں اور پانی میں چھپڑ چھپڑ کرنے نکل جاتے ہیں۔

دل تو بچہ ہے جی۔ مچل جاتا ہے پانی دیکھ کر۔ کبھی ان کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں جگہ کسی خاتون کے ساتھ جرم ہو گیا ہے، تو بجائے اس کے کہ کاہلی سے کام لے کر اپنی جگہ متعلق پولیس افسران کو بھیجیں اور ان کی تادیب کریں کہ پنجاب میں یہ کیسا اندھیر مچا ہوا ہے، وہ فوٹوگرافر ساتھ لے کر خود ہی انصاف کرنے پہنچ جاتے ہیں اور متاثرہ خاتون کو خوب تسلی دلاسہ دیتے ہیں۔

یاد رہے کہ انصاف دینا عدالت کا کام ہے، خادم اعلی کا نہیں۔ خادم اعلی کا کام صرف دلاسہ دینا ہے۔ خادم اعلی کو کبھی کھانا کھاتے ہوئے خیال آتا ہے کہ روٹی کمال کی ہے، تو سکیم شروع کر دیتے ہیں کہ عوام کو سستی روٹی دی جائے۔ کسی بچے کو کوڑا چنتے دیکھ لیں تو اسی دن دانش سکول کا اعلان کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments