سی پیک والا گیانی بابا


کوئی دن جاتا ہے کہ احباب امتحان سے دو چار کر دیتے ہیں۔ پشتو مقولہ کے وزن پراگر کہا جائے تو دعوت انکشاف دیتے\"zafarullah-khan-3\" رہتے کہ ’ یہ گز یہ میدان“ ۔ گویا فرما رہے ہیں کہ پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے۔ پہلے عدنان خان کاکڑ نے ڈارون کے نظریہ ارتقاء پر ایک چشم کشا تحریر لکھی۔ اس کے بعد ندیم فاروق پراچہ کی ملالہ پر لکھی گئی ہوش ربا تحریر ایک بار پھر سے سامنے آئی۔ اس بہتی گنگا میں برادرم سلیم ملک صاحب نے بھی ہاتھ دھوئے اور بتایا کہ اصلی مشتاق یوسفی صاحب کون ہیں۔ ان تحاریرپر اہل علم کا ردعمل آیا تو احباب نے وضاحت دی کہ یہ تو satire تھا۔ دیکھیے پہلی بات تو یہ ہے کہ معروض میں سچ کوئی مطلق شے نہیں ہوتی۔ اگر آپ کا سچ پڑھنے والے کے دماغ میں جگہ نہیں پا سکتا تو اپنے سچ کو satire کا نام دے کر بدلنے کی کوشش نہ کیجیے۔ پڑھنے والے کو آپ کے سچ سے اختلاف ہو نہ ہو، جدلیاتی اختلاف واضح ہے۔ اب جدلیات کے لئے کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کا نام لیں گے تو بات مزید جدلیاتی اختلاف کا شکار ہو جائے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک امریکی فلم ساز ہیں مائیکل مور۔ اکثر امریکی صدور کے جلسوں جلوسوں میں شور کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو ایک جملہ یاد رہ گیا۔ فرمایا تھا، ’ satire قابل بحث موضوع نہیں ہے۔ اس کی صرف دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو سمجھ آئے گا اور یا سمجھ نہیں آئے گا‘۔ گویا فرما رہے ہیں کہ جس کو سمجھ آئے اس کا بھی بھلا اور جس کو سمجھ نہ آئے اس کا بھی بھلا۔ اصولی طور پر تو مدعاکی طرف آنا چاہیے لیکن ایک وضاحت ضروری ہے کہ نیچے بیان کئے گئے حقائق کو اگر کسی نے satire سمجھا تو خاکسار ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب کی اکثر تحاریر کو satire سمجھنے میں حق بجانب ہو گا۔

ایک باباجی ممتاز مفتی ہوا کرتے تھے۔ اللہ ان کی قبر کو منور رکھے۔ تحریر کے دھنی تھے۔ کاٹ دار تحریر لکھنے میں کمال ملکہ حاصل تھا۔ اپنی کتاب الکھ نگری میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک بار وہ کسی انجان سڑک پر نکل گئے تھے تو اسکوٹر کا ٹائر پنکچر ہو گیا۔ دیکھا تواسٹپنی میں بھی ہوا نہیں تھی۔ پاس ایک کٹیا تھی جس سامنے ایک شخص کھڑا تھا۔ اس سے پوچھا کہ ٹائر پنکچر کے لئے کیا کیا جائے تو اس نے بتایا کہ پاس میں ایک رکھ ہے جہاں ایک ٹرک آتا ہے۔ ٹرک آئے گا تو تیرے اسکوٹر میں ہوا بھر دیں گے۔ یہاں دھوپ میں کھڑے ہونے کی بجائے جھونپڑے میں جا کر بیٹھ جائیں۔ اب مفتی صاحب جھونپڑے میں گئے۔ پانی پیا، حواس بحال ہوئے تو دیکھا کہ چادر میں سے ایک دبلا پتلا سفید ریش چہرہ باہر نکل آیا۔ اٹھتے ہی بولا، ’تو آگیا‘۔ مفتی صاحب نے بتایا کہ وہ تو راستہ بھول کر ادھر آ نکلے ہیں۔ بابا جی نے فرمایا، ’جب چاہتے ہیں راستہ دے دیتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں راستہ بند کر دیتے ہیں‘۔ اس جملے میں گو کہ بابا جی نے فاعل کو واضح نہیں کیا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ میر صاحب ’پہ خپل‘ ہیں۔ پہ خپل کا اچھا ترجمہ یوں ہو سکتا ہے جب بولنے والا کہے کہ ’بقلم خود‘۔

باباجی کی بات جاری رکھتے ہیں لیکن پہلے میر صاحب کی کہانی لازم ہے۔ ایسے میر صاحبان آجکل سوشل میڈیا پر کثرت سے نظر آتے ہیں اس لئے ممکن ہے کہ میر صاحب بطور استعارہ آئندہ کے لئے کام آئے۔ میر صاحب ہمارے علاقے میں واپڈا کے ملازم تھے۔ ان کو شیخیاں بگھارنے کاحد درجہ شوق تھا۔ پہلی ملاقات ہوئی تو نہ شیخیوں کا اندازہ تھا اور نہ یہ جانتا تھا کہ میر صاحب کا نام جناب فلاں فلاں میر ہے۔ علیک سلیک کے بعد جناب فلاں فلاں صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا۔ کل میر صاحب کوئٹہ گئے تھے۔ چیف انجینیئرکے دفتر میں جا کر چیف کو میر صاحب بولے کہ سر آپ دو کاموں میں سے ایک کام کریں۔ یا تو پشین شہر کو آٹھ گھنٹے کی بجلی دیں یا پھر میرصاحب کا استعفیٰ لے لیں۔ اس کے بعد میرصاحب ایکسیین صاحب کے دفتر گئے ان کو بھی یہی کہا۔ بڑھتے بڑھتے فلاں صاحب نے ایسے کئی واقعات سنائے۔ فلاں صاحب تھوڑی دیر کے لئے رکے تو ان سے استفسار کیا کہ جناب ولا یہ میرصاحب کون ہیں؟ فلاں صاحب نے ایک ہاتھ اٹھا کر ماتھے پر مارا پھر دونوں ہاتھ ہوا میں بلند کر اپنے سینے تک لائے اور اپنی آٹھ انگلیاں اپنے سینے سے لگا کر ترنم سے بولے ’ میر صاحب پہ خپل‘۔

تو معلوم ہوا کہ راستے بند کرنے اور کھولنے والے بابا جی میر صاحب پہ خپل تھے۔ اس کے بعد مفتی صاحب فرماتے ہیں، ’ میرے اسکوٹر کی ہوا نکل گئی ہے۔ پنکچر ہو گیا ہے‘۔ اس پر بابا جی نے فرمایا، ’ ہم خود میں ہوا بھرتے رہتے ہیں۔ ان کا کرم ہو جائے تو ہوا نکل جاتی ہے۔ تو جو نئے نئے بت بنا رہا ہے کیا تجھے قلم اس لئے دیا تھا کہ بت بنائے‘؟ بابا جی اور ممتاز مفتی صاحب ایک طویل مکالمہ ہوتا ہے جس کا لب لباب یوں بنتا ہے کہ بابا جی کو معلوم تھا کہ ممتاز مفتی لکھتے ہیں۔ انہوں نے غیب کے کسی علم سے ممتاز مفتی کو روکا تھا تاکہ ان کو سمجھا سکیں کہ وہ کیا غلط لکھ رہے ہیں۔ اس بات چیت میں بابا جی اہل پاکستان کے کرپشن، جھوٹ ، حرص اورفریب وغیرہ سے ممتاز مفتی کو آگاہ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ پاکستان کی بے جا تعریفیں نہ کرو۔ اس پر مفتی صاحب کو غصہ آجاتا ہے۔ غصے میں مفتی صاحب بابا جی سے کہتے ہیں کہ میں تو وہ لکھتا ہوں جو باباﺅں کی زبانی سنا تھا۔ فلاں بابا نے کہا تھا ایک دن آئے گا جب اقوام متحدہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے پاکستان سے پوچھے گی۔ فلاں بابا نے اڑھائی سو سال پہلے کہا تھا کہ یہاں ایک اسلامی شہر آباد ہو گا جو عالم اسلام کا مرکز بنے گا۔ فلاں بابا نے نشاة ثانیہ کی خبر سنائی تھی۔ بحث طویل ہے۔ اس میں ایک اللہ کے بندے کی بشارت ہے جس کے وجود سے دنیا منور ہو گی اور اس کے بارے میں بابا خبر دیتے ہیں کہ وہ پاکستان آئے گا۔ پاکستان کی عظمت ان کے قیام سے وابستہ ہے۔ بابا جی ممتاز مفتی کو کوئی دعا لکھ کر تھماتے ہیں۔ مفتی صاحب باہر آتے ہیں تو ان کا اسکوٹر ٹھیک ہوتا ہے۔ اگلے دن ممتاز مفتی اسی سڑک پر آتے ہیں تو جھونپڑا غائب ہوتا ہے۔ درخت کے نیچے ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہوتا ہے۔ مفتی صاحب اس آدمی سے جھونپڑے کا پوچھتے ہیں تو وہ کہتا ہے کونسا جھونپڑا؟مفتی صاحب اسے کہتے ہیں کہ یہاں ایک جھونپڑا تھا۔ وہ آدمی جواب دیتا ہے کہ صاحب میں سامنے رکھ میں کام کرتا ہوں۔ دن میں دوبار یہاں سے گزرتا ہوں، میں نے یہاں کبھی کوئی جھونپڑا نہیں دیکھا۔

صاحبو! ایک تو میرے دوست اکسا رہے ہیں اور دوسرے ایسے واقعات کے نظائر موجوود ہیں اس لئے مجبوراََ اب وہ بات بتانی پڑے گی جس کے بتانے کی ہمت نہیں ہے۔ ہوا یوں کہ ایک ضروری کام سے گوجر خان جانا ہوا۔ اندر گاﺅں کی جانب سڑک کافی خراب تھی اور دھول مٹی سے گاڑی بہت اٹ گئی۔ واپس شہر کی جانب آکر خیال ہوا کہ گاڑی دھلوا لی جائے۔ سڑک کے پاس چند گاڑی صاف کرنے والے لڑکے ہاتھ میں ٹاکیاںلئے کھڑے تھے۔ وہاں گاڑی روکی اور خود پاس والے ایک ڈھابے پر چائے پینے چلا گیا۔ چائے کی درخواست کی اور موبائل مصروف ہو گیا۔ اتنے میں اپنے وسی بابا کی کال آگئی۔ وسی بابا بتا رہے تھے کہ سی پیک کی کچھ نئی خبر ان کو ملی ہے۔ فلاں جگہ تک سڑک بن چکی ہے۔ فلاں جگی بننی ہے۔ چونکہ وسی بابا کو احسن اقبال پر اتنا بھروسہ ہے جتنا میر صاحب کو خود پر، اس لئے وسی بابا سے بحث کچھ لمبی ہو گئی۔ فون بند ہوا تو میں فیس بک میں مگن ہوا۔ تھوڑی دیر بعد ایک آواز آئی، ’ پچھتاﺅ گے‘۔ حیرت سے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے بیٹھے باباجی گھور کر دیکھ رہے تھے۔

عرض کیا مجھ سے کچھ کہا؟ باباجی غرائے۔ تم ہی سے کہہ رہا ہوں۔ پچھتاﺅ گے۔ عرض کیا ،بابا جی میں سمجھا نہیں۔ باباجی پھر دھاڑے، ’ تم سمجھو گے بھی نہیں‘۔ ایک بار پھر ضبط سے کام لیتے ہوئے عرض کی۔ بابا جی آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ باباجی پھر غرائے! کیا سی پیک سی پیک لگا رکھا ہے؟ کیوں بابا جی سی پیک نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟ بابا جی اس بار اٹھ کر قریب آ کر بیٹھ گئے اور سرگوشی کرتے ہوئے کہا، ’ تمہیں معلوم ہے کہ سی پیک قیامت کی نشانی ہے‘؟ عرض کی بابا جی صاف بتائیں آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔

بابا جی نے کہا سنو! یہ جو چینی اور منگول ہیں یہ سب ایک نسل سے ہیں۔ ان کی نسل نوح ؑ کے بیٹے یافث سے ملتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یاجوج ماجوج یافث کی اولاد میں سے ہوں گے۔ یہ چینی دراصل یاجوج ماجوج ہیں۔ یہ دیوار چین میں قید تھے۔ انہوں نے دیوار چین چاٹ لی اور اب اس سے باہر نکل آئے ہیں۔ یہ سی پیک بنا کر ہم پر قبضہ کر لیں گے ۔ سمندر اور زمین میں پھیل جائیں۔ زمین پر یہ ایشیاءسے ہوتے ہوئے یورپ تک پہنچ جائیں اور پھر ساری دنیا پر قبضہ کر لیں گے۔ کیا تجھے قلم اس لئے دیا تھا کہ سی پیک سی پیک کرے؟ میں تھوڑا خوفزدہ ہوا کہ بابا جی کو نہ صرف یہ علم ہے کہ میں لکھتا ہوں بلکہ یہ بھی معلوم ہے کہ سی پیک پر بھی لکھتا ہوں۔ ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ بابا جی میں تو صرف یہ لکھ رہا ہوں کہ صوبوں کو برابر حصہ ملے۔ مغربی روٹ بھی بنے۔ بابا جی غصے میں پھنکارے،چپ کر مورکھ! نہ بنوا مغربی روٹ۔ کیوں یاجوج ماجوج کو دعوت دے رہا ہے۔ عرض کیا بابا جی پھر کیا کروں؟ بولے! جو روٹ تیری طرف آ رہا ہے اس پر شور نہ مچا۔ نہ ہی آئے تو بہتر ہے۔ عرض کی باباجی، مگر حکومت تو کہہ رہی ہے کہ ہم مغربی روٹ بھی بنائیں گے؟ باباجی نے کہا! حکومت پہلے تو بنائے گی نہیں۔ بنا دی تو اس پر یاجوج ماجوج نہیں آئیں گے۔ اس پر اپنے اونٹ اور گدھے چلا کرو۔

تو صاحبو یہ کہانی ہے سی پیک کی۔ باباجی کی آخری بات پر مجھے گو تھوڑی ہنسی آئی لیکن بابا جی کے خوف سے ہنس نہ سکا۔ اپنے وسی بابا نے سی پیک کے کسی روڈ کی ایک تصویر شیئر کی ہے جس پر اونٹ چل رہے ہیں۔ ہوا یوں کہ آج سے کئی عشرے پیشتر ایک سردار صاحب نے انگریز بہادر کی خدمت میں ایک درخواست دی تھی کہ یہ جو روڈ اس کے علاقے میں بن رہی ہے اس کو نہ بنایا جائے کیونکہ ان کے گدھے اونٹ اس پر پھسلتے ہیں۔ تو عرض یہ ہے کہ سی پیک کا قصہ تو معلوم ہے۔ اب یہ مغربی روٹ نہ بنایا جائے اس پر ہمارے گدھے اور گھوڑے پھسلیں گے۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments