منتشر معاشرے کی فکری اساس


\"akhtar-ali-syed\"سید اختر علی نقوی 

اس حقیقت کو بیان کرنے اور تسلیم کرنے میں اب شاذو نادر ہی تامل ہوتا ہے کہ معاشرہ ایک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اس کی اکثریت اپنے کو حق بجانب اور درست سمجھنے کے بے لچک احساس میں مبتلا ہو کر دوسروں کو اپنے موقف کی جانب مائل اور قائل کرنے کے لئے تعلیم، تبلیغ، دھن اور تشدد جیسے ذرائع حسب توفیق ، حسب استطاعت اور حسب ضرورت استعمال کرتی ہے۔ اگر بوجوہ ایسا نہ کیا جا سکے تو دوسروں کو دل ہی دل میں بالا التزام غلط اور لائق اصلاح خیال کرتی ہے پاکستان میں دہشت گردی کو فکری ایندھن اسی احساس سے فراہم ہوتا ہے۔

اس فکرکی عملی، معاشرتی اور سیاسی موجودگی کا پہلا اعتراف عسکری قیادت کا وہ بیان ہے جس میں اندرونی خطرات کو بیرونی خطرات سے بھی زیادہ قرار دیا گیا۔ اور دوسرا ثبوت وزیر داخلہ کا وہ فرمودہ ہے جس میں انھوں نے دہشت گردوں کے خلاف دو بہ دو لڑائی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی جنگ میں بھی اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ نفسیاتی جنگ میں اتحاد کا واضح مطلب دشمن (دہشت گرد) کے خلاف افراد اور افکار کی یکجائی ہے۔ کیا دہشت گردوں کو دشمن قرار دینے اور ان کے خلاف جنگ میں نفسیاتی اتحاد کا مطالبہ کرنے والوں کو اپنے مقاصد کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا اندازہ ہے؟

فوج کا کسی کو دشمن قرار دینا اور اس کے خلاف اس کے خاتمے تک جاری رہنے والی جنگ شروع کرنے کا بنیادی مقصد اپنے اور دشمن کے مابین اس فرق اور اختلاف کو واضح کرنا ہوتا ہے جو کم از کم گفتگو میں اپنا حل نہیں رکھتا ۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دشمن اندرونی ہے جس کے خلاف اس کے اپنے ملک کی فوج ہتھیار بکف ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اختلاف، انتشار، اور افتراق کی یہ انتہائی صورت ہوا کرتی ہے ۔ نفسیاتی اتحاد معلوم دشمن کے خلاف ہوتا ہے، ہو سکتا ہے۔ ایسے دشمن کے خلاف جس کی شناخت اور عزائم مبہم ہوں نفسیاتی اتحاد ممکن نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ دشمن پہلے اپنے عزائم اور پھر اپنے طرز عمل سے پہچانا جاتا ہے۔ معاشرتی افتراق اپنی پیچیدہ ترین صورت اس وقت اختیار کرتا ہے جب معاشرے کے مختلف طبقات میں دشمن کی شناخت اور عزائم ہی پر اختلاف ہوجائے ۔ اور ہر طبقہ دوستوں اور دشمنوں کی ایک مختلف اور باہم متصادم فہرست ہاتھ میں لئے پھرتا ہو۔ پاکستانی معاشرہ نفسیاتی اور ذہنی الجھن کے اس مقام پر کھڑا ہے جہاں اس کے پاس اپنے دشمن کی شناخت اور عزائم و افکار کے بارے میں ٹھوس معلومات نہیں ہیں۔

پچاس سے ستر ہزار افراد کی شہادت ایک جگ بیتی ہے مگر ان افراد کی شہادت کے اسباب و رموزکا علم ہرلحظہ بدلتی ہوئی قیاس آرایﺅں پر تکیہ کرتا ہے۔ امریکہ دشمنی میں اپنے وطن کے لوگ ایک ایسے مناقشے میں جان سے جائیں جسے مسجد کا خطیب مذہب پھیلانے کی کوشش اور کفر و ارتداد اور فحاشی اور عریانی کے خلاف جنگ قرار دے۔ ٹیلی ویژن پر اپنے ہم وطنوں کے قاتل کو اپنا بازوے شمشیر زن کہا جائے تومجھ سا ہر عامی یقیناً یہ سوال پوچھے گا کہ قتل ہونے والا تو میری گلی کا باسی تھا اور کسی امریکہ کا گماشتہ نہیں تھا جو کماتا تھا وہی کھاتا تھا اور وہی نظر آتا تھا اگر اس کے قاتل کے مقدّر میں جنّت و حور و قصورہیں تو مقتول کون ہے اور اس کے انجام و آخرت کے ذیل میں فتویٰ کیا ہے؟ قاتل و مقتول کی شناخت کا اختلاط جن نفسیاتی الجھنوں کا سبب بنتا ہے یا بن سکتا ہے، یہ مطالعہ ایک مستقل مضمون ہے۔ یاد رہے کہ مجھ سے ہر عامی کا ذہن قاتل و مقتول دونوں کو ہدایت یافتہ، نجات یافتہ اور جنّت نشین سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے۔ اس کے لئے قاتل و مقتول میں سے کسی ایک کا غلط ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ایک عامی کے لئے خطائے اجتہادی کی مو شگافی بھی مبہم ہے۔ غلطی بہر طور غلطی ہے مفتی کرے یا مقلد ۔

جب الجھن، اختلاف اور انتشار معاملے اور مکالمے کی سطح سے بلند ہو کر خون آشام ہتھیاروں تک آ جائے ایسے میں ہر معاشرہ کچھ بنیادی دستاویزات کی جانب رجوع کرتا ہے اور ان سے ہدایت و رہنمائی کے اصول اخذ کر کے صحیح اور غلط کا تعین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب قاتل اور مقتول اپنے موقف کے برحق اور اپنے انجام بخیر ہونے کی نوید ایک ہی دستاویز سے نکال کر دکھانا شروع کر دیں تو ایسے میں انتشار کے حدود کی پیمائش کون کر سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ایسی دستاویز کا استعمال کہ جس سے متحارب گروہ دلیل لا سکیں معاملے کے حل کا درست طریقہ ہوگا یا مسئلہ کچھ اور یا کہیں اور ہے۔ نفسیات کا مبتدی طالب علم مسئلے کو اس قاتل کی ذہنی پیچیدگی میں دیکھتا ہے جو خاموش دستاویز سے اپنی مرضی کا کلام سنتا ہے۔

افتراق کی اس شور انگیز، زہر ناک اور خون آلود فضا میں کسی کو دشمن قرار دینا اور اس کے خلاف لڑی جانے والی جنگ نفسیاتی اتحاد کا مطالبہ کرنا ایک فکری اساس کا متقاضی ہے کہ جس پر ان دونوں تصورات کی عمارت استوار ہو سکے۔ ہماری موجودہ فکری اساس اور اس کے ماخذ میرے اور میرے دشمن اور قاتل و مقتول کے درمیان فرق، فاصلے اور امتیاز کی نشاندہی کے بجاے اختلاط کی الجھن آمیز صورت حال کا سبب بنتے ہیں۔ اس صورت حال میں نہ تو دشمن کا تعین ممکن ہے اور نہ نفسیاتی اتحاد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments