بیسویں صدی کا سب سے بڑا لبرل کون؟


\"zeeshan

فریڈرک اے ہائیک (پورا نام ٖفریڈرک آگسٹ وان ہائیک) 8 مئی 1899 کو ویانا (آسٹریا) میں پیدا ہوا۔ اس کے والد آگسٹ ایک فزیشن اور یونیورسٹی آف ویانا میں باٹنی کے پروفیسر تھے۔ ماں (فلیاٹاس) بھی ایک پروفیسر تھیں جو بعد میں آسڑیا کی نمایاں بیوروکریٹ بنیں۔

جنگ عظیم میں خدمات سرانجام دیں جو بطور شہری اس پر لازم تھیں – جنگ سے پہلے ہائیک سوشلزم کے فے بیان (Fabian ) مکتب فکر سے تعلق رکھتا تھا جو پرامن اور مسلسل و مستحکم تبدیلیوں سے گورنمنٹ کے اس کردار کو کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر کو کنٹرول کرے ، کا حامی تھا۔ آسڑیا یہ جنگ ہار گیا،اور اس کے ملک میں سوشلزم آگیا۔ ہائیک نے سوشلزم کی سیاست معیشت معاشرت اور اس کے انتظام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جس نے اسے سوشلزم سے منحرف کردیا۔

1921 میں اس نے قانون میں پہلی ڈگری حاصل کی ۔ اب اس کا رجحان اکنامکس کی طرف بڑھ گیا۔ جس کے زیر اثر اس نے 1923میں یونیورسٹی آف ویانا سے اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کی دوسری ڈگری حاصل کی۔ یہاں اس نے مشہور آسٹرین معیشت دان Ludwig Von Misses کی نگرانی میں اپنی تحقیق مکمل کی۔ اکنامکس کی تعلیم نے اسے جلد ہی کارل مارکس کے مکتب فکر سے نکال کر ایڈم سمتھ کے مکتب فکر کا حامی بنا دیا ، جس کی رو سے معاشی خوشحالی گورنمنٹ کی معاشی منصوبہ بندیوں اور معاشی عمل پر کنٹرول سے نہیں بلکہ خریدار و سیلر کے درمیان رضاکارانہ تعاون و تبادلہ (Voluntary cooperation and exchange) سے آتی ہے۔ یہ ہر فرد کا سیلف انٹرسٹ (شخصی مفاد ) ہی ہے جو معاشی عمل میں طلب ورسد کے نظام کو جاری رکھتا ہے ، نہ کہ گورنمنٹ کا کمانڈ اینڈ کنٹرول اس کا سبب ہے۔ اس نے ڈویزن آف لیبر کو یہاں سمجھا جس کی رو سے معاشی عمل میں شریک تمام افراد اپنے مخصوص علم اور مہارت کو آپس میں بانٹ کر اور باقاعدہ کوآرڈینیشن میں شئیر کر کے پروڈکٹس اور سروسز کو زیادہ مقدار اور بہتر کوالٹی پر پیدا کرتے ہیں۔ اس نے کارل میگر کی اہم ترین کتاب پرنسپل آف اکنامکس یہاں پڑھی جس نے اس کے ذہن میں پروڈکٹس اور سروسز کی ویلیوز ، اور اس کا خریدار و سیلر کے ساتھ تعلق کو مزید واضح کردیا۔

\"frederic-hayek-1\"

The value of any given product is determined not by amount of labor that went into making it or about the cost of production, but by the desire of buyer & sellers۔

کسی بھی پروڈکٹ یا سروس کی ویلیو (قدر ) اس محنت کی مقدار سے متعین نہیں ہوتی جو اس پروڈکٹ یا سروس کو پیدا کرنے کے لئے کام میں آئی ، اور نہ ہی کل پیداواری اخراجات پر یہ انحصار کرتی ہے بلکہ اس کا تعین خریدار و فروخت کنندان کی ضروریات و خواہشات سے ہوتا ہے – (کارل میگر )

Mises کے ساتھ اس کا استاد و شاگردی والا رشتہ جلد ہی دوستی اور راہنمائی میں بدل گیا۔ جس کا ہائیک پر بہت زیادہ اثر ہوا۔ Mises اپنے عہد میں سب سے موئثر آواز تھی جو کہتا تھا کہ سوشلسٹ معیشت ٹیکنیکلی ناممکن العمل ہے۔ اس نے قیمتوں کے نظام اور اکنامک کوآرڈینشن پر بہت کام کیا جو آج بھی پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا منفرد ترین کام ہے –

1929 میں اس نے پہلی کتاب لکھی اور 1931 میں لندن سکول آف اکنامکس (LSE ) کی دعوت پر لندن چلا گیا جہاں اس نے مانیٹری پالیسی پر 4 لیکچر دیے۔ یہ لیکچر اتنے زیادہ مقبول ہوئے کہ اگلے سال لندن سکول آف اکنامکس میں اسے اکنامکس کا پروفیسر بنادیا گیا۔

ہائیک کا کام کثیر الجہتی (ملٹی ڈائمنشنل) ہے۔ اس کے جن تصورات کو بہت زیادہ مقبولیت ملی وہ اس کا اکنامک آرڈر،فرد کا علم ، اور پوری سوسائٹی میں اس علم کی تقسیم یعنی ڈسٹری بیوشن پر کام ہے۔ اس کے خیال میں اکنامک آرڈر آزاد قیمتوں کے نظام ، علم کی تمام انسانوں میں کم و بیش تقسیم (ڈسٹری بیوشن) کے سبب ان کے درمیان باہمی رضاکارانہ کوآپریشن اور کوآرڈینشن سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی سبب سے اس نے فاشزم،سوشلزم اور کینزین اکنامکس کی بھرپور مخالفت کی – وہ کینزین معیشت کو بھی ایک طرح کا سوشلسٹ اکنامک سسٹم سمجھتا تھا جو آہستہ آہستہ گورنمنٹ کی مزید سے مزید مداخلت سے کم شدت کے سوشلزم سے زیادہ شدت کے سوشلزم کا روپ دھار لیتا ہے

\"frederic-hayek-3\"
اس نے قیمتوں کو انفارمیشن سگنل کا نام دیا جو سوسائٹی کے علم اور پیداوار کو نظم و بندوبست ( coordination) میں لاتی ہیں –

اس نے بتایا کہ مثالی سماج اور معاشی نظام وہ ہے جس میں خود تنظیمی کی صلاحیت (Spontaneous Ordering) پائی جاتی ہو ۔

اس کا کہنا تھا کہ دولت کی پیداوار پر کسی طبقہ گروہ ادارے یا فرد واحد کا کنٹرول دراصل انسانی زندگی پر کنٹرول کے مترادف ہے۔ یوں سوسائٹی کے ہر شعبے پر آمریت کا قبضہ ہو جاتا ہے اور آزادیاں مفقود ہوجاتی ہیں۔

جنگ عظیم دوم کے بعد کنزین معاشی ماڈل کو امریکہ و برطانیہ میں نافذ کیا گیا اور فری مارکیٹ کیپٹلزم پس منظر میں چلا گیا۔ ہائیک نے اس دور میں کہا تھا کہ اس کا انجام خطرناک ہوگا کیونکہ مارکیٹ میں کوآرڈینیشن ختم ہوجائے گی اور بے روزگاری و مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔

1940 تک ہائیک محض ایک ماہر معیشت دان تھا۔ اب اس نے سوشل فلاسفی کی طرف توجہ کی۔ اس نے ایک شہرہ آفاق کتاب (اپنے موضوع کی مناسبت سے میری دانست میں پچھلی صدی کی سب سے بہترین تصنیف) Road to Serfdom لکھی۔ یہ کتاب انتہائی مقبول ہوئی ,خاص طورپر امریکہ و برطانیہ میں ۔ دلچسپ بات یہ کہ چونکہ اس کتاب میں ایک غیر مقبول بیانیہ پیش کیا گیا تھا اس لیے وہ لوگوں کے رد عمل سے بھی ڈرا ہوا تھا۔ اس وقت کا مقبول ترین بیانیہ کینزین معیشت کی شکل میں ریاستی رہنمائی (state led ) کی مارکیٹ یعنی ایک طرز کا سٹیٹ کیپٹلزم تھا۔

\"frederic-hayek-4\"

اس نے کلاسیکل لبرل ازم کے آئیڈیاز کو زندہ کیا اور ایک انٹرنیشنل سوسائٹی آف آئیڈیاز (Mont pelerin سوسائٹی)قائم کی۔ اس نے فری مین (آزاد فرد ) ،فری مارکیٹ (آزاد مارکیٹ ) اور فری سوسائٹی (آزاد معاشرے ) کے دفاع میں تاریخ ،سیاسیات ،معیشت اور فلسفہ کو بطور خاص اپنی دلیل کا مآخذ بنایا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ:

“ریاست کی نوکری بھی ایک اعتبار سے اپنے اندر کرپشن کے رجحانات رکھتی ہے۔ میں نے بہت سارے دوست دیکھے ہیں جو گورنمنٹ کے ساتھ جڑنے سے پہلے دانشور تھے اور جڑنے کے بعد سٹیٹس مین(ریاست کے ترجمان) بن گئے۔

اس کا ایک اور اہم کام کائرو انسٹیٹیوٹ کا دورہ اور وہاں قانون کی حکمرانی اور شخصی آزادیوں کی بنیاد پر قانون سازی پر مدلل و مفصل بات کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے بیسویں صدی میں لبرل ازم کو زندہ کردیا اور جان سٹارٹ مل کے بعد کلاسیکل لبرل ازم پر سب سے بہترین کام ہائیک کا ہی ہے

وہاں کی دانشور کمیونٹی کی دعوت پر ہائیک جرمنی چلا گیا۔ جرمنی جا کر اس نے اپنی کتاب Constitution of liberty کا پہلا ایڈیشن مکمل کیا۔ مگر اس کے بعد وہ شدید ڈپریشن کا شکار ہو گیا۔ کیونکہ وہ سمجھنے لگا تھا کہ اس کی ساری زندگی ضائع گئی۔ وہ غیر مقبول تھا اور مایوس ہوچکا تھا۔ 1974 میں اسے نظریہ علم اور مارکیٹ میں قیمتوں کے نظام پر نوبل انعام دیا گیا۔ اب نہ صرف اس کی توانائی بحال ہوئی بلکہ اس کی محنت و کارکردگی میں بے حد اضافہ ہوگیا۔ وہ عالمی سطح پر مقبول ہوگیا۔ اب وہ دن بھی آئے جب ہائیک بار بار کہتا تھا کہ گریٹ ڈپریشن کے بعد جب کینزین معیشت ہر طرف رائج ہورہی تھی ، اسے یوں میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ اسے اس معیشت کی خامیاں کوتاہیاں بحث میں لانی چاہیں تھیں جنہوں نے بعد میں بہت برے نتائج چھوڑے ۔

1970 کے آخر میں ہائیک کی پیش گوئیاں سچ ثابت ہونا شروع ہوگئیں۔ کینزین اکنامکس کی وجہ سے مہنگائی اور بے روز گاری کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی اور برطانیہ و امریکہ کی معیشتیں جمود کا شکار ہو گئیں۔ اس وقت ہائیک ہی تھا جس کی باتیں جو اس نے پچاس کے عشرے میں کہیں تھیں،صحیح ثابت ہونا شروع ہوئی۔ مارکیٹ میں جیسا کہ ہائیک نے پیش گوئی کی تھی ، گورنمنٹ کی بہت زیادہ پلاننگ کی وجہ سے کوآرڈینشن ختم ہو گئی اور اس میں کسی معاشی خرابی کے خلاف خود تنظیمی (Spontaneous ordering ) کی صلاحیت نہیں رہی تھی ۔

\"frederic-hayek-5\"

سب سے پہلے یو کے میں مارگریٹ تھیچر نے ہائیک کے خیالات پر عمل کرنا شروع کیا۔ ہائیک کو تھیچر کا دیوانہ پروفیسر کہا جاتا تھا۔ ایک بار دوران مباحثہ تھیچر سے پوچھا گیا کہ آخر ان معاشی مسائل سے نکلنے کا فارمولا آپ کے پاس ہے کیاِ؟ تو اس نے ہائیک کی کتاب نکالی اور میز پر مارتے ہوئے کہا ”یہ ہے میرا پلان“۔ یوں جب انگلینڈ کی معیشت میں نمایاں اور بہتر تبدیلیاں آئیں تو امریکہ میں ریگن نے بھی ہائیک کے نظریات کو امریکی پالیسی کے لیے بطور راہنما گائیڈ لائن کے قبول کیا۔ اسی دوران ملٹن فریڈ مین نے بھی لبرل معاشی بندوبست کے قیام میں امریکی حکومت کی خوب مدد کی۔ مہنگائی اور بے روزگاری اپنی کم ترین سطح پر چلی گئی، اور امریکہ نے ترقی کا سفر بدستور جاری رکھا۔

وقت مزید آگے بڑھا اور ا س کی علمیت کے اظہارمیں مددگار بنا۔ سوویت یونین منہدم ہوگئی اور دیوار برلن ٹوٹ گئی۔ اس بات نے مغربی ماہرین اور سوویت اہل علم کو حیران کردیا کہ جب وہ باقاعدہ علمی اور نظریاتی بنیادوں پر پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں کہتا تھا کہ کمیونزم آخر کار ناکام ہوکر ڈوب جائے گا۔ وہ کہتا تھا

Communism ultimately doomed to failure

تو اس وقت اس پر یقین کرنا مغربی دانشور کے لئے انتہائی مشکل تھا –

ہائیک نے اس موضوع پر خوب لکھا کہ آخر کار سوشلزم اور کمیونزم کیونکر عملی طور پر ناقص ہیں اور ناکام ہیں مگر اسے نظر انداز کیا جاتا رہا تھا ۔ وہ گمنامی میں رہا۔ مگر جب واقعی میں ویسا ہوا جیسی اس نے پیش گوئی کی تھی تو اسے پوری دنیاء کے لبرلز اور اہل علم حلقوں میں نمایاں شناخت ملی اور اسے جان سٹارٹ مل کے بعد لبرل معیشت کا سب سے بڑا فلسفی معیشت دان تسلیم کیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ اگر پچھلی صدی کو چار ادوار میں تقسیم کیا جائے تو

1۔ پہلا دور لینن اور سوویت انقلاب کا ہے۔

2۔ دوسرا دور ہٹلر مسولینی اور فاشزم کا ہے۔

3۔ تیسرا دور کینزین معیشت کا ہے۔ اور

4۔ چوتھا دور بلآخر ہائیک کا ہے۔

اسی سبب سے وہ کہا کرتا تھا کہ Ideas have consequences (نظریات کے بھی نتائج ہوتے ہیں اور ان نظریات کی صحت کا دارومدار ان نتائج پر ہوتا ہے )

وفات : تئیس مارچ 1992 کو جرمنی میں ٩٣ سال کی عمر میں وفات پائی –

\"frederic-hayek-2\"

اقوال زریں

۔ انفرادی آزادیوں پر شبخون ہمیشہ ”نازک حالات“ کے عنوان سے ہی مارا گیا ہے۔

۔ مطلق مادی مساوات کا مطالبہ صرف مطلق العنان حکومت ہی پورا کر سکتی ہے۔

۔ انسانی دماغ خود اپنی پیش قدمی (یعنی مستقبل کے ہر اگلے قدم )کا اندازہ نہیں لگا سکتا –

۔ وہ آزادی، آزادی نہیں جو فائدہ مند نتائج کا علم ہو جانے کے بعد عطا کی جائے۔

۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ عدالتی تحفظ کو ” مطلق سماجی انصاف کے سراب ” سے بڑھ کسی چیز نے نقصان نہیں پہنچایا-

۔ میرے خیال میں یہ کہنا مبالغہ آمیز نہیں ہو گا کہ تاریخ بڑی حد افراط زر (inflation ) کی تاریخ ہے، ایسی افراط زر جو حکومتیں اپنے ہی مفادات کے لیے وجود میں لاتی ہیں۔

۔ ہمارے لیے اس حقیقت کا سامنا کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ پیداوار میں مطلق مساوی تقسیم کے اصول شخصی آزادی کے تصور سے ہم آہنگی نہیں رکھتے۔

۔ ہماری اخلاقی روایات ہماری عقل کی ہمسفر ہیں، اس کا نتیجہ نہیں۔

۔ آہ وہ دانشور جن کی ذاتی خواہشات ان کی عقل کی حدود سے تجاوز کر گئیں –

۔ پارسا اور یک رخے مثالیت پسندسے پاگل پن تک کا سفر ایک قدم ہی کا ہے۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments