کوئٹہ حملہ تازہ ترین اطلاعات: کم از کم 50 اہلکار شہید، سو زخمی


\"operation\"تین خودکش حملہ آوروں نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ کر کے کم از کم 50 پولیس اہلکاروں کو شہید اور سو سے زائد کو زخمی کر دیا ہے۔ یہ حملہ پیر کی شب رات دس بجے کے قریب پر کیا گیا۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے میڈیا کو بتایا کہ اس حملے میں 20 سے زائد اہلکار ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہوئے، تاہم باوثوق سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 سے زیادہ ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں سے زیادہ تر زیر تربیت پولیس اہلکار ہیں۔

سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ سب سے پہلا حملہ پولیس ٹریننگ سینٹر کے عقبی علاقے میں واقع واچ ٹاور پر کیا گیا جہاں موجود سنتری نے بھرپور مقابلہ کیا لیکن جب وہ مارا گیا تو حملہ آور دیوار پھلانگ کر کالج کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اس حملے کی اطلاع ملتے ہی ایف سی، پولیس اور کمانڈو وہاں پہنچ گئے اور حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ صوبائی وزیر داخلہ نے بتایا کہ حملہ آوروں میں سے دو نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ ایک کو سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے مار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کے خلاف کارروائی چار گھنٹے میں مکمل کی گئی۔\"2\"

سول ہسپتال میں موجود سیکریٹری صحت نورالحق بلوچ نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ 85 زخمی اہلکاروں کو سول ہسپتال پہنچایا گیا ہے جبکہ 25 سے زائد زخمی اہلکاروں کو بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال منتقل کیا گیا۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس واقعے میں غیر ملکی سیکورٹی ایجنسیاں ملوث ہو سکتی ہیں۔ انھوں نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ یہ حملہ سکیورٹی میں کسی نقص کی وجہ سے ہوا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ایسی بات سامنے آئی تو اس کے بارے میں تحقیقات کی جائیں گی۔

آئی جی ایف سی میجر جنرل شیر افگن نے میڈیا کو بتایا کہ حملہ آوروں کا تعلق ممنوعہ تنظیم لشکر جھنگوی عالمی سے تھا اور انھیں افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں۔ انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ ممکن ہے کہ کچھ پولیس اہلکار بھی حملہ آوروں سے ملے ہوئے ہوں۔ میجر جنرل نے کہا کہ سکیورٹی اداروں نے اس سے قبل حالیہ مہینوں میں کئی بار حملوں کی کوشش کی جنھیں ناکام بنا دیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ \"3\"شدت پسندوں نے محرم کے موقعے پر بھی ایک بڑے حملے کا منصوبہ بنایا تھا تاہم سکیورٹی اداروں نے اسے ناکام بنا دیا۔

ہمارے نامہ نگار کے مطابق کئی اہلکاروں نے عمارت سے باہر نکلنے کے لیے چھلانگیں لگائیں جن سے وہ زخمی ہو گئے اور ان کا مقامی ہسپتالوں میں علاج جاری ہے۔

زخمیوں کو شہر کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے، اور شہر کے تمام ہسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے جب کہ ڈاکٹروں کی چھٹیاں معطل کر دی گئی ہیں۔

بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ ثنا اللہ زہری نے مقامی چینل جیو کو بتایا کہ ’میں چند روز پہلے اطلاع موصول ہوئی تھی کہ کچھ دہشت گرد کوئٹہ شہر میں گھس گئے ہیں جس کے بعد پورے شہر میں ہائی الرٹ نافذ کر دیا تھا۔ انھیں شہر کے اندر موقع نہیں ملا تو وہ شہر سے باہر تربیتی مرکز تک پہنچ گئے۔‘ سکیورٹی کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ’یہ تربیتی مرکز خاصے بڑے علاقے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا رقبہ دو ڈھائی سو ایکڑ ہے۔ یہ شہر سے 15 کلومیٹر دور ہے اور وہاں رات کے وقت اور سردیوں کے موسم کا فائدہ اٹھا کر \"1\"کوئی بھی گھس سکتا ہے۔‘

ٹریننگ سینٹر سے بازیاب کروائے گئے ایک زیرِ تربیت اہلکار نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ساڑھے نو سے دس بجے کے درمیان شدت پسندوں نے اندر داخل ہوتے ہی اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔

آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پانچ سے چھ دہشت گرد تربیتی مرکز میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے خلاف آپریشن جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments