امن کے لئے جنگ میں کامیابی اور چیلنجز


\"genپاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے آپریشن ضرب عضب کو امن کے لئے جنگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کارروائی کے نتیجہ میں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں استحکام اور خوشحالی کا راستہ ہموار ہؤا ہے۔ انہوں نے لاہور میں پاک فوج کی جنگی صلاحیتوں کے مقابلوں PACES کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 18 ملکوں کے فوجیوں نے ان مقابلوں میں حصہ لیا ہے جس سے واضح ہو تا ہے کہ پاکستان اب دنیاکے زیادہ قریب ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جنگ پاک فوج کی صلاحیت اور ہمت و شجاعت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آرمی چیف کے اس بیان سے اختلاف ممکن نہیں ہے۔ لیکن ابھی تک ملک کے عوام میں بے چینی اور اندیشوں کا پوری طرح خاتمہ نہیں ہؤا ہے۔ اب اس مقصد کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔

عوام کی بے چینی کے دو پہلو بہت واضح ہیں۔ ایک تو ملک میں بدستور انتہا پسند گروہ موجود ہیں جو جہاد کے ذریعے پاکستان کے مسائل حل کروانے کی بات کرتے ہیں اور اس حوالے سے لوگوں کو گمراہ کرنے سے باز نہیں آتے۔ ایسے ہی بعض کالعدم گروہوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے منعقد ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بارے میں انگریزی اخبار ڈان میں شائع ہونے والی خبر کے بعد فوج کے رد عمل سے پاکستان کے عام لوگوں کی پریشانی میں اضافہ ہؤا ہے۔ بعض اقتدار نواز اور فوج کے ہر اقدام کی تائد میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والے تبصرہ نگاروں کی گوہر افشانیوں سے قطع نظر یہ سوال تو اپنی جگہ موجود رہے گا کہ اس خبر میں ایسی کون سی غلط بات تھی کہ فوج کی کور کمانڈر کانفرنس کو اس پر رد عمل ظاہر کرنا پڑا۔

فوج کی اس بات سے اختلاف ممکن نہیں ہے کہ سیکورٹی کے حوالے سے منعقد ہونے والے اجلاس کی خبر باہر نہیں آنی چاہئے اور اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں شرکت کرنے والے تمام سیاست دانوں اور سرکاری افسروں کو اس بات کا دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ ملک انتہائی مشکل حالات سے گزر رہا ہے ۔ ایسے میں خفیہ معاملات کی خبر افشا کرنے سے ملکی مفاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ جیسا کہ ڈان کی خبر شائع ہونے کے بعد بھارتی میڈیا نے جیسے اس کو بنیاد بنا کر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا ، وہ فوج اور حکومت دونوں کے لئے پریشانی کا سبب ہونا چاہئے۔ تاہم یہ معاملات باہم مواصلت سے طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس معاملہ پر حکومت کی تردید اور تحقیق کا اعلان کرنے کے بعد فوج کے اعلیٰ ترین فورم سے اس پر تبصرہ سے دو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ فوج اور حکومت کے اختلافات پر بحث کا آغاز ہؤا جو بھارت کے ساتھ موجودہ کشیدگی کی صورت حال میں کسی صورت مناسب نہیں تھا۔ دوئم یہ تاثر گہرا ہؤا ہے کہ ملک کے بعض طاقتور ادارے ان عناصر کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں جن کی سرگرمیوں پر دنیا بھر میں تنقید ہوتی ہے۔ اس طرح ملک میں خوف اور بے یقینی کی فضا گہری ہوئی ہے۔ بھارت اسی کی بنیاد پر نت نئے انداز میں پاکستان دشمن پروپیگنڈا کرتا ہے۔

اسی حوالے سے عوام کی بے چینی کی دوسری بڑی وجہ ان گروہوں اور حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے عالمی سطح پر سامنے آنے والا احتجاج اور منفی تبصرے ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنی افواج پر بھروسہ بھی کرتے ہیں اور ان پر فخر بھی کرتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف بھی آپریشن ضرب عضب کے دوران متعدد بار یہ واضح کرچکے ہیں کہ عوام کی بھرپور حمایت کے بغیر کسی فوجی کارروائی میں کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ 2009 کا سوات آپریشن ہو یا اس وقت جاری آپریشن ضرب عضب ، پاکستانی عوام کے بھرپور تعاون اور تائد ہی کی وجہ سے پاک افواج شاندار کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ اس لئے پاک فوج کو بھی عوام کی پریشانی اور خوف سے آگاہ ہونا چاہئے۔ اور انہیں دور کرنے کے لئے مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔

اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ملک کی منتخب جمہوری حکومت پر تنقید اور اس کی کوتاہیوں کی نشاندہی کا کام ملک کی اپوزیشن اور میڈیا پر چھوڑ دیا جائے جو بخوبی یہ فریضہ ادا کر بھی رہے ہیں۔ فوج کو اس قسم کا کوئی اشارہ نہیں دینا چاہئے جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ فوج کی قیادت سیاسی لیڈروں سے ناخوش ہے اور بعض معاملات میں رائے عامہ کے ذریعے سیاسی حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔ ملک کے بحرانی حالات میں صورت حال پر قابو پانے کے لئے اقدامات کے حوالے سے فوج اور حکومت کے درمیان اختلاف سامنے آسکتا ہے۔ لیکن جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ان اختلافات پر بدرجہ احسن قابو بھی پایا جاتا رہا ہے۔ یہ پالیسی جاری رہے تو حکومت اور فوج میں اعتماد کی فضا بہتر ہوگی۔ عوام بھی اداروں میں ’تصادم‘ کی خبروں سے محفوظ رہ سکیں گے، جس سے ان کے حوصلے بلند ہوں گے۔ اور وہ زیادہ دل جمعی سے حکومت اور فوج کے شانہ بشانہ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ میں شریک ہو ں گے۔

بھارت اپنے داخلی مسائل سے نمٹنے کے لئے جس طرح خطے میں جنگ کے حالات پیدا کررہا ہے اور عالمی سطح پر جس طرح پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کے ذریعے دباؤ میں اضافہ کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس سے نمٹنے کے لئے فوج اور حکومت میں ہم آہنگی بے حد ضروری ہے۔ ان کے درمیان اختلاف اور تنازعہ کی خبریں اور ان پر گرما گرم ٹاک شوز سے کسی طرح بھی ملک و قوم کے طویل المدت مفادات کا تحفظ نہیں ہو سکتا۔ جنرل راحیل شریف نے پیشہ ور اور او لو العزم جنرل کی طرح فوج کو سیاست سے علیحدہ رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ لیکن اب اس طرزعمل کو مستحکم کرنے اور فوج کے مزاج کا باقاعدہ حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ تب ہی دنیا میں پاکستان کی حکومت اور ملک کے عوام کے وقار میں اضافہ ہو سکے گا۔ پاک فوج کا وقار بھی ملک و قوم کی عزت افزائی سے ہی مشروط ہے۔ اس مقصد کے لئے باقاعدہ کام کا آغاز کرکے ہی فوج ملک کے عوام کی پریشانیوں کا مستقل حل فراہم کرسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments