کوئٹہ حملہ: ٹائیگرو، ماننا پڑے گا کہ نواز شریف ہی ملوث ہے
تاریخ کے سیارے پر جھانکیے، تاحد نگاہ بادشاہوں کے تخت اور سالاروں کے بخت ملیں گے۔ ایک سے بڑھ کر ایک بادشاہ آسمان کی آنکھ نے دیکھا، ایک سے بڑھ کر ایک سالار زمین کی پشت نے بھگتا۔ بادشاہوں اورسالاروں کی تاریخ فتح و شکست عبارت ہے۔ یا پیش قدمی کررہے ہیں، یا پسپا ہورہے ہیں۔ یا تخت پہ بٹھائے جارہے ہیں یا تاج اچھالے جا رہے ہیں۔ یار اور دار کے بیچ کی اس تاریخ میں ہر بادشاہ نے اقتدار کی بساط پہ چلنے کے لیے اپنی ہی ایک چال پائی ہے، مگر جو چال میاں محمد نواز شریف نے پائی ہے وہ کسی اور کے نصیب میں کہاں آئی ہے۔؟
آپ انسانی تاریخ کے ایک منفرد بادشاہ واقع ہوئے۔ آپ پشت در پشت ذہین چلے آرہے ہیں۔ آپ نے علم سیاسیات وعسکریات میں نئے ابواب کا اضافہ کیا ہے۔ سیاست میں نئی چالیں اور فن سپہ گری میں نئی ڈھالیں متعارف کروائی ہیں۔ یہ چال آپ ہی نے متعارف کروائی کہ جس قوم کو محکوم بنانا ہو اس پر فوج ظفر موج لے کر چڑھ دوڑنے کے بجائے خود نمک کی کان میں نمک ہوجاؤ۔ اسی قوم کا حصہ بن کر کارِ مسیحائی کرو۔ قوم کا بخت سنوارنے کی قسمیں کھاؤ اور انہی کے بخیے ادھیڑنے کے لیے امکانات پر غور کرو۔ آپ نے عمر بھر خود یہی چال چلی۔ آپ اصلاً کشمیری اور نسلاً ہندوستانی ہیں۔ تقسیم ہند کا گھاؤ آپ کے دل پہ نمایاں ہے۔
پاکستان کے گھیراؤ کی منصوبہ بندی آپ نے آگرہ میں کی۔ تین حقیقتوں کا آپ کو ادراک ہوگیا تھا۔ ایک یہ کہ پاکستان کا صدر مقام دراصل پنجاب ہے۔ دوسرایہ کہ طاقت کا سر چشمہ افواج پاکستان ہیں۔ تیسرا یہ کہ ناخواندگی کے سبب پاکستان میں سنار کی سو چوٹوں پر لوہار کی ایک ضرب کو فضیلت حاصل ہے۔ چانچہ آپ نے لاہور میں لوہے کی فاؤنڈری قائم کی اور شہر کے مضافات یعنی رائیونڈ میں مکان کیا۔ خدا کی قدرت دیکھیے کہ دوسرے اللہ والوں کو بھی یہی مقام پسند آیا اور تبلیغی جماعت پہ بھی یہی راہ کھلی۔
اسی طرح آپ مملکت ضیا داد پاکستان کے خلیفہ اول جناب ضیا الحق شہید کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے۔ ساتھ ہی ساتھ پنجاب کے سینے پہ گھٹنہ جمانے کے لیے آپ نے لوہے کی بھٹی مزید دہکا لی۔ رائیونڈ سے بیٹھ کرآپ نے عوام کی جڑوں میں پانی چھوڑا۔ شاہ کا مصاحب بن کر آپ نے اترانے کا جواز پیدا کرلیا۔ جو لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ دیکھتے ہی دیکھتے اقتدارکے سنگھاسن پہ کیسے براجمان ہوئے، انہیں بتا دو کہ بیشک عقل خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔
کہتے ہیں کہ سیانا کوا بھی ایک دن کھانے پینے میں بے احتیاطی کرجاتا ہے۔ آپ نے اپنی ذہانت کے سبب اقتدار کی پالکی تو ہتھیالی مگر جلد ہی آپ کےعزائم ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظوں پر آشکار ہوگئے۔ قوم جان تو نہ سکی کہ ہوا کیا تھا، مگر یہ سب نے دیکھا کہ آپ کا اقتدار لپیٹ کے دھوپ میں رکھ دیا گیا۔ آپ نے بختی اونٹ کی طبع اور کالی چیونٹی کی طمع پائی ہے۔ کینہ رکھتے ہیں اور دیوار سے گرتے ہی دامن جھاڑتے ہیں پھر سے چڑھتے ہیں۔ آپ نے پھر سے عوام سے رجوع کیا۔ آپ نے یقین دلایا کہ احیائے خلافت کی جدو جہد مرحوم ضیاالحق نے جہاں چھوڑی تھی وہیں سے آگے بڑھا ؤں گا۔ قوم نے جنرل ضیا کے واسطے کا بھرم رکھا، پھر سے اعتبار کیا۔ آپ ایوان اقتدار میں آگئے۔ آپ سے صبرنہ ہوسکا، کہیں نہ کہیں خفیہ عزائم ظاہر کردیے ہوں گے۔
چنانچہ ایک بار پھر آپ کوئے یار سے کھینچے گئے اور سوئے دار پہنچا دیے گئے۔ دل اونٹ کا سہی، دماغ تو شاطر لومڑی کا پایا ہے۔ ایک شاطر مزاج آمر کو دستاویزات میں الجھایا اور حجاز مقدس سدھار گئے۔ آٹھ برس خانہ خدا میں تسبیح پھیرتے رہے، مناجات کرتے رہے اورخیرات بانٹتے رہے۔ آپ حاتم طائی اور حضرت باقر باللہ کا مشترک سایہ محسوس ہونے لگے۔ عوام پھر عوام ہیں، اعتبار کرلیا۔ آپ کہ شریف تھے، مزید شریف ہوگئے۔ یہ عرصہ آپ کے لیے ذوالقرنین اور دی گریٹ الیگزنڈر کا عرصہ ثابت ہوا۔ صحیح معنوں میں آپ نے کار جہاں بانی پر نصیب آزمایا۔ پاکستانی عوام کے دل پھر سے آپ کے ساتھ دھڑکنے لگے تھے۔ ہندوستان آپ کا پشت پناہ تھا۔ عالمی طاقتیں آپ کی بات کو توجہ دینے لگی تھیں۔ شیخ آپ کا پانی بھر رہا تھا۔ ڈوبتے کو یہ سب مل جائے تو کیا غم ہے۔ یہی وقت تھا جب پاکستان میں عمران خان صاحب کی صورت میں ایک نجات دہندہ کا ظہور ہورہا تھا۔ خان صاحب نے قابض جرنیل کے چرن چھو لیے تھے۔ بیعت کے لیے ہاتھ بڑھا یا ہی تھا کہ ادھر ورلڈ ٹریڈ ٹاور دھڑام سے زمین بوس ہوگیا۔ دنیا کی دوبڑی عمارتوں کو ملیا میٹ ہوئے دو دہائیاں ہونے کو آئی ہیں۔ ابھی دھول اڑی ہوئی ہے، مورخ کو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ آج سے ایک صدی بعد جب دھول بیٹھے گی اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی دے گا، تو مورخ لکھے گا کہ صرف جناب پرویز مشرف اورعمران خان کے رومانس میں خلل ڈالنے کے لیے دنیا کی دو بڑی عمارتوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا گیا تھا۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ بات جدہ پلان میں طے ہوچکی تھی کہ ہندوستان میں مودی اور پاکستان میں میاں محمد نواز شریف بیک وقت برسراقتدار آئیں گے۔ اندازہ کیجیے کہ خطے میں ہرچال کس مہارت سے چلی گئی کہ کم وبیش ایک ہی عرصے میں دونوں ملک دشمن عناصر نے اقتدار کی زمام سنبھالی۔ اس کے بعد کے حالات واقعات کا اگر جائزہ لیں تو آپ کو واضح اندازہ ہوجائے گا کہ کن مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ان صاحبان کو ہم پر چھوڑا گیا ہے۔ میاں صاحب مودی کو آم کی پیٹیاں بھیجواتے ہیں۔ مودی کی ماتا جی کو ساڑھی کا تحفہ بھجواتے ہیں۔ مودی کو پکارتے ہیں، مودی چلے آتے ہیں۔ شاہوں سے کہلوا کر مودی کو سعودیہ کی تاریخ کا سب سے بڑا اعزاز دلواتے ہیں۔ ایسے حالات میں کہ جب پاکستان میں کسی تخریب کار کو رات کا اندھیرا بھی نہیں ڈھانپ سکتا، تمام جہادی مراکز پر پابندی عائد ہوچکی ہے، شر پسندوں کے سب ٹھکانے بھسم کیے جا چکے ہیں، قاتل سولی لٹکائے جاچکے ہیں، دہشت گردوں کی کمر بیچ سے توڑی جا چکی ہے، بیرونی عناصر در اندازی کا موقع نہیں پا رہے، ایسے میں میاں صاحب را کے ایجنٹوں کو اپنی شوگر ملوں میں گنے کی بوریوں اور مشینوں میں چھپاتے ہیں۔ پکڑے جاتے ہیں تو مل کو آگ لگا کر ایجنٹوں کا نام ونشان مٹا دیتے ہیں۔
اتنے واضح ثبوت وشواہد کے بعد یہ بات کوئی سربستہ راز نہیں رہ جاتی کہ حالیہ حادثات و سانحات کے پیچھے کون ہے۔ راوی ابھی کسی سبب سے خاموش ہے، مگر مورخ لکھے گا کہ جب دھرنے نے میاں صاحب کا ناطقہ بند کردیا تھا تو ہندوستان نے پشاور اسکول میں ایک سو چالیس بچے دوستی کی بھینٹ چڑھا دیے تھے۔ جب تحریک آزادی کا آخری قافلہ رائے ونڈ کی طرف پیش قدمی کررہا تھا تو میاں صاحب کی ایما پرمودی نے سرجیکل سٹرائیک کا آغاز کردیا تھا۔ پھر ایسے وقت میں کہ جب یہ لشکر پایہ تخت اسلام آباد پر فیصلہ کن حملہ کرنے کے لیے تسمے کس رہا تھا، میاں صاحب نے مودی کی طرف ایک نگاہ غلط انداز اٹھائی۔ اس کے بعد وہ ہوا جو کل کوئٹہ پولیس سینٹر میں دنیا نے دیکھا۔ آپ یہ سوچیں کہ یہ کس طرح کا وزیر اعظم ہے جس کے حکم کو پاک آرمی تو درخورا عتنا ہی نہیں سمجھتی، مگر انڈین آرمی اس کے ایک اشارہِ ابرو پر دنیا ادھیڑ کے رکھ دیتی ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے، مگر تم غور نہیں کرتے۔
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔ قافلہ رکے گا نہیں، جھکے گا نہیں۔ دفاع پاکستان کونسل اور سنی اتحاد کونسل کی تائید ونصرت ہمارے ساتھ ہے۔ تحریک ریشمی برقعہ کے لہو گرم لڑاکے ہمارے استقبال کو فیض آباد کی فصیلوں پہ بے تاب کھڑے ہیں۔ چلے چلو کہ منزل بلا رہی ہے۔
- شاہراہ دستور یا جرنیلی سڑک؟ - 14/02/2024
- عورت مارچ: برائے زن زندگی آزادی - 08/03/2023
- گلگت سے چترال تک: ایک فوجی مہم کی کہانی - 17/06/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).