قلعوں پر دشمن کے حملے، اور رعایا کی بے بسی


\"zeffer05\"

بچپن میں قلعوں کی داستان پڑھا کرتے تھے، تو حیرانی ہوتی تھی، کہ محض قلعہ فتح کر کے کوئی شہر یا ملک کو کیسے فتح کر لیتا تھا۔ کچھ بڑے ہوئے، تو یہ شعور ہوا، کہ ان زمانوں میں شہر قلعوں کے اندر ہی ہوتے تھے۔ وہ آبادیاں جو قلعے سے باہر ہوتیں، شہری آبادیاں نہ کہلاتی تھیں۔ جنگ کی صورت میں، ان آبادیوں کے مکین قلعے میں پناہ گزیں ہوتے۔ جب قلعہ فتح ہوجاتا، تو پرانے محکوم، نئے حاکم کی رعایا ہوتے۔ بادشاہ کا مذہب، رعایا کا مذہب ہوجاتا۔ شاہ کا چلن، رعایا کا ایمان ہوجاتا۔ آج بظاہر وہ قلعے نہیں رہے، کہ جو تھے۔ جدید سامانِ حرب نے روائتی قلعوں کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے۔ قلعوں کا مقصد بادشاہ کے محل کا تحفظ تھا، کہ بادشاہ سلامت، تو ریاست سلامت۔ اس بحث کو یہیں چھوڑ کر ہم کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے پر بات کرتے ہیں۔

کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر میں حملہ اتنا حیران کن نہیں، جتنا بہت سے لوگوں کا خیال ہے۔ پولیس ہو، یا دیگر مسلح افواج؛ جب کوئی ان شعبوں کا اتخاب کرتا ہے، تو یہ عہد کرتے ہوئے آتا ہے، کہ ہم فرض کی ادائی میں جان تک دینے سے باز نہ آئیں گے۔ اِن جوانوں کو قضا لے گئی۔ یہ شہید کہلائیں گے، سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنائے جائیں گے۔ پولیس ٹریننگ اسکول کے بچوں، آرمی پبلک اسکول، باچا خان یونیورسٹی کے بچوں میں کوئی مماثلت نہیں۔ جب کوئی اپنا بچہ پولیس یا فوج میں بھیجتا ہے، تو وہ جانتا ہے، قبیلے کی شان ہی نہیں بڑھے گی، ایسے میں بچے کی جان بھی جا سکتی ہے۔ اور جب کوئی اپنے بچے کو روائتی اسکول میں بھیجتا ہے، تو سرحد پہ لڑنے کے لیے نہیں، نہ شہید کہلوانے کے لیے۔ تازہ ترین اطلاع یہ ہے، کہ سندھ حکومت نے پولیس کے جوانوں کو دفتر آتے، وردی نہ پہننے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔

\"quetta-8\"

”ہم حالتِ جنگ میں ہیں“۔ یہ وہ فقرہ ہے، جو ریاستی اداروں کی طرف سے، گزشتہ چالیس سال نہیں، تو کم از کم پندرہ برسوں سے تواتر سے دُہرایا جاتا ہے۔ جب ملک کی حالت جنگ کی ہے، یا جنگ کی سی ہے، تو جنگ میں مجاہد تو کام آتے ہیں، جان سے جاتے ہیں۔ ہم تب تب افسوس کا اظہار کرتے ہیں، جب ”دشمن“ شہریوں کو ہدف بناتا ہے۔ دشمن سے لڑنے والا سپاہی، دشمن کو ناکوں چنے چبانے والا غازی، سینے پر وار لینے والے شہید کا ماتم کیوں؟ شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے۔ تو ہمیں کس شئے کا ماتم کرنا ہے؟ اس بات کا، کہ یہ جنگ کس نے چھیڑی؟ یہ جنگ کون ختم نہیں کرنا چاہتا؟ یہ جنگجو کہاں سے آ رہے ہیں؟ یہ جنگ عوام کی نہیں، تو کس کی ہے؟ ہمیں کس شئے کا ماتم کرنا ہے؟ اس کا، کہ جن اداروں کو جنگ روکنا ہے، وہ ادارے کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں؟ ہمیں یہ ماتم کرنا ہے، کہ جن کا کام دہشت گردی روکنا ہے، وہ سچے جھوٹے بیان دیتے، سب سے پہلے موقع واردات پر پہنچنے کی روایت قائم کیے ہوئے ہیں؟ کیا اس سے نقصان کا ازالہ ہوتا ہے، یا اپنی نااہلی کو چھپانے، اور متاثرین کو لبھانے کی ادا ہے؟

ہمیں ماتم یوں کرنا ہے، کہ ہم وہ شہری ہیں، جو قلعے کی دیواروں سے باہر ہیں۔ جی ہاں قلعے؛ آج قلعوں کی پرانی شکل بدل گئی ہے۔ اب ”شاہوں“ نے شہری آبادیوں کے بیچ میں کہیں سڑک پر آہنی سلاخیں لگا کر، تو کہیں سنگی دیواریں کھڑی کر کے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا ہے۔ سپاہی شہری کو بچانے کی ڈیوٹی پر متعین نہیں؛ احوال یہ ہے، کہ ”حالت جنگ میں“ بادشاہ اور وزیر تو قلعے کے اندر محفوظ ہیں، لیکن شہریوں کو گاجر مولی کی طرح کٹنے کے لیے ان قلعوں کے باہر ہی چھوڑ دیا گیا ہے۔ شاہوں نے یہ قلعے بنا رکھے ہیں، تو اپنی رعایا کو اپنے آپ سے فاصلے پر رکھنے کے لیے۔ جب رعایا کو قلعے داروں کی طرف سے پناہ ہی نہیں ملتی، تو وہ اس قلعے کو بچانے کی جنگ کیوں کر لڑیں؟ ایسی رعایا اس مقام سے ہجرت ہی میں اپنی اولاد کی عافیت جانتی ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments