خان جیسا لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتا ہے


کل جب وہ اپنی اجلی سفید ٹی شرٹ کے کالر اٹھائے گیند رانوں پر رگڑتا ہوا میدان میں بلے بازوں پر حملہ آور ہوتا تھا تو وکٹ کیپر کی طرف سے عمران بھائی زور سے \"aliکا نعرہ بلند ہوتا، گیند اس کے ہاتھوں سے نکلتی اور نوے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہوئی، بیٹسمین کے چھکے چھڑاتی وکٹ کیپر کے ہاتھ میں ہوتی۔ وہ جب تک بلا ہاتھ میں پکڑے وکٹ پر کھڑا رہتا تھا تو اسٹیڈیم کے انکلوژر خواتین سے بھرے رہتے۔ دوپٹے، رومال اور ہاتھ ہلتے رہتے تھے۔

آج میدان سیاست میں بھی وہی انداز وہی چال ہے۔ جب مائیک کے سامنے للکارتا ہے تو غلغلہ الاماں اٹھتا ہے، وہ صورِاسرافیل کی مانند اؤے پھونکتا ہے تو آواز ننانوے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے ایوانوں میں دبکی حکومت کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ جب تک ڈائس پر کھڑا رہتا ہے مجمعے میں رومال، دوپٹے اور ہاتھ ہلتے ہی رہتے ہیں۔ گزشتہ چالیس سالوں میں دنیا کا نقشہ بدل گیا لیکن کپتان نہ بدلا۔ اس کی مستقل مزاجی میں کوئی فرق نہ آیا۔ بلاشبہ ایسے مستقل مزاج لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

کونسا لیڈر ہے پاکستان میں جس نے انگریزوں کو ایسا سبق پڑھایا ہو کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں؟ یہ خان کا ہی کمال ہے کہ اس نے ان سفید چمڑی والوں سے پیسے بھی نکالے اور ان سے اپنے بچوں کی پرورش بھی انگلستان کی سب سے اونچی سوسائیٹی میں کروا دی۔ ان انگریزوں سے اپنی خدمت بھی کرواتا رہا اور ان کو گالیاں بھی دیتا رہا۔ سچ پوچھو تو ہمارے خان نے ان فرنگیوں سے نہ صرف برصغیر کا بلکہ افغانستان کا بدلہ بھی سود سمیت لے لیا ہے۔ آسٹریلیا سے امریکہ اور انگلستان تک خان نے ہر جگہ فتح کے ایسے جھنڈے گاڑھے ہیں کہ ان کا ریکارڈ مستقبل بعید میں بھی کوئی اور توڑتا نہیں دیکھائی دیتا ہے۔

کرکٹ کا ورلڈ کپ ایسا جیتا کہ دنیا کو یاد رہا۔ کرکٹ کی تاریخ میں شاید ہی ایسا ہوا ہو کہ کسی ٹیم نے اوسط کی بنیاد پر عالمی کپ اٹھایا ہو جو خان کی قیادت میں پاکستان کی ٹیم نے کیا۔ اپنے دشمن ہندوستان کو اس کے عوام کے سامنے شکست دے کر بنگال میں اپنے چچا نیازی کا بدلہ بھی لے لیا۔ ورلڈ کپ کی وکٹری سپیچ میں اپنی مرحومہ ماں کے نام کے ہسپتال کا اعلان کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ان کو اس عالمی کپ میں اتنے پیسے ملے کہ آج تک شہزادوں کی زندگی گزار رہا ہے۔ ہے ایسا کوئی اور جو آرام و آسائش کی زندگی چھوڑ کر لوگوں کو ظلم و جبر سے نجات دلانے کے لئے میدان میں نکلا ہو؟ ایسا لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔

پاکستانی تاریخ کا سب سے لمبے عرصے کا دھرنا دینے والا کپتان تو استعفیٰ لئے بغیر واپس ہی نہ جاتا اگر ان کے خلاف پشاور پبلک سکول میں سازش نہ ہوئی ہوتی۔ جب شام کو دھرنے کے دوران کپتان اپنے کنٹینر کی چھت پر چہل قدمی کر رہا ہوتا تھا تو وزیر اعظم ہاؤس میں نواز شریف کے پیچھے خواجہ اصف ہاتھ میں ٹشو پیپر کا ڈبہ لئے چل رہا ہوتا تھا۔ جب رات کو اپنی پوری گھن گرج کے ساتھ تقریر کر رہا ہوتا تھا تو محمود خان اپنی چادر لپیٹ کر سو جایا کرتا تھا اور اپنے ٹی وی والے کمرے میں نہیں جاتا تھا، اسفندیار ولی خان ملک سے بھاگ گیا تھا فضل الرحمٰن نے اپنے مصاحبین سے کہا تھا کہ اس کی گاڑی میں ڈالنے والے تیل کو کچھ بھی کہا جائے مگر ڈیزل ہرگز نہ کہا جائے۔ قادری صاحب کو غلط فہمی تھی کہ دھرنے میں آنے والی خواتین ان کی مریدنیاں ہیں حالانکہ وہ سب ہمارے خان کی پرستار تھیں جن میں سے ایک تو باقاعدہ خود چل کر قاضی کے پاس گئی اورتاریخ رقم کی۔

احتساب ہمارا خان ایسا کرنے والا ہے کہ ایسا آج تک کسی فوجی نے بھی نہیں کیا ہوگا، اگر ایسا احتساب نہ ہوا تو پھر احتساب کا دفتر ہی بند ہوگا۔ خیبر پختونخوا میں آج کسی کو جرات ہی نہیں کہ کرپشن کرے اس لئے وہاں اب احتساب کا دفتر ہی نہیں ہے۔ وہاں سے تمام پٹواریوں نے اپنا تبادلہ پنجاب کروا دیا ہے کیونکہ اب کے پی میں زمین کے انتقال کا کام خود بخود ہونے لگ گیا ہے۔ ہسپتال میں مریض کم اور ڈاکٹر زیادہ ہیں یہی کام سکولوں میں ہے جہاں طلبہ کم اور اساتذہ زیادہ ہیں۔ پختونخوا میں سرکاری ہسپتالوں میں دوائی اور علاج مفت ہونے کی وجہ سے اسلام آباد میں پرائیوٹ ہسپتال اور کلینک بند ہو رہے ہیں۔ صوبہ پختونخوا میں سارے پرائیوٹ سکول بند ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے دجالی میڈیا اور پٹواریوں کے ایجنٹ انقلابی حکومت کے خلاف پروپگنڈا کر رہےہیں۔

لینن، ماؤ، منڈیلا اور کاسترو کا انقلاب صرف دنیاوی انقلاب تھا۔ انقلاب کا جو نظریہ خان کا ہے وہ آفاقی ہے۔ اس انقلاب سے دین اور دنیا دونوں کی بھلائی ہوگی۔ خان مدرسوں اور مساجد سے وابستہ علمائے کرام کو ساتھ لے کر چلتے ہیں تاکہ انقلاب کے بعد لوگوں کی دینی رہنمائی بھی کی جاسکے۔ مدرسوں کے نصاب کو جدید دنیا سے ہم آہنگ کرنے اور ان کو ٹیکنالوجی کے اسلحے سے لیس کرنے کے لئے حقانیہ کے دارلعلوم کو تیس کروڑ کی رقم کا اجرا بھی خان کی انقلابی سوچ کا مظہر ہے۔ اس حقیر سی رقم سے ایک تو کپتان کے احتجاجی دھرنوں میں ان مدارس سے انقلابی طلبہ دستیاب ہوں گے اور پھر جب انقلاب آئے گا تو اس کی حفاظت بھی احسن طریقے سے اسلامی اصولوں کے عین مطابق ممکن ہو سکے گی جس میں منحرفین کو کوڑے اور سرکشوں کی سر کوبی شامل ہے۔ اس کام میں حقانیہ سے بہتر کون ہوگا جس کو افغانستان میں اس کام کا وسیع تجربہ ہے۔ ہے ایسی سوچ کسی اور میں؟ کوئی ان سا ہو تو سامنے آئے؟

ایک طرف جامعہ حقانیہ سے آئے صوم و صلوٰۃ کے پابند تہجد گزار اسلام کے سپاہی اور دوسری طرف ایچی سن اور روٹس کے چلبلے بچے جو ڈی جے بٹ کی انقلابی دھنوں پر ساری ساری رات دھمال ڈالتے ہیں سب کو اکھٹا کرکے ایک انقلابی قوت بنا کر مزاحمت کرنا صرف اسی لیڈر کا کمال ہے جو صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ دنیا گواہ ہے کہ کراچی، لاہور اور اسلام آباد ہر جگہ دشمن نے خان کی ریلیوں میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے انقلابی خواتیں کو بدنام کرنے کی کوشش کی مگر انھیں منہ کی کھانی پڑی۔ یہ خان ہی ہے جس کے ہر جلسے اور ریلی میں رند و ملا، طالب و مطلوب مرد و زن سب ایک ساتھ تھرکتے ہیں وگرنہ یہاں نہ ملا اکھٹے رہ سکتے ہیں نہ رند۔ ایسی کرامات والا لیڈر ہے کوئی اور؟

گزشتہ صدیوں میں جو اکھٹے نہ ہو سکے وہ شیعہ اور سنی، بریلوی اور دیوبندی، اہل حدیث اور اہل کشف و کرامات سب نے آج خان ہی کے سائے تلے ایک ہو کر یہودو نصٰاریٰ کو انگشت بدندان کر رکھا ہے۔ جب سے دو نومبر کے دھرنے کا اعلان ہوا ہے دہلی میں مودی سرکار کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔ افغانستان میں اشرف غنی نے چھٹی کی درخواست دے دی ہے اور امریکہ والے ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی انتخابی مہم سست روی کا شکار ہوچلی ہے کہیں جیتنے کی صورت میں اُسے عالم اسلام کے اس نڈر بے باک اور دبنگ سپوت کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ اس لئے تو ان کی تحریک کو ناکام بنانے کے لئے ان سب نے مل کر سازشیں شروع کی ہیں اور کوئٹہ میں پولیس ریکروٹمنٹ ہاسٹل کا واقعہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ خان ایک مضبوط چٹان کا نام ہے وہ ایک دفعہ فیصلہ کرتا ہے تو اپنے ضمیر کی بھی نہیں سنتا۔

پاکستان کے وفاق سے اختلاف کرنے والوں کی ایک تاریخ ہے جن میں سندھیوں، بلوچوں اور پشتونوں کے کئی رہنما شامل ہیں لیکن کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ اسلام آباد میں بیٹھے فرعون حکمرانوں کو وہاں جا کر للکار سکیں۔ یہ خان ہی ہے جس نے تقریباً چار مہینے تک ان کا محاصرہ کئے رکھا اور اب ان ظالم حکمرانوں کے حقہ پانی بند کرنے کی پھر تیاری ہے۔ مورخہ دو نومبر کو اللہ کے حکم سے جب خان بنی گالہ سے، ان کا جرنیل پرویز خٹک پشاور سے اور ان کا خزانچی جہانگیر ترین لاہور سے اپنی اپنی افواج کی ساتھ تینوں اطراف سے اسلام آباد پر یلغار کریں گے تو یہاں بیٹھے مودی کے یاروں، پٹواریوں کی سرکار کو اور پنجاب کی گلو بٹ پولیس کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔ ہے کوئی ایسا جس نے ایسی جرات کا مظاہرہ کیا ہو؟

واقعی خان جیسے لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments