انتظار فرمایئے…. قومی مفاد کی زیر التوا نشریات


\"wajahat1\"ٹیلی ویژن ہمارے ملک میں 1964 میں آیا۔ صندوق جیسا ایک ڈبہ تھا جس پر سیاہ اور سفید سائے لرزتے تھے۔ سہ پہر میں نشریات شروع ہوتیں اور فرمان الہی کے ساتھ ختم ہوجاتیں۔ کسی گھر میں ٹیلی ویژن کا ہونا مالی اور سماجی حیثیت کا نشان تھا۔ ٹیلی ویژن کے کمرے میں معزز مہمانوں کے لئے آرام دہ کرسیاں رکھی جاتی تھیں اور لڑکے بالوں کے لئے دری بچھائی جاتی تھی۔ گھر کی عورتیں ایک طرف سمٹ کر بیٹھتی تھیں اور متقی پارسا لوگ اخلاقیات کے زوال پر خطبہ دیا کرتے تھے کہ لوگ ماو ¿ں بہنوں کے ساتھ بیٹھ کر نامحرموں کی تصویریں دیکھتے ہیں۔ نامحرم کا تصور بہت دلچسپ ہے۔ فرد کی نجی زندگی سے لے کر اقتدار کے ایوان تک پہنچتا ہے۔ صوفی کہتا تھا، ربا میرے حال دا محرم توں۔ فارسی شاعر کہتا تھا، بعشقم آشنا کن۔۔ اور صاحب علم دربار میں کھڑے ہوکر صاحب اقتدار کو آل عمران کی آیہ مبارکہ (112) کا حکم یاد دلاتا تھا۔۔۔ کہ لوگوں کے حکم کی اطاعت میں بہتری ہے۔ اسے دلوں کی موانست سے تمدن کی ہمواری تک حرمت کا تصور سمجھنا چاہئے۔ حکمرانی میں شفافیت کے لئے عوام کی تائید لازم ہے۔ جب دلوں کے محرم پر پیوستہ مفاد کی نگرانی مانگنے والے لوگ زمین پر پھیل جائیں، جو دلوں کی آنچ پر اجازت نامے جاری کرتے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں سے عوام کو بے دخل کرتے ہیں تو بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ ہماری نسل کے لئے یہ مرحلہ 5 جولائی 1977 کو پیش آیا۔ کچھ ماہ بعد 16 فروری 1978 کی شام ٹیلی ویژن اسکرین پر لرزتے سائے ایک دلگرفتہ کرنے والی گونج کے ساتھ دو لفظی حکم کی صورت میں نمودار ہوئے، ’انتظار فرمائیے‘۔ لوگ کچھ دیر \”انتظار فرمائیے\” کا فرمانِ امروز تکتے رہے۔ دلوں پر بوجھ بن کر بیٹھتی ناقوس جیسی آواز کوئی کب تک سنتا۔ کرسیاں خالی ہوگئیں۔ چاندنی پر چند بے ترتیب شکنیں رہ گئیں۔ میرے ضبط حال سے روٹھ کر میرے غم گسار چلے گئے۔۔۔ شاہد محمود ندیم اور ان کے ساتھیوں کو سزا سنائی گئی۔ مگر نشریات میں تعطل جاری رہا۔ محبت اور اقتدار میں جبر دخل پا جائے تو نشریات کی لہریں \”انتظار فرمائیے\” کی اذیت میں ڈھل جاتی ہیں۔

\"shahid-nadee\"

صاحب دانش نے کہا تھا کہ یہ سچ بیان کرتے ہیں اور اسے باطل مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی مثال کے لئے تاریخ میں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔ مارچ 1994 میں مہران بینک اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ ہمارے سالار نے کمال بہادری سے تسلیم کیا کہ جی ہاں چودہ کروڑ روپے تقسیم کیے تھے۔ اس کے بعد دیر تک کوئی آواز نہیں آئی۔ پھر کچھ دستاویزات سامنے آئیں۔ بدعنوانی کا معاملہ تھا۔ الزام تھا کہ صدر فاروق لغاری نے کراچی کی چھ بے نامی کمپنیوں کو اپنی بنجر اراضی کے چھ ٹکڑے فروخت کئے۔ اور یہ سودا مہران بینک کے سربراہ یونس حبیب کی وساطت سے طے ہوا۔ قائد حزب اختلاف میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ میں یہ سوال اٹھایا تو سپیکر نے آئین کا حوالہ دیا کہ صدر کا کردار زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔ میاں صاحب برجستہ گفتاری کے لئے جانے نہیں جاتے۔ کوئی لمحہ غضب کا ہوتا ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ حضور صدر کا کردار نہیں، بد کرداری زیر بحث لائی جا رہی ہے۔ نواز شریف ٹھیک ٹھیک جانتے تھے کہ کردار میں تزلزل دراصل کہاں واقع ہوا ہے۔ ثبوت یہ کہ جب فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو سے منہ پھیر کر اقتدار کی تکون کے مقتدر کونے سے دوستی کر لی تو چوٹی زیریں کی زمینیں دریا برد ہو گئیں۔ کسی کو تیتر کا شکار یاد رہا اور نہ سرکاری عمرہ۔ اختیار کو آئین کی کتاب سے باہر منتقل کر دیا جائے تو قومی مفاد کی نشریات تا حکم ثانی ملتوی ہو جاتی ہیں۔ ابصار عالم بتاتے ہیں کہ ٹیلی ویژن کی سکرین پر بولنے والے کے لفظ اور سننے والوں کے کان میں ایک مناسب وقفہ ضروری ہے تا کہ ناگفتنی پر گرفت کی جا سکے۔ ابصار عالم کی تجویز میں حکمت پائی جاتی ہے۔ عرض صرف یہ ہے کہ گفت اور شنید کے اس وقفے پر آئین کی بالادستی ہونی چاہئے۔ آئین کی بالا دستی عوام کی تائید میں ہے، اقتدار کی سازش میں نہیں۔

والٹیر کو جب فرانس کے دربارکی بات کہنا ہوتی تو وہ یونان، بلقان کے قصے سناتا تھا۔ والٹیر آنکھ مچولی کھیلتا تھا۔ والٹیر کا ڈرامہ دیکھنے \"farooq_leghari_with_banazir_bhuto\"والے جانتے تھے کہ بات گویا یہیں کہیں کی ہے۔ بات سادہ ہے۔ اختیار اور جواب دہی کی جمہوری کشاکش میں ایمپائر کی انگلی ظاہر ہوجائے تو سائے کی سائے سے جنگ ہوتی ہے۔ قوموں کا امکان \”انتظار فرمائیے\” کے تعطل میں چلا جاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ محتسب کوڑا اٹھائے ہر ایک کے پیچھے دوڑ رہا ہو، ساری خلقت کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر میدان میں اکڑوں بٹھا دیا جائے۔ لوگ اشارہ سمجھتے ہیں۔ کسی کے گھر جانے والا سیلاب بلا ہمارے دروازے پر بھی آ سکتا ہے۔ اشتراکی جنت کے سنہری دور میں لوگ ایک ہی دعا کرتے تھے کہ رات گئے دروازے پر دستک ہو تو انہیں یہ کہنا نصیب ہو کہ مطلوب شخص ہمارے گھر میں نہیں، ہمسائے میں رہتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی لوگ جانتے تھے کہ بنیادی جمہوریت کسے کہتے ہیں۔ استاد نے جنوری 1959 میں بتایا تھا کہ اگر بنیادی حقوق نام کی کوئی جنس وجود رکھتی ہے تو ان حقوق کو معطل کرنا اپنی بنیادیں کھودنا ہے۔ ہم مگر بنیادی جمہوریت کی خوبیاں لکھتے رہے۔ 1971 کے اخبارات اٹھا کر دیکھئے۔ مصطفیٰ زیدی کا اسکینڈل تو موجود ہے ڈھاکہ یونیورسٹی کا کوئی ذکر نہیں جہاں اقبال ہال اور جگن ناتھ ہال میں بنیادی سوال پوچھا جا رہا تھا۔ ہم خاموش تھے اور جو بولنا چاہتے تھے، وہ پابجولاں تھے کیوںکہ قومی مفاد کی نشریات التوا میں تھیں۔ ملک ایک نازک موڑ پر تھا۔ یہ سچ بولنے کا وقت نہیں تھا۔ حضور، سچ بولنے کے لئے مناسب وقت کا انتظار کیا جائے تو پیوستہ مفاد ملک کو ہمیشہ نازک موڑ ہی پر رکھے گا۔ اسکرپٹ میں بھلے جھول ہو لیکن منظر اس تیزی سے تبدیل ہوگا کہ تجسس برقرار

\"Nawaz

رہے گا اور کہانی کا انجام بتانے کی جرات باقی نہیں رہے گی۔ ہم جانتے تھے کہ ذوالفقار بھٹو کے خلاف اصل الزام نواب محمد احمد خان کا قتل نہیں۔ بے نظیر بھٹو کا اصل جرم راجیو گاندھی کے ہاتھ قومی مفادات بیچنا نہیں تھا۔ فاروق لغاری کے خلاف اصل فرد جرم چوٹی زیریں کی زمینوں سے نہیں، مارگلہ کی پہاڑیوں سے تعلق رکھتی تھی۔ اکتوبر ننانوے میں نواز شریف نے جہاز اغوا نہیں کیا تھا۔ ہم تواتر سے عرض کرتے رہے کہ ہم تو دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں، ہمارے ساٹھ ہزار شہری اور فوجی شہید کئے گئے ہیں۔ کسی نے ہم پر یقین نہیں کیا کیونکہ ہم کہانی کا آدھا حصہ بیان کر رہے تھے۔ ہم آج بھی کہانی کا آدھا حصہ بیان کر رہے ہیں۔ آصف زرداری سیاسی اداکاروں کی نشاندہی نہیں کر سکتے تھے۔ عمران خان صاحب واضح نہیں کرسکے کہ ایمپائر کی انگلی سے ان کی مراد کیا ہے۔ اور اب خبر ہے کہ کہیں ڈگڈگی بجائی جا رہی ہے۔ ہم تفصیل بیان نہیں کر سکتے کیوںکہ عوام کو راز کا محرم نہیں سمجھا جاتا۔ اظہار کی آزادی کے آئینی تصور کو قانون تعزیرات کی حدود سے گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے تو قومی مفاد کی نشریات میں التوا کا وقفہ طویل ہو جاتا ہے۔ شاہد محمود ندیم یہ حقیقت جانتے تھے، ابصار عالم بھی سمجھتے ہیں اور محترم حامد میر بھی کچھ ایسے بے خبر نہیں ہیں۔ انتظار فرمایئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments