ایک پُرانی غلطی


میں کچھ اس طرح سے گیا کہ وہ گھر نظر سے نہ اوجھل ہو۔ راستے میں ہی مجھے سائیکل پر سوار اخبار والا مل گیا اور اخبار لے کر میں واپس گاڑی میں بیٹھا ہی تھاکہ ساجدہ کے گھر کا گیٹ کھلا۔ ساجدہ کے ابو گاڑی گیٹ سے نکال کر باہر آئے اور وہ گیٹ کو بند کرکے گاڑی میں ان کے ساتھ بیٹھ گئی۔ نیلے شلوار قمیض میں نیلے ہی رنگ کے دوپٹے کے ساتھ وہ مجھے پہلے دن سے بھی زیادہ حسین لگی تھی۔ میرا مقصد پورا ہوگیا۔ میں اسے ایک دفعہ پھر غورسے نظر بھر کے دیکھنا چاہتا تھا، رات بھر وہ میرے خیالوں میں بھٹکتی رہی اب تو مجھے صرف فیصلہ کرنا تھا اور اس فیصلے سے پہلے میں اسے صبح صبح دیکھنا چاہتا تھا۔ میری نانی کہتی تھیں کہ جو عورت صبح خوبصورت نظرآتی ہے وہ حقیقت میں خوبصورت ہوتی ہے اور جو عورت شام کو خوبصورت لگتی ہے وہ بناوٹ ہوتی ہے۔ نہ جانے اس میں کتنی حقیقت ہے لیکن سچ بات یہ تھی کہ ساجدہ صبح بھی خوبصورت تھی اور شام کو بھی حسین۔

اسی شام میں نے اپنی خواہش کا اظہار اپنی بہن اورماں باپ سے کردیا۔ میری ماں فوراً ہی تیار ہوگئی تھیں کہ آخر کار میں نے شادی کے لئے ہاں تو کردی کیونکہ باوجود گھر والوں کے اصرار کے مجھے کوئی لڑکی پسند ہی نہیں آتی تھی۔ وجہ کوئی نہیں تھی بس یہ ہوا کہ کسی نے کلک نہیں کیا۔

شادی میں تھوڑا مسئلہ ضرور ہوا جس کی مجھے اُمید نہیں تھی۔

ہوا یہ کہ جب میری ماں اور دونوں بہنیں ساجدہ کے گھر مٹھائی لے کر اور پیغام لے کر پہنچیں تو ہمیں اُمید تھی کہ وہ لوگ فوراً ہی ہاں کردیں گے۔ صرف ڈر یہ تھا کہ اگر اس کی منگنی ہوئی ہوگی یا اگر کسی سے نکاح ہوچکا ہوگا تو ہم لوگ کیا کریں گے۔ یہ سوچنا ضروری تھا کیونکہ خوبصورت لڑکیوں کی شادی فوراً ہی ہوجاتی ہے، رشتے آنا شروع ہوجاتے ہیں اور ماں باپ کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ لڑکیاں سسرال چلی جائیں، چاہے تعلیم ہی چھوڑنا پڑے۔ کون انتظار کرتا ہے۔ یہ میں نے سوچا ضرور تھا مگر اس سے آگے نہیں سوچ سکا تھا اوراُمید یہی کی تھی کہ اس کا رشتہ وغیرہ کہیں نہیں لگا ہوگا۔ خوش قسمتی سے ایسا ہی تھا۔ اس کے رشتے ضرور آئے مگر ان کے گھر والوں نے کسی کوبھی ہاں نہیں کیا تھا۔ شاید میری قسمت اچھی تھی۔

میرے گھر والوں کو ساجدہ کے گھر میں عزت دی گئی، اس کی امی بہت اچھے طریقے سے ملیں مگر نہ جانے کیوں اس کے ابو کاروّیہ کچھ زیادہ دوستانہ نہیں تھا۔ اس وقت مجھے یہ سب کچھ بہت بُرا لگا۔ انہوں نے میرے بارے میں بہت سارے ضروری غیر ضروری سوالات کرڈالے۔ باجی کی بات سے مجھے اندازہ ہوا کہ شاید وہ ہمارے رشتے کے پیغام پر کچھ زیادہ خوش نہیں تھے۔ باجی نے کہا کہ اگر باپ ہی راضی نہیں ہوگا تو رشتہ منظور کرانا بڑا مشکل ہوجائے گا۔

اس وقت مجھے بڈھے پر غصہ بہت آیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے دل میں سوچا کہ شرافت کا زمانہ ہی نہیں ہے میں نے کوئی عشق نہیں لڑایا۔ یونیورسٹی جا کر ساجدہ پر راہ چلتے ڈورے نہیں ڈالے، اس کی کسی سہیلی کے بھائی کوتلاش کرکے اس تک پہنچانہیں، تحائف کی بارش نہیں کی، غلط باتوں سے اسے بہلایا نہیں، پھسلایا نہیں، یہ سب کچھ اُس زمانے کے مروجہ طریقے تھے۔ یہی کررہے تھے لڑکے مگر میرے پاس اس قسم کے طریقوں کے لئے نہ وقت تھا اور نہ ہی میں نے اس طرح کی کوئی منصوبہ بندی کی تھی۔ مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ میں اچھی شکل و صورت کا مالک، اچھے اطوار والا بندہ ہوں۔ لڑکیوں کے لئے میں کچھ کشش بھی رکھتا تھا۔ تعلیم یافتہ تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ مالی و معاشی طور پر خوشحال بھی تھا۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر تھی کہ میں انہیں قابل قبول کیوں نہیں۔ میرا غصہ ناجائز تو نہیں تھا۔

میرا خیال تھا کہ میرا رشتہ پہنچتے ہی وہ لوگ خوش ہوجائیں گے۔ کیا کمی تھی مجھ میں۔ فوراً ہی راضی ہوجائیں گے اور چٹ منگنی پٹ بیاہ جیسا مسئلہ ہوگا۔ شاید میں اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دے رہا ہوں گا مگر ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے تھا کہ جیسے میری کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ حالات و واقعات پر میری کوئی گرفت تھی نہ اور کوئی اختیار۔ بڑے میاں کا اپنا دماغ تھا۔ میری بہنوں نے بتایا کہ ساجدہ کی امی کا رویہ بڑا دوستانہ ہے مگر ساجدہ کے ابو کے رویے نے کافی مایوس کیاتھا۔

ہفتے بھر کے انتظار کے بعد میری بہن نے ساجدہ کی امی سے فون پر بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ابھی تک وہ لوگ کچھ فیصلہ نہیں کرپائے ہیں اورساجدہ کے ابو میرے بارے میں تحقیقات کررہے ہیں، معلومات جمع کررہے ہیں، اتنا تو حق ہے نہ بیٹی ہمیں۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔

مجھے غصہ آیا۔ تحقیقات کرنا تو ان کی ذمہ داری تھی اور ان کا حق بھی، کوئی اپنی بیٹی کی شادی بغیر سوچے سمجھے اورتحقیقات کے کیسے کرسکتا ہے۔ مگر میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں نے سوچا بھی نہیں تھاکہ کوئی مجھے رَد کرسکتا ہے، کچھ اس قسم کا پُرغرور تھامیں۔ اور کچھ ایسی انا تھی میری۔ صحیح یا غلط میں ایسا ہی تھا۔

شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میں کم عمری میں ہی پے درپے کئی کامیابیاں اصل کرتا ہوا اپنے ابا جان کے چھوٹے سے کاروبار کو بہت تیزی سے اوپر لے گیا تھا۔ بے شمار خاندانوں کے لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی مجھ سے کرنا چاہتے تھے۔ دفتر میں بھی اوردفتر کے باہر بھی۔ کتنے والدین نے اپنی اس خواہش کا اظہار میرے ابا اور اماں جان سے کیا تھا۔ ایسا بھی ہوا تھا کہ کئی قبول صورت لڑکیاں خود ہی راستے میں آگئیں، اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کیا مگر سچی بات یہ ہے کہ کوئی بھی اچھی نہیں لگی، کوئی بھی کلک نہیں ہوئی اور اب جب یہ لڑکی کلک ہوئی تو بڑے میاں نے مسائل کھڑے کردیئے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments