بہتا خون، ڈھول کی تھاپ اور ڈگڈگی پر رقص


\"zeeshan

مذمت ، اظہار غم اور نوحہ گیری کے لئے میرے پاس الفاظ ہی ختم ہو گئے ہیں ۔ جو لاشیں اٹھاتے ہیں انہیں ہی خبر ہوتی ہے کہ ان کے لئے سب سے بڑا قومی مسئلہ کیا تھا اور جو زندہ بچ گئے ان کے لئے اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ؟

چاروں طرف سے خونی درندوں اور ان کے ظاہری و باطنی سہولت کاروں کے گھیرے میں ہیں ہم ۔

افغانستان میں داعش کا جن بے قابو ہو رہا ہے کیونکہ داعش سے تربیت یافتہ عسکریت پسند اور ان کے خاندان جو ابوبکر بغدادی کی ترغیب پر ہجرت کر کے داعش کے مقبوضہ علاقوں میں جا مقیم ہوئے تھے اور ایک اندازے کے مطابق ان میں تقریباً 650 پاکستانی خاندان ہیں ، عراق و شام میں مسلسل شکست کے بعد واپس اپنے اپنے ملکوں میں لوٹ رہے ہیں ۔ تحریک طالبان افغانستان کے کچھ زیادہ شدت پسند اور غیر افغانی جنگجو (جیسے چیچن ، ازبک وغیرہ ) بھی داعش کی بیعت میں آ رہے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق افغانی داعش کے پچاس فیصد سے زائد جنگجو پاکستانی ہیں ۔ اس جن نے جب بوتل سے نکلنا ہے ، تو سوچ لیجئے کیا ہونے کا اندیشہ ہے ۔

محترم عامر رانا ڈان میں اپنے مضمون \”داعش کی واپسی\” میں لکھتے ہیں

\”یہ پیشن گوئی کرنا بہت مشکل ہے کہ عراق اور شام سے جو پاکستانی واپس آئیں گے ان کا طرز عمل کیا ہو گا۔ جب ہم ملک میں عسکریت پسندوں کے پیچیدہ منظر نامے اور انتہا پسندی کے مختلف رجحانات کو دیکھتے ہیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیکورٹی کے لئے نیا خطرہ سر اٹھا رہا ہے ۔اسی دوران اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ صرف پاکستانی عسکریت پسند ہی ملک میں واپس نہیں آئیں گے بلکہ وسطی ایشیائی ممالک اور چینی صوبہ زی جنگ پی سے تعلق رکھنے والے یغر عسکریت پسند بھی اسی علاقے بالخصوص افغانستان میں جہاں پاکستان کی سرحد سے متصل ان کی پناہ گاہیں موجود ہیں ، میں اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے پر ترجیح دیں گے ۔\”

آگے چل کر وہ اس سارے منظر نامہ کا اس طرح خلاصہ بیان کرتے ہیں

\”افغانستان اور پاکستان دونوں دولت اسلامیہ کے خطرے کا حقیقی ادراک کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔افغانستان کے حالات اس لئے بھی دگرگوں ہیں کیونکہ وہاں جنونی دشت گردوں کا دائرہ اثر بڑھ رہا ہے اور پاکستان میں بھی حالات گھمبیر ہیں کیونکہ یہاں کئی قسم کے عسکری گروہ ہیں جن کے اپنے اپنے نظریاتی رجحانات اور فرقہ وارانہ وابستگیاں ہیں ۔ یہ ایسا منظر نامہ ہے جو نئے رجحانات اور گروہوں کی تشکیل کےلئے زر خیز ہے ۔\”

مگر اس کے باوجود بھی دہشتگردی کا خاتمہ ہمارے مسائل میں سرفہرست نہیں اچھے جہادی اور برے جہادی کی تفریق ہنوز رائج ہے ۔ جنگجو وزیرستان سے نکل کر بلوچستان میں اپنے ڈیرے لگائے بیٹھے ہیں ۔

پاکستان امن و امان کے اعتبار سے دنیا کے پانچ بدترین ممالک میں سے ایک ہے ۔مگر ہم محض مرنے والوں اور زخمیوں کی گنتی اور اضافہ و کمی کی شرح پر نظریں گاڑے بدمست اور اوندھے منہ پڑے ہیں ۔

دنیا کی ہر قوم نے اپنے بدترین حالات سے سبق سیکھا ہے ۔ جرمنوں نے ہولوکاسٹ کو اپنی بدترین یادداشت بنا لیا ہے جسے وہ یاد کر کر کے روتے ہیں اپنے بچوں کو بار بار یاد کرایا جاتا ہے دیکھو ایسا پھر نہ کرنا ۔ ہم چند دن روتے پیٹتے نوحے لکھتے اور زندہ باد و مردہ باد کے نعرے لگا کر کسی دنگل میں پھر کھو جاتے ہیں ۔

ہم کچھ سمجھتے تو یہ دن بھی ہمیں دیکھنے تھے کہ کالعدم تنظیمیں ، جنہیں ریاست بذات خود دہشتگرد قرار دے چکی ہے سیاسی جماعت /جماعتوں سے حکومت کی تبدیلی پر اتحاد کر رہی ہوں گی ، یا ہمارے ملک کے وزیر داخلہ انہیں یقین دلائیں گے کہ آپ کے تمام تحفظات دور کئے جائیں گے ؟ حافظ سعید ٹی وی و اخبارات میں میڈیا سے کوریج لے گا اور جلسہ عام سے خطاب میں پڑوسی ممالک سے جہاد کی ترغیب دیتا پھرے گا ؟ مسعود اظہر کے خلاف قراردار اقوام متحدہ میں جب آئے گی تو ہم اپنے دوست ملک سے کہہ کر اسے ویٹو کروا لیں گے ؟

نہ سیکھنا چاہتے ہیں اور نہ سمجھنا بس ڈھول کی تھاپ پر رقص ہے اور ہیئت مقتدرہ کی ڈگڈگی پر ناچنا ہے ۔ عوامی مفاد یہاں قومی مفاد نہیں ، شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ یہاں قومی سلامتی نہیں ۔ صرف اثاثے اور سڑکیں قومی مفاد ہیں اور ان کا تحفظ قومی سلامتی ہے۔ اس صورت میں کوئٹہ لہولہان تھا ، ہے ، اور خدانخواستہ ایسے ہی رہا تو کیا فرق پڑتا ہے ؟

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments