معاشی ترقی کا خواب یا سراب


\"imf\"عالمی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے آج جس وقت وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کر کے آئی ایم ایف کے ساتھ سہ سالہ مالیاتی منصوبہ کی تکمیل پر مبارکباد دے رہی تھیں، عین اس وقت شام و عراق میں پروان چڑھنے والی دہشت گرد تنظیم داعش پشاور میں ایک انٹیلی جنس افسر کو مارنے کا دعویٰ کر رہی تھی۔ انٹیلی جنس ایجنسی سے وابستہ ایک سب انسپکٹر کام کے بعد گھر جانے کیلئے بس اسٹاپ پر انتظار کر رہا تھا کہ موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے فائرنگ کر کے انہیں موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ اگرچہ دہشت گردی کا نشانہ بنے ہوئے ملک کیلئے یہ کوئی غیر معمولی اور ’’بڑا‘‘ واقعہ نہیں ہے لیکن اس سانحہ سے پاکستان کی معیشت اور سماج کو درپیش سب سے بڑے خطرے کی نشاندہی ضرور ہوتی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس نے کرسٹین لاگارڈے سے نواز شریف کی ملاقات اور ملک کی معاشی ترقی کے حوالے سے حکومت کے اقدامات کی توصیف کے بارے میں ایک دل خوش کن پریس ریلیز جاری کی ہے۔ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف IMF کے ساتھ ساڑھے چھ ارب ڈالر قرض لینے کا سہ سالہ معاہدہ کسی رکاوٹ کے بغیر مکمل کیا ہے۔ وزیراعظم ، وزیر خزانہ اور لاگارڈے اس بات پر مسرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن ان تینوں میں سے کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ کیا اب مالیاتی فنڈ سے مزید قرض لینے کا راستہ بند کر دیا گیا ہے کیونکہ گزشتہ 27 برس میں 21 برس کے دوران پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرض لے کر ہی گزارا کیا ہے۔

 ماہرین کو اندیشہ ہے کہ یہ پروگرام ختم ہونے اور مالیاتی فنڈ کی سربراہ کے دورہ پاکستان پر جس جوش و خروش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور معاشی بحالی کے جو دعوے کئے جا رہے ہیں، وہ قبل از وقت ہیں۔ آئی ایم ایف کا قرضہ اس شرط پر فراہم کیا جاتا ہے کہ حکومت فنڈ کی ہدایت اور نگرانی میں بچت کرنے اور آمدنی میں اضافہ کے منصوبے پورے کرے گی۔ حکومت اگر مالیاتی فنڈ کی شرائط جزوی طور پر پورا کرنے میں کامیاب ہوئی ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ اس دوران عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کا رجحان ہے۔ نواز شریف کی حکومت اس لحاظ سے خوش قسمت رہی ہے کہ اس مدت میں 130 ڈالر فی بیرل کو چھونے والی قیمتیں 40 ڈالر فی بیرل سے بھی کم سطح پر آ گئی تھیں۔ اس طرح انرجی پر اٹھنے والے اخراجات میں بے تحاشا کمی کے باعث حکومت کو کثیر وسائل دستیاب تھے۔ البتہ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض اور تیل کی خریداری میں ہونے والی بچت سے دستیاب وسائل کو ملک میں معاشی نمو کے منصوبوں میں نہیں لگایا جا سکا۔ اگرچہ قومی بجٹ میں قومی پیداوار کی شرح ساڑھے چار فیصد کے لگ بھگ دکھائی گئی ہے لیکن خیال ہے کہ یہ شرح وزارت خزانہ نے اعداد و شمار کی پیشکش کے ذریعے بڑھا چڑھا کر بتائی ہے۔ اصل اضافہ چار فیصد سے کم رہا ہے۔ تاہم یہ اضافہ بھی گزشتہ برسوں کی شرح نمو کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پاکستان عام طور سے بھارت کے ساتھ اپنا مقابلہ کرتا ہے۔ بھارت میں سالانہ شرح پیداوار ساڑھے سات فیصد کے لگ بھگ ہے۔

حکومت نے آئی ایم ایف کے پروگرام کی تکمیل کےلئے محاصل میں اضافہ کے ذریعے ملک کی معاشی صحت کے بارے میں بہتر رپورٹ دینے کی کوشش کی ہے۔ اس سے مالیاتی فنڈ کے مقرر کردہ اہداف تو کسی حد تک پورے ہو گئے لیکن یہ سارے ٹیکس بالواسطہ محاصل کی مد میں آتے ہیں، جن کا حتمی بوجھ بالآخر عام آدمی کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پروگرام کی تکمیل کےلئے ان تین برسوں کی مدت میں آئی ایم ایف سے متعدد شقوں پراستثنیٰ بھی طلب کیا گیا تھا۔ ان میں سب سے قابل ذکر شعبہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ سے متعلق ہے۔ پاکستان کے ایک فیصد سے بھی کم شہری آمدنی پر ٹیکس ادا کرتے ہیں اور حکومت ملک کے دولتمندوں پر ٹیکس عائد کرنے اور معاشرے میں طبقاتی تقسیم ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ملک کی برآمدات 20 ارب ڈالر سے نہیں بڑھ سکی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ حکومت کی غلط مالیاتی ترجیحات ہیں۔ حکومت انفرا اسٹرکچر کھڑا کرنے کے نام پر کثیر وسائل صرف کر رہی ہے۔ اس طرح پیداواری صنعتوں کی حوصلہ افزائی کےلئے وسائل فراہم نہیں ہو سکے اور نہ ہی زرعی شعبہ کی ترقی کےلئے کام ہو سکا ہے۔ ملک میں غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے جبکہ نصف آبادی زبوں حال ہے۔ اس کا اندازہ حکومت کے اس دعوے سے بھی ہوتا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام فنڈ کے تحت ادائیگیوں کی رقم 40 ارب روپے سے بڑھ کر 120 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ ان کی حکومت کی بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے غربت کی مد میں دی جانے والی رقم کو تین گنا کر دیا ہے حالانکہ درحقیقت یہ حکومت کی مالیاتی پالیسیوں کی ناکامی ہے جو لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی بجائے امدادی رقم فراہم کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا چاہتی ہے۔ اس طرح نہ غریبوں کی حالت بدلتی ہے اور نہ ہی ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

 کرسٹین لاگارڈے نے اگرچہ سہ سالہ قرضہ کا پروگرام مکمل ہونے پر مسرت کا اظہار کیا ہے لیکن اسلام آباد آمد سے قبل انہوں نے پاکستانی معیشت کے بارے میں ایک مضمون میں چار ایسے پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا تھا، جن میں بہتری کے بغیر پاکستان کےلئے غربت میں خاتمہ، برآمدات میں اضافہ اور قومی پیداوار میں بہتر کارکردگی دکھانا ممکن نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کے مطابق معاشی استحکام کےلئے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا قرض کل قومی پیداوار کے 65 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس طرح ملک اپنے بیشتر وسائل قرضوں اور سود کی ادائیگی میں صرف کر دیتا ہے۔ اس کے پاس تعلیم اور پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے وسائل دستیاب نہیں ہوتے۔ اس مقصد کےلئے ریاست کی آمدنی میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ صاحب حیثیت لوگوں پر ٹیکس عائد کرنے کا نظام استوار کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی کمزور طبقوں کی سماجی ضروریات پوری کرنے کےلئے وسائل فراہم کرنا ضروری ہو گا۔

مالیاتی فنڈ کی سربراہ کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کی قومی پیداوار میں اضافہ کی شرح بڑھانا ضروری ہے۔ سی پیک کے تحت آنے والے وسائل اس حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں دوسرے ترقی پزیر ملکوں کے مقابلے میں نجی سرمایہ کاری بہت کم ہے۔ عام طور سے یہ شرح 18 فیصد ہوتی ہے لیکن پاکستان میں نجی شعبہ میں سرمایہ کاری کی شرح 10 فیصد ہے۔ نجی شعبہ کی ترقی کے بغیر پاکستان کی معیشت میں اضافہ ممکن نہیں ہے۔

لاگارڈے نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں تعلیم اور فنی تربیت کے شعبوں کےلئے بہت کم وسائل فراہم ہوتے ہیں۔ ملک میں 60 لاکھ بچے پرائمری تعلیم سے محروم ہیں جن میں 35 لاکھ لڑکیاں ہیں۔ کوئی بھی معشیت اسی وقت بار آور ہو سکتی ہے اگر اس کے ثمرات ملک کے کمزور طبقوں کو بھی ملنے لگیں اور عورتوں اور مردوں کو کام کے مساوی مواقع میسر آئیں۔ پاکستان میں کام کرنے والی عورتوں کی تعداد ان کی آبادی کا ایک چوتھائی ہے۔ خواتین کو بڑے پیمانے پر معاشی سرگرمی کا حصہ بنائے بغیر پیداوار میں اضافہ کے اہداف پورے نہیں ہو سکتے۔

پاکستان کو گلوبل مالیاتی نظام کا حصہ بننا ہو گا۔ اس مقصد کےلئے برآمدات میں اضافہ بے حد ضروری ہے۔ اس وقت پاکستان کی برآمدات دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہیں۔ معاشی احیا کےلئے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تجارت میں اضافہ کرتے ہوئے عالمی مالیاتی نظام کا حصہ بننے کی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس یہ مقصد حاصل کرنے کی صلاحیت ضرور ہے لیکن اسے طویل عرصہ تک سخت محنت کرنا ہو گی اور ملک میں روزگار کے مواقع میں اضافہ کےلئے کام کرنا ہوگا۔

عالمی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کی یہ باتیں پاکستان کے حکمرانوں کےلئے تعریفی سرٹیفکیٹ سے زیادہ ان کی ناکام پالیسیوں کی طرف نشاندہی کرتی ہیں۔ حکومت قرض کے ایک پروگرام کی تکمیل پر بغلیں بجانے کی بجائے اگر اپنی ناکامیوں پر غور کرے اور ان کی اصلاح کی طرف توجہ دے، تب ہی ملکی معیشت کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے معیشت کو سب سے زیادہ اندیشہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے لاحق ہے جو ملک کو دنیا کی نظروں میں خطرناک ملک کے طور پر پیش کرتی ہے۔ داعش کی طرف سے ایک بار پھر پاکستان میں موجودگی کا اعلان یہ اشارہ کرتا ہے کہ جس خطرے کو ختم کر دینے کے دعوے کئے جاتے ہیں، وہ اس حد تک اس سماج کا حصہ ہیں کہ صرف مقامی طور سے پلنے بڑھنے والے دہشت گرد گروہ ہی نہیں بلکہ عالمی دہشت گرد گروہ بھی بدستور اس ملک میں موجود ہیں اور حملے کرنے کے بعد ان کی ذمہ داری قبول کرنے کا حوصلہ بھی کرتے ہیں۔ پشاور میں انٹیلی جنس افسر پر حملہ کا سانحہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جبکہ پاک فوج آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا اعلان کر رہی ہے اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ قومی ایکشن پلان پر تندہی سے عمل ہو رہا ہے۔ اسی تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ 2 لاکھ فوج آپریشن ضرب عضب کے تحت مصروف جنگ ہے۔ اس کارروائی پر اٹھنے والے اخراجات ملکی معیشت کےلئے بہت بڑا بوجھ ہیں۔ اس لئے دہشت گردی کے مکمل خاتمہ سے پہلے ملک کی معیشت میں حقیقی استحکام کا خواب دیکھنا ممکن نہیں ہے۔

ملک کی معیشت کو بدعنوانی کی شکل میں دوسرے سنگین مسئلہ کا سامنا ہے۔ کرپشن معاشرے کے ہر شعبے میں نیچے سے اوپر تک سرایت کر چکی ہے۔ لیکن اس کی روک تھام کےلئے حکومت کی طرف سے کسی خاص تشویش کا اظہار سامنے نہیں آتا ۔ پاناما پیپرز میں وزیراعظم کے بچوں کا نام آنے کے بعد ملک بھر سے نواز شریف اور ان کے خاندان کے احتساب کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ تمام اپوزیشن پارٹیاں وزیراعظم کے احتساب کے ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہیں۔ نواز شریف نے دو بار قوم سے خطاب کرنے اور پارلیمنٹ میں ایک تقریر کرنے کے علاوہ کوئی ٹھوس اقدام کرنے سے گریز کیا ہے۔ حالانکہ انہیں ان سنگین الزامات کے بعد اعلیٰ ترین عدالتی تحقیقات کے ذریعے خود پر عائد الزامات کو مسترد کرنے کی ضرورت تھی۔ وزیراعظم نے تحقیقات کےلئے عدالتی کمیشن کا طریقہ اختیار کرنے کی بجائے اپوزیشن کے ساتھ کمیشن کے قواعد یا ٹی او آرز TORs پر سیاسی دنگل کا آغاز کر دیا۔ اس عاقبت نااندیشانہ حکمت عملی کی وجہ سے اس وقت ملک کو بدترین سیاسی انتشار کا سامنا ہے۔ تحریک انصاف کو 2 نومبر کے احتجاج اور دھرنے کےلئے اب طاہر القادری کی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ لال مسجد کی شہدا فاؤنڈیشن بھی اس دھرنے کی حمایت کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یہ بحران ٹی او آرز پر اتفاق رائے سے ٹالا جا سکتا ہے لیکن حکومت کی ہٹ دھرمی معاملات کو بدستور خراب کر رہی ہے۔

ملک کا سیاسی انتشار معاشی بحالی کے راستے میں دہشت گردی کے بعد سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگرچہ ملک میں اپوزیشن بھی پارلیمانی سیاسی طریقہ اختیار کرنے کی بجائے احتجاج ، ریلیوں اور جلسے جلوسوں کے ذریعے حکومتوں کو زچ کرنے کی عادی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی پاناما پیپرز کے سوال پر غلطیوں کا ارتکاب کرکے ملک میں سیاسی بے چینی میں اضافہ کیا ہے۔ حکومت کا رویہ اور جوابی الزام تراشی کی مہم کی وجہ سے غصہ اور اشتعال پیدا ہو رہا ہے۔ ملک میں معاشی ترقی اور بحالی کا دعویٰ کرنے والی حکومت کو ایسے حالات پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ اب بھی اگر اسی بحران پر قابو پانے کےلئے حکمت اور سیاسی مفاہمت سے کام نہ لیا گیا تو اس کے سیاسی مضمرات سے قطع نظر، ملک کی معیشت کو طویل المدت دھچکہ ضرور لگے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments