کوئٹہ ایک بار پھر نشانے پر، لیکن مددگار کون ہے؟


\"mujahid

کوئٹہ میں ایک بار پھر قیامت کا منظر ہے۔ آج پھر درجنوں گھرانوں کے چراغ گل ہوئے ہیں۔ ایک بار پھر یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ یا وفاقی اور صوبائی حکومتیں جیسے بھی دعوے کریں، دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے جیسے بھی اعلان کئے جائیں اور کتنے ہی حملوں کو ناکام بنانے کی خبریں فراہم ہوں، لیکن ملک کے دہشت گرد گروہ بدستور طاقتور اور مؤثر ہیں۔ انہیں نہ صرف اپنے گھناؤنے عزائم کی تکمیل کے لئے رنگروٹ میسر آتے ہیں بلکہ وہ ان کی ذہنی اور عسکری تربیت کرنے کی سہولتیں بھی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ اسی لئے یہ حملہ آور موقع ملنے پرزیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ آج رات کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملہ کے دوران بھی یہ صورت حال دیکھنے میں آئی۔ دو حملہ آوروں نے خود کش دھماکہ میں خود کو اڑا کر شدید جانی نقصان کیا۔

اس حملہ میں اب تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ساٹھ زیر تربیت افسر جاں بحق ہوئے جبکہ ایک فوجی اہلکار دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے دوران شہید ہو گیا۔ زخمی ہونے والوں کی تعدا د ایک سو سے زیادہ ہے۔ حملہ آور رات نو بجے کے بعد عقبی ٹاور پر ڈیوٹی پر موجود ایک سنتری کو ہلاک کرکے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ شروع میں کئی گھنٹے تک مقابلے اور زخمی ہونے والوں کی اطلاعات آتی رہیں۔ متعدد زیر تربیت اہلکاروں نے عمارت سے کود کر جان بچائی ۔ اس کوشش میں بھی کئی افراد زخمی ہوئے۔ تاہم رات گئے جب فوج اور فرنٹیر کور کے اہلکاروں نے دہشت گردوں کو گھیر لیا تو انہوں نے خود کش دھماکہ کرکے عمارت میں موجود افراد کو نشانہ بنایا۔ اس حملہ میں اڑھائی سو کے قریب لوگ عمارت سے زندہ بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفرازبگٹی نے بتایا ہے کہ عقبی ٹاور پر موجود سنتری نے ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن دہشت گرد اسے ہلاک کرنے کے بعد اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ۔ وزیر اعلیٰ ثنا ء اللہ زہری کا دعویٰ ہے کہ محرم کے دوران انہیں شہر میں دہشت گرد حملوں کے منصوبوں کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں ۔ اس لئے سیکورٹی سخت کردی گئی تھی۔ دہشت گردوں کو جب شہر میں حملہ کرنے کا موقع نہیں ملا تو انہوں نے پندرہ کلو میٹر دور سریاب روڈ پر واقع پولیس اکیڈمی کو نشانہ بنایا۔

یہ دونوں بیان صوبائی حکومت کی بہتر کارکردگی کی بجائے ، اس کی ناہلی اور ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پولیس اکیڈمی میں سات سو کے لگ بھگ زیر تربیت افسر موجود ہوتے ہیں لیکن اس کے عقبی ٹاور پر حفاظت کے لئے صرف ایک سنتری تعینات تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اکیڈمی کے کارپردازوں کو صوبے کی صورت حال اور دہشت گردی کے خطرے کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اور وہ اپنے ہی افسروں کی حفاظت سے غفلت اور لاپرواہی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اب وزیر داخلہ سرفراز بگٹی ایک سنتری کی بہادری کا قصہ تو سنا رہے ہیں لیکن اپنی حکومت کی ناہلی اور ناقص منصوبہ بندی کا اعتراف کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ وزیر اعلیٰ ثنا ء اللہ زہری نے ستمبر میں سول اسپتال میں وکیلوں پر حملہ کے فوری بعد یہ بیان دیا تھا کہ وہ حملہ بھارتی ایجنسی ’را‘ نے کروایا تھا۔ لیکن وہ تاحال اس کے ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ اسی طرح اب وہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں دہشت گردی کی اطلاعات تھیں لیکن وہ پولیس اکیڈمی جیسے اہم ادارے کی حفاظت کے انتظامات میں بھی کامیاب نہیں ہوئے ۔ اور اس کا الزام بھی دہشت گردوں کی بزدلی پر ڈال کر خود سرخرو ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان سیاسی لیڈروں کو لایعنی بیان بازی کی بجائے حالات کا درست جائزہ لینے اور بروقت مناسب اقدامات کے ذریعے شہریوں کی حفاظت کا فرض پورا کرنے کی ضرورت ہے۔

\"quetta-1\"

اگرچہ کسی تنظیم نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم بلوچستان میں متعین فرنٹیر کورپس کے انسپکٹر جنرل میجر جنرل شیر افگن نے بتایا ہے کہ یہ حملہ لشکر جھنگوی العالمی نے کروایا ہے۔ ان کی اطلاعات کے مطابق حملہ کے دوران حملہ آوروں کو افغانستان سے ہدایات وصول ہو رہی تھیں۔ اس طرح ایک بار پھر یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس حملہ میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے۔ اس سے پہلے حکومت یہ بتاتی رہی ہے کہ بھارت افغانستان کے راستے بلوچستان میں انتشار پیدا کرنے اور حملے کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ تاہم ان الزامات کے واضح ثبوت سامنے نہیں آئے اور نہ ہی اس خطرہ کی مکمل طور سے روک تھام ہو سکی ہے۔ دہشت گرد حملوں میں ملوث حملہ آوروں کی شناخت سے یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ انہیں خواہ کسی دشمن ملک نے وسائل فراہم کئے ہوں اور ان کی تربیت کی ہو لیکن وہ ایک خاص مقصد کے لئے اس قسم کے ہلاکت خیز حملوں میں ملوث ہوتے ہیں اور انسانی جانوں کا نقصان کرنے کے ساتھ اپنی جان دینے پر بھی بخوشی تیار ہو جاتے ہیں۔

یہ عناصر صرف مالی مفادات کے لئے یہ مذموم کام نہیں کرتے بلکہ انہیں اسلامی نظام کے نفاذ کا سپاہی بنا کر اس گھناؤنے کام کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ اس مزاج اور ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے جو ایسا شدت پسند مزاج ملک میں عام کرنے کا کام کھلے عام کرتے رہے ہیں۔ راقم الحروف کی رائے میں اسلام آباد کے قلب میں لال مسجد کی شہدا فاؤنڈیشن اور مولانا عبد العزیز، اکوڑہ خٹک کا حقانیہ دارالعلوم اور اس کے مہتمم مولانا سمیع الحق اور دفاع پاکستان کونسل میں شامل متعدد عناصر اسی مزاج کا حصہ ہیں اور وہ سیاسی اسلام کے فروغ اور شرعی نظام کے نام پر مسلح جد و جہد کو جائز قرار دیتے ہیں۔ لیکن سیاسی ضرورتوں کے لئے تحریک انصاف کی حکومت بھی ایسے مدارس کو کثیر مالی امداد دیتی ہے اور ملک کے وزیر داخلہ بھی حسب ضرورت ان سے ملاقات کرنے اور خطرناک لوگوں کو سہولتیں دینے کے بارے میں مطالبے ماننے سے گریز نہیں کرتے۔ جب حکومتیں سماج میں شدت پسندی کو فروغ دینے والے عناصر پر قابو پانے میں ناکام رہیں گی، کوئٹہ جیسے سانحات کا روکنا ممکن نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments