بس اب بہت ہو گئی چیف صاحب


\"quetta-3w\"

دھماکے تب بھی بہت ہوتے تھے پشاور میں جب ضیا صاحب افغان جہاد میں پوری طرح شریک ہو کر اپنے جہادی جراثیم کو آرام دے رہے تھے۔ افغان حکومت پشاور میں دھماکے کرایا کرتی تھی ہماری کارکردگی کے اعتراف میں۔ جونیجو صاحب والی منمناتی ہوئی جمہوریت آئی تو ایک ڈھیلی ماٹھی سی جمہوری حکومت کے پی والوں کو بھی نصیب ہو گئی۔ ارباب جہانگیر ایک عوامی سیاستدان تھے جو وزیر اعلی بنے۔ پشاور والوں نے ایک سخت گیر جنرل کو بطور گورنر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھگتا تھا۔ ارباب صاحب کو کوئی بھی سیریس نہیں لیتا تھا نہ لوگ نہ بیورکریسی ۔ دھماکے ہوتے رہتے تھے لوگ فضل حق کو یاد کرتے تھے۔

اٹھاسی میں اسمبلیاں ٹوٹیں تو جنرل فضل حق جو تب تک ریٹائر ہو چکے تھے کو نگران وزیراعلی بنا دیا گیا۔ انہوں نے وزیر اعلی بننے کے بعد جو پہلا دوسرا بیان دیا اس میں ایک یہ بھی تھا کہ اب دھماکے نہیں ہوں گے۔ اس بیان کے ایک آدھ دن بعد ہی پشاور نمک منڈی کے پاس دھماکہ ہو گیا۔ ابھی امدادی کاروائیاں شروع ہی ہوئی تھیں کہ جنرل فضل حق بھی موقعے پر پہنچ گئے۔

\"quetta-4\"

انہوں نے ادھر ادھر دیکھا وہاں موجود سب سے بڑا افسر جو انہیں دکھائی دیا سیدھے اس کی جانب گئے۔ جنرل صاحب نے یہ کہتے ہوئے اس افسر پر لاتوں مکوں کی برسات کر دی کہ پرون مہ ویلی دی چہ اس بہ دھماکے نہ کی گی یعنی کل میں نے کہا تھا کہ اب دھماکے نہیں ہوں گے۔

سردار ثنا اللہ زہری کی نوابی اور سرداری کو کیا کہیں ان کے اپنے بھائی بھتیجے بیٹے کو بم دھماکے میں مارا گیا۔

جناب چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف صاحب کل آپ نے ایک بیان دیا تھا۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ امن لائے ہیں۔ اب ہمیں جواب دیں۔ سیرل المیڈا کی سٹوری چھپنے کے بعد جو آپ کی میٹنگ وزیراعظم سے ہوئی تھی۔ اس کا اعلامیہ آپ کو یاد کراتے ہیں۔ اس کا اعلامیہ یہ تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی قیادت فوج اور ایجنسیاں ( آئی ایس آئی ) ہی کرے گی۔

\"quetta-7\"

ہم نہیں چاہتے کہ آپ فضل حق کی طرح کسی کو تھپڑ ماریں۔ بس اپنے کہے کی لاج رکھیں، سیکیورٹی کے حوالے سے جس کی بھی کوتاہی ہے اس کے خلاف ایکشن لیں۔ اس کا اعلان کریں۔ دھماکے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی العالمی نے قبول کی ہے۔ کس کو نہیں پتہ کہ لشکر جھنگوی العالمی، ایشین ٹائگر اور اک آدھ اور نام لشکر جھنگوی ہی استعمال کرتی ہے۔ وہ تب ایسا کرتے ہیں جب کسی وجہ وہ براہ راست کسی کاروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کرنا چاہتے۔

ان سرداروں کے پلے اتنا کچھ نہیں تھا کہ ان کے مقابلے پر لشکر جھنگوی کو ہی کھڑا کر دیا گیا۔ بلوچ سرداروں کے لئے بلوچ خود ہی بہت کافی تھے کافی ہیں۔ یہ تو وسائل اور حقوق کی بات تھی ان باتوں سے گھبرا کر بلوچستان میں لشکر جھنگوی پر ہاتھ رکھا گیا۔ جو اب ہم بھگت رہے ہیں۔

ہم چینیوں سے پیسے لیتے ہیں ان سے کچھ سیکھتے نہیں ہیں۔ چین میں بھی ایک شدت پسندی دہشت گردی کی لہر جاری ہے۔ چینی جب کسی ایسے پاکستانی سے ملتے ہیں جو شدت پسندی کے بارے میں پڑھتا ہو کچھ جانتا ہو تو وہ اس سے اپنے چینی مسلمان دہشتگردوں کے بارے میں پوچھا کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک میٹنگ میں چینی پروفیسر کا ہم دوستوں نے مذاق اڑایا۔ اسے یہ بتایا کہ چھبیس سال میں چینی دہشت گردوں نے کوئی ڈیڑھ دو سو بندہ مارا ہے۔ ہزار ایک کو زخمی کیا ہے تو یہ بھی بھلا کوئی مسئلہ ہے۔

\"quetta-5\"

چینی پروفیسر کا کہنا تھا کہ ہم کہتے ہیں کہ مرنا تو چھوڑیں، کوئی ایک زخمی بھی کیوں ہو۔

کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سکول پر حملہ ہوا۔ آج کل کے حالات میں کون سی ماں اپنے بچوں کو سیکیورٹی فورسز میں خوشی سے بھیجتی ہو گی۔ کتنی مجبوریاں ہونگی کہ لوگ اپنے بچوں کو یہاں بھیجتے ہوں گے۔ ہم ایسے حالات میں رہے ہیں ان سے گزر رہے ہیں کہ ماؤں کا بس نہیں چلتا کہ وہ بچوں کو عبادت کے لئے مسجدوں امام بارگاہوں چرچ میں جانے سے روک دیں۔ دروازوں میں کھڑی رہ کر انتظار کرتی ہیں اپنے بچوں کی واپسی کا۔

دل کوئٹہ واقعے پر نہ رونے کو تیار ہے نہ یہ دعا مانگنے کو کہ اللہ شہیدوں کی ماؤں کو صبر دے۔ اللہ شہیدوں کی ماؤں کی آہوں میں اثر دے تاکہ ان کے ذہن میں یکسوئی پیدا ہو جو غلط پالیسیاں بناتے ہیں اور جو اب تک اس طرح کی دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments