ڈاکٹروں کی ڈیل اور میڈیکل ریپ


اکبر احمر

\"akbar-ahmad\"جون کی سخت گرمی ہو یا دسمبر کی شدید سردی ایک خدائی مخلوق سڑکوں پر انگریزی لباس پہن کر ہاتھ میں اپنا بریف کیس پکڑے اپنے اپنے کانٹیکٹ پوائنٹ پر جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ معاشرے کے وہی پڑے لکھے تعلیم یافتہ محنتی اور پر عزم نوجوان ہیں جن کو ہم میڈیکل ریپ کہتے ہیں

ان کا کام ہوتا ہے اپنی کمپنی کی ہر نئی پراڈکٹ کا تفصیلی تعارف پیش کرنا اور ڈاکٹر کو قائل کرنا کہ ان کے پاس سب سے بہترین میڈیسن جبکہ ریٹ بھی کم ہے۔ ان کا پورا بیان ڈاکٹر ایسے سنتا ہے جیسے ہمارے حکمران عمران خان کی تقریر سنتے ہیں یعنی ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ وہ ہر گلی، شہر، چوک میں موجود ڈاکٹروں کے کلینک کے چکر لگاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر دوسرے شہروں سے اپنی پراڈکٹ کی تشہیر کے لیے آتے ہیں۔ اکثر ڈاکٹر تو ان کو صرف ریسیپشن پر ہی خدا حافظ کہلاوا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ریمائنڈر دے جائیں جو کہ کپمنی کی میڈیسن کا لٹریچر اور بہت سے سیمپل کی شکل میں ہوتا ہے۔ اکثر جگہوں پر تو لکھا ہوتا ہے میڈیکل ریپ صرف جمعے کو ایک سے دو تشریف لائیں اور اس دن وہاں بے چارے سب ایسے جمع ہوتے ہیں جیسے بھوکے چاولوں کی دیگ کے پاس ہو جاتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو ڈاکٹروں کو سب سے زیادہ فائدہ یہی میڈیکل ریپ اور کمپنیاں ہی دیتی ہیں۔ ڈاکٹروں کے گھروں کے سامان سے لے کر ان کو بیرون ملک کے ٹور اور عمرے کرواتے ہیں اور بہت کچھ مہیا کرتے ہیں۔ ان کو ڈاکٹر کی بیوی بچوں تک کی برتھ ڈے یاد ہوتی ہے کیونکہ گفٹ جو دینا ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر حضرات پھر بھی میڈیکل ریپ سے غیر انسانی سلوک کرتے ہیں۔ وہ بیچارے اتنا سفر کر کے جب انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں ان کو وہیں سے واپس کر دیا جاتا ہے۔ جو کمپنی ان کو اے سی لگوا دے میڈیسن اسی کی لکھی جاتی ہے باقی سب سیمپل دے کر چلتے بنتے ہیں۔

کئی بار تو کلینک کے باہر لکھ دیا جاتا ہے فلاں کمپنی کے لوگ اندر آنے سے گریز کریں کیوںکہ ان کی کمپنی نے ڈاکٹر کو ایل سی ڈی لگوا کر نہیں دی تھی۔ ڈاکٹروں سے میں پوچھتا ہوں کیا میڈیکل ریپ انسان نہیں ہیں؟ انسانیت کے ناطے بھی ان کے حقوق ہیں، ان کو بے عزت اور ذلیل نہ کیا کریں ان کی مسافت اور تھکن کا تو سوچا کریں۔ ان کے دئیے ہوئے پچھلے گفٹ کا ہی سوچ لیا کریں۔ ان کی عزت نہیں کر سکتے تو تذلیل بھی نہ کیا کریں۔ ان کے لیے مخصوص وقت رکھیں ان کی جدید تحقیق سے فائدہ اٹھایا کریں۔ وہ ہمارے معاشرے کے نہایت ذہین اور محنتی لوگ ہیں۔ ڈاکٹروں کو جدید سے جدید طریقہ علاج میں مدد دیتے ہیں۔ آپ کو اتنی عزت اور پیار سے بلاتے ہیں، آپ کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں اور ان سے صرف سیمپل لینے اور یہ پوچھنے کے لیے نہ ملا کریں کہ کمپنی کیا بینیفٹ دے گی۔ اگر دے گی تو ٹھیک ورنہ چلتے بنو۔

کب تک اپنے پیٹ کی دوزخ کو بھرو گے ایک نہ ایک دن سب باتوں کا حساب ہو گا اس دن مریضوں کے علاوہ ایک اور ٹولہ آپ کا گریبان پکڑے گا اور وہ میڈیکل ریپ ہوں گے۔ ابھی بھی وقت ہے انسانوں سے غیر انسانی سلوک بند کیا جائے، اپنی مختصر سی تنخواہ کو بھی وہ اپنے انگریزی لباس اور ٹائی کوٹ پر لگا کر آپ سے ملنے آتے ہیں مگر وہ ڈاکٹر ہی کیا جو نخرہ نہ کرے، ڈیمانڈ نہ کرے۔ اپنی حرص اور پیسوں کی حوس کے ساتھ انسانوں کو اہمیت دیا کریں یہی ہمارا مذہب ہم کو درس دیتا ہے۔ ہم نے بے شک جدید علوم پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے مگر ہم اسلامی اقدار کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔

سارا دن اپنی ورکنگ کر کے بھی ان کو کبھی شاباش نہیں ملتی کیونکہ وہ ڈاکٹر سے اپنی میڈیسن لکھوانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ اصل حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے کہ ڈاکٹر لکھتا ہی اس کمپنی کی دوا ہے جو بیرون ملک کا ٹور کرواتی ہے یا اے سی لگواتی ہے۔ اب کپمنی والوں کو کون بتائے کہ یہاں معیار نہیں بکتا ڈیل بکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments