مادام باوری؛ اس ناول میں جنسی اعمال و افعال کے بارے میں ایسا کیا تھا جو اسے فحش قرار دے کر مقدمے چلائے گئے؟


ایک نقاد اس کے بارے میں کہتا ہے: “His style was achieved through the unceasing sweat of his brow” اس کے اسلوب نے اپنے بعد آنے والے ناول نگاروں کو بے حد متاثر کیا۔ اس فہرست میں موپساں، زولا، ترگنیف، سارتر اور کافکا کے نام نمایاں ہیں۔ مشہور نقاد جمیزوڈ (James Wood) اپنی کتاب How Fiction Works میں کہتا ہے: “Novelists Should Thank Flaubert the way poets thank spring” فلابیئر کے قریبی دوست مصنف میکسم کیمپ کا خیال تھا کہ فلابیئر نے اپنے آپ کو کروسے کے قصبے میں قید کر کے اپنے تجربات اور مشاہدات کو محدود کر لیا ہے۔اسے پیرس میں آکر رہنا چاہیے تھا تا کہ لوگوں سے مل کر زندگی کا وسیع تجربہ حاصل کرتا اور اپنے ناولوں کے لیے مواد حاصل کرتا۔ وہ دنیا کے بارے میں بہت کم جانتا تھا۔ اس نے ساری زندگی اپنی ماں کی گود میں گزاردی۔ اگر کبھی نکلا بھی تو لوسی کے پاس چلا گیا لیکن اس سے ہاتھ چھڑا کر پھر ماں کے پاس چلا آیا۔ کیمپ نے لوسی کو خط میں لکھا: ’’فلابیئر چار سال میں احمق بن جائے گا۔‘‘ فلابیئر نے اس بات کا بہت برا منایا اور جواب دیا کہ وہ جو زندگی گزار رہا ہے اس کے لیے موزوں ہے اور وہ اس زندگی سے مطمئن ہے۔ فلابیئر نے اسی زندگی سے اپنے ناولوں کا مواد اکٹھا کیا اور ’’مادام بواری‘‘ جیسا عظیم ناول لکھ دیااور کیمپ نے اس ناول کو قسط وار رسالے (Revue de Paris) میں شائع بھی کیا۔ ’’مادام بواری‘‘ چھپ کر مارکیٹ میں آئی تو پبلشر اور مصنف دونوں کو عدالت میں بلا لیا گیا۔ ناول پر بہت لے دے ہوئی۔ فلابیئر نے اس ناول میں فرانس کی سوسائٹی اور اس میں رہنے والوں کو بے نقاب کیا ہے۔

مادام بواری ایک عورت کی بدکاریوں کی داستان ہے جو آخر میں ایک برے انجام سے دو چار ہوتی ہے۔عدالت نے وکیل صفائی کے ان دلائل سے متاثر ہو کر پبلشر اور مصنف کو با عزت بری کر دیا اور ’’مادام بواری‘‘ کو ساری دنیا نے فلابیئر کا ایک شاہکار تسلیم کر لیا۔ فلابیئر کے اس ناول کو شروع شروع میں لوگوں نے سمجھا نہیں لیکن مقدمہ ختم ہوتے ہی اسے عظیم شاہکار تسلیم کر لیا گیا۔ فلابیئر کے اسلوب اور اس کی بھرپور فنی صلاحیت کے سامنے سب نے سر جھکا دئیے۔ مشہور نقاد شاعر ایذرا پائونڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا: ’’جو فلابیئر کی نثر سے واقف نہیں، جس نے ’’مادام بواری‘‘ کا مطالعہ نہیں کیا وہ نہ اچھی شاعری کر سکتا ہے نہ اچھی نثر لکھ سکتا ہے…‘‘ ایک نقاد نے زور دے کر کہا: ’’اگر فلابیئر نہ ہوتا تو موپساں بھی نہ ہوتا۔ موپساں فلابیئر کو پڑھ کر ہی موپساں بنا‘‘

اردو ادب کے معروف استاد عارف وقار نے اپنے رنگ میں مادام بواری کا ذکر کیا ہے

ناصر ادیب نے بھی 1988 میں اپنی ٹوپی سے ایک نیا خرگوش نکالا یعنی میڈم باوری کے نام سے ایک فلم۔ پاکستان میں یہ ضیاالحق کا دور تھا جب آرٹ اور کلچر کے خلاف ایک غیرعلانیہ سی جنگ جاری تھی۔ رقص اور پاپ میوزک پر باقاعدہ پابندی عائد تھی۔ تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فلم پر سخت ترین سنسر نافذ تھا۔ شراب نوشی، جُوا، ریس اور طوائفوں کے مناظر دکھانا ممنوع تھا۔ کسی شادی شدہ مرد یا عورت کا کہیں اور معاشقہ نہیں دکھایا جا سکتا تھا۔ فلمی مناظر میں اُس وقت ایک مضحکہ خیز صورتِ حال پیش آتی جب چَھٹے ہوئے بدمعاش اپنے خفیہ تہہ خانے کے اندرعیش و عشرت میں ڈُوبے دکھائے جاتے لیکن ساقی کے فرائض انجام دینے والی خاتون اُن کے گلاسوں میں شراب کی جگہ کوکا کولا اُنڈیل رہی ہوتی۔

اِن تمام تر پابندیوں کے باوجود ناصر ادیب نے 1988 میں’میڈم باوری‘ کے نام سے ایک ایکشن فلم بنائی۔ اس فلم کا عالمی شہرت یافتہ ناول ’مادام بواری‘ سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن ناصر ادیب نے ہر طرح کے سنسر قوانین کو چیلنج کرتے ہوئے اس کہانی میں ایسا مصالحہ بھر دیا تھا کہ یہ گستاوفلابئیر کے کلاسیکی ناول سے بھی زیادہ متنازعہ بن گئی تھی۔

ناصر ادیب کی کہانی ایک ایسی نادار عورت کے گرد گھومتی ہے جو بھوک، غُربت، ارد گرد کے لوگوں کی جِنسی ہوس، پولیس کے ظلم و ستم اور عدالتی نظام کے کھوکھلے پن سے تنگ آ کر بغاوت پر اُتر آتی ہے اور موقعہ ملنے پر سب سے گِن گِن کے بدلے لیتی ہے۔ اس فلم میں لڑائی مار کُٹائی کے مناظر سے لیکر منشیات کی سمگلنگ، بلیک میلنگ، ریپ، جیل سے فرار، اصلی اور نقلی پولیس مقابلے اور تھانے کچہری سے لیکر ہسپتال اور پاگل خانے تک ہر وہ لوکیشن اور سچویشن موجود تھی جو ایک ایکشن فلم کو کامیابی کی ضمانت بخشتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments