بزدل کون ہے، حکمران، دہشت گرد یا ہم؟


\"Sadia\"غالباً پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ اپنا ہی لکھا ہوا بار بار لکھ کر مٹایا ہے۔ بار بار کاٹا ہے کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ قریب دو گھنٹے ہوئے کاغذ اور قلم تھامے، مسہری کی سائیڈ ٹیبل پر کافی کا بڑا مگ رکھے کہ چوکس رہوں اور کوئی اس کھلے گھر میں نہ گھس آئے۔ کنڈی کون لگائے اب۔ جی اول دن سے آپ جیسے مہربانوں کی تعریف نے گردن میں کچھ ایسا سریا فکس کر دیا ہے کہ ہمیشہ یہی گمان ہوا کہ الفاظ تو اپنے گھر کی باندی ہیں۔ ہاتھ باندھے کھڑے رہیں گے سدا۔ لیں یہ نہ بتایا کہ عورت ذات کا باندیوں اور غلاموں جیسی لگژری سے کیا واسطہ۔ قلم جیسی طاقتور بلا اس کے قبضے میں کیونکر آنے لگی؟ ہمیشہ جب بھی لکھا بس دل میں آتے جذبات کا طوفان ہی کاغذ پر رقم کیا۔ لکھنا وکھنا تو کیا تھا۔ بقول فیض صاحب کے

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

دل سے جو بات نکلی اس کے پر تو کبھی نہ نظر آئے البتہ طاقت پرواز تو گزارے لائق تھی ہی۔ لیکن نجانے آج کیا ماجرا ہے۔ دل بھی بوجھل ہے۔ وہ اضطرابی کیفیت بھی طاری ہے جو کسی بھی تخلیقی پراسیس کا شاخسانہ کہی جاتی ہے۔ مگر یہ نیم تاریک کمرہ ہے کہ کاغذ کے ان گولوں کا میدان جنگ بنا ہی جا رہا ہے۔ ہر طرف یہ لفظ اپنے ہی سفید کفن میں لپٹے یوں بے یار و مددگار پڑے ہیں کہ جیسے۔۔۔ ارے جانے دیجئے۔ کیا رکھا ہے ان بے تکے لفظوں میں۔ لاشوں کے لیے بھی کوئی تلمیح اور استعارہ کبھی کام آیا ہے بھلا؟ وہ کیا کہا کرتے ہیں \’جو ڈر گیا وہ مر گیا۔\’ لیکن کڑوا سچ سنیں اصل بات تو یہی ہے کہ جو مر گیا وہ مر گیا۔ کوئی دوا، کوئی دلاسہ، کوئی نوحہ کس کام کوچ کر جانے والی روح کے۔ جی حضور، بے روح لفظ ہیں جو اس وقت اپنی ہی ذات کے کفن میں اس بے حس ٹھنڈے سفید فرش پر یوں بکھرے پڑے ہیں کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ واپس آنے کا تو سوال ہی نہیں۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔۔۔ ہمیں خبر ہی نہیں۔ صاحب آپ ہی ٹوک دیتے بھلا۔ خیر سب بے معنی ہے۔ ٹیلی ویژن پر تو اس خاکسار نے کبھی بند کرنے کے علاوہ نظر ڈالی ہی نہیں۔ شور سے کچھ جی گھبراتا ہے ہمارا۔ خبروں اور سیاسی شوز کا تو ذکر ہی رہنے دیجئے۔ وہی روز کا ایک ہی ڈھنڈورا، روز کا وہی بے سروپا طوفاں بدتمیزی۔ لیکن اب ایسے بھی حالات نہیں کہ اس اپارٹمنٹ سے باہر کی دنیا سے بےخبر ہیں۔ کیا ہوا جو آج آسمان نہیں دیکھا۔ حالات حاضرہ سے تو کوئی دشمنی نہیں نا۔ جو رغبت الفاظ سے ہے وہی اخبار اور سوشل میڈیا سے بھی۔ رات کو ٹویٹر کے  notifications کی وجہ سے فون برابر بجتا رہا۔ کیا کبھی کوئی بری خبر کا بھی راستہ روک پایا ہے؟ دل چیر کر ہی دم لیتی ہے یہ خون آشام بلا۔ معلوم ہوا کہ کوئٹہ میں کوئی ساٹھ کے لگ بھگ پولیس کیڈٹ دہشت گردوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر چکے۔ جی شہید ہوئے ہیں یعنی تاحیات امر! وہی بہادر کڑیل جوان کہ جن کے بارے میں مادام نور جہاں نے گایا تھا

\’ایہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے\’

سچ کہا صوفی غلام مصطفیٰ تبسم صاحب نے کیا جم کے گایا نور جہاں نے۔ بیٹے کم سے کم دکانوں کے شو کیسوں میں تو قطعی نہیں ملتے۔ یخ بستہ شیشے کی ان دکانوں میں کوئی چیز مفت تھوڑا ہی ملتی ہے بھلا۔ یہ تو مفت کی جانیں تھیں۔ انسان ہے ہی کیا، مٹی کا ڈھیر، جہاں سے نکلا وہیں کو واپس۔ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں۔ شہادت کے تمغے، خون میں بھری لاشیں، گھروں میں اپنے بیٹوں کی راہ تکتی مائیں، سرخ جوڑے میں ملبوس دلہنیں، سرکاری انعام، سبز پرچم میں لپٹے تابوت، کھوکھلے دلاسے، پریس کانفرنسیں، شہیدوں کے گھر کے دورے، تصویریں، میڈیا کوریج، کمیٹی کی تشکیل وغیرہ وغیرہ۔۔۔ چار دن، بس چار دن۔ مرے دماغ کی سکرین کیسے آف ہو گئی؟ میں نہیں جانتی۔ یہ شور میری جان لے لے گا۔ آپ کی قسم

بہت عرصہ ہوا جارج آرویل صاحب کی ایک کتاب پڑھی تھی \’ Animal Farm \’ کے نام سے۔ ہماری زبان میں کہئے تو جانوروں کا باڑا۔ فدویہ کی یادداشت بھی کمال ہے۔ ابھی پوچھیے تو یہ نہیں بتا پائیں گے کہ صبح ناشتے میں کیا کھایا تھا۔ لیکن برسوں پہلے پڑھا یہ جملہ یاد رہ گیا۔

All animals are equal, but some animals are more equal.

ہماری زبان میں کہئے تو ’’یوں تو سب جانور برابر ہیں لیکن کچھ جانور زیادہ ہی برابر ہیں۔‘‘ سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے۔ ہمارا ذہن تو اس قدر شل ہے کہ کسی بھی قسم کی بصیرت کا متحمل نہیں۔ اب آپ کہیں گے کہ داستان دل میں یہ جارج آرویل صاحب کا ذکر کہاں سے۔ اصل میں شومئی قسمت کہ ایک نظر اپنے محترم وزیر داخلہ چودہری نثار صاحب کے اس بیان پر پڑ گئی جس میں انہوں نے کہا

’آج میرے اور پاکستان کے لیے دکھ کا لمحہ ہے۔‘

ارے جانے دیجئے صاحب۔ پاکستان کی بات تو ذرا سمجھ میں آتی ہے وہ بھی زیادہ نہیں کہ یہ واقعہ تو بلوچستان میں پیش آیا تو پورے پاکستان \"nisar-ali-khan-june\"کا ذکر کیسے اور کہاں سے؟ اور جہاں تک آپ کی بات ہے تو یہ کس مخمصے میں ڈال دیا ہمارے کمزور دماغ کو۔ بار بار یہی جملہ اپنی سکرین پر فلیش مار مار کر آ رہا ہے وہ بھی پورے زناٹے سے۔۔۔تڑاخ تڑاخ۔۔۔ ٹھا ٹھا۔۔۔ وزیر صاحب آپ کی ذات اقدس کے لیے یہ مقام دکھ کا ہے یا شرم کا؟ کچھ سمجھ نہیں آئی۔ ساٹھ بے گناہ لاشوں پر ایک پریس کانفرنس کرنے سے پہلے یہ سوچ تو لیا جاتا کہ آیا وہ لعل اس تمغے کی تلاش میں پولیس کالج گئے تھے یا ٹریننگ حاصل کرنے؟ اور یہ بزدلی دشمن کی ہے یا آپ کی کہ تمام تر شواہد اور ثبوتوں کی موجودگی میں بھی دہشت گرد عوامل کی تعریف مختلف صوبوں اور صورت احوال میں مختلف ہے؟ دشمن کی کمر توڑی جا رہی ہے یا زیتون کے تیل سے برابر مالش کی جا رہی ہے؟

خدا جانے یہ دشمن بزدل ہے یا ڈھیٹ جو ٹوٹی کمر کے باوجود بھی آپ ہی کی سیکورٹی فورسز کے جوانوں کو یوں خون کی ہولی نہلاتا ہے کہ آپ کی اپنی زبان بھی سچ بولتے ہوئے کانپ سی جاتی ہے۔ مانا کہ کچھ بھی آپ کے اختیار میں نہیں کہ ڈور تو کسی اور ہاتھ میں ہے۔ آپ کی سنتا ہی کون ہے سوائے ای سی ایل کی فائل پکڑے افسر کے۔ خدارا کچھ کر نہیں سکتے تو یہ شہادت اور بزدلی کے استعارے بھی اپنے پاس رکھیے۔ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ جیسا کہ آپ منتخب حکومت کے نمائندے ہیں تو ہمیں اس سوال کا حق تو دینا ہی ہو گا کہ پاکستان کے دل کے بائی پاس ( جسے آپ پیار سے اورینج میٹرو ٹرین منصوبے کے نام سے پکارتے ہیں۔۔۔ غالباً از راہ تفنن) کی لاگت لگ بھگ 250 ارب روپے ہے۔ اور بلوچستان کے سب سےبڑے شہر کی اس پولیس اکیڈمی کی نحیف دیواریں دہشت گردوں کو روک بھی نہ بن پائیں؟ یہ تو وہ تھے جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ ان بلوچوں کا کیا کہنا جو یوں کھوئے کہ آج نہ زندوں میں شمار ہیں نہ مردوں میں۔ اور ہم کہیں گے بھی نہیں کہ جان پیاری ہے صاحب۔ ابھی ہم نے دیکھا ہی کیا ہے؟

خدا ہی جانے اس وقت بزدل کون ہے۔ آپ، ہم یا دشمن؟ کوئی کھچڑی سی ہے۔ دماغ کی اسکرین ہے کہ فلیش اور زناٹے دار تھپیڑوں کا کوئی ریلا۔؟ واللہ اعلم

اجازت دیجئے کہ اس ٹھنڈے سفید فرش پر بکھری اپنے ہی کفن میں لپٹا لاشوں کا ڈھیر بھی تو اٹھانا ہے۔ بے تکے اور بے معنی لفظ تھے۔ یہ لیجئے نئے بھی آ گئے۔ کاغذ کے گولے ہی ہیں نا۔ کچھ کم برابر سے۔ جھاڑو کا ایک وار اور سب صاف۔ کون ہے جو حساب رکھے اور حساب لے۔ سلام صاحب!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments