مرتد جولاہے کی سزا
باپ بھی میں نے نہیں چنا تھا
گھر اپنا نہ گلی محلہ
شہر بھی میں نے نہیں چنا تھا
کون سی بستی، کون نگر تھا
مجھ کو کب خاک پتہ تھا
نہ میں نے یہ نام رکھا تھا
نہ میں نے یہ نسب چنا تھا
مذہب میرا، رشتے میرے
شکل یہ میری، صورت میری
سب لکیریں کھنچی ہوئی تھیں
رنگ بھی میں نے نہیں بھرا تھا
بھیگی بھیگی کتنی صبحیں
پورے چاند کی کتنی راتیں
ایک ہی تاگہ بنتے بنتے
بیت گئیں پھر
پھر اک دن وہ تاگہ ٹوٹا
پنا پھسلا، ہاتھ سے لڑھکا
میں نے پہلا گنجل دیکھا
آج چنیں اک کام نیا
اپنی مرضی سےبیٹھ کے گنجل کو سلجھائیں
کچھ گرہوں کو دانت سے کھولیں
کچھ تاگوں کو گرہیں لگائیں
اس دن سے آج تلک میں
اس گنجل میں الجھا ہوا ہوں
کہاں سرا ہے، ملا نہیں ہے
ڈھونڈ رہا ہوں
پر تم کہتے ہو
اٹھو واپس
گنجل چھوڑو
گرہ نہ چھیڑو
کام کرو جو کتنے دنوں سے چھوڑا ہوا ہے
ان لوگوں کی، اس نگری میں، جگہ نہیں ہے
سرا جو ڈھونڈیں، گنجل کھولیں،
بات کریں جو، زباں جو کھولیں
جو یہ سوچیں کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ چن سکتے ہیں
اس نگری میں، ان لوگوں کی، جگہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
- ست رنگی جھیل کے کنارے سے - 03/01/2024
- میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں - 14/08/2023
- کیا تم مقتدرہ سے زیادہ جانتے ہو - 04/07/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).