اعتراف جرم


\"ehtasham-gerdezi\"میں نے عدنان خان کاکڑ صاحب کے مضمون \”ڈارون کی ارتقا کی تھیوری غلط ہے\” پر غلط فہمی کی بنیاد پر جواب لکھا تھا ۔ میں نے اپنی دانست کے مطابق اس مضمون کا جواب تحریر کیا۔ مجھے قطعاً اس بات کا علم نہ تھا کہ جناب کا یہ مضمون satire ہے اور وہ اس طرح کے مضمون لکھ کر مجھ جیسوں کو اپنے جال میں پھانستے ہیں، ظاہر ہے کہ میری حس مزاح بہت ہی کمزور ہے۔ میں نے اپنی تحریر اس لیے \”ہم سب\” کو ارسال کی کہ یہ ایک سنجیدہ تحریر ہے اور لکھاری نے جو غلطیاں کی ہیں، میں اپنی معلومات کے مطابق ان کی نشاندہی کر دوں۔ میری تحریر کے معیار پر یقیناً سوال اٹھایا جا سکتا ہے کیوں کہ میں کوئی لکھاری ہر گز نہیں ہوں، اس پر معذرت بھی چاہتا ہوں۔ اس مضمون کو شائع کرنے کے بعد ذاتی طور پر مجھ پر جو حملے دانشوروں نے کیے، اس کا مجھے دکھ ہے۔ میرے مضمون پر کوئی رائے دینے یا کوئی درستی کرنے کی بجائے دانشوروں نے میری پروفائل کو چیک کیا اور حسب توفیق میری حوصلہ افزائی کی۔ اگر میں کسی کیڈٹ کالج سے پڑھا ہوں تو اس میں اس مضمون کا کیا تعلق جو میں نے لکھا۔ عدنان خان کاکڑ صاحب نے فرمایا :

\”محترم راول کیڈٹ کالج سے پڑھے ہوئے ہیں اور سائنس پر مکمل گرفت رکھتے ہیں۔ مضمون سے ظاہر ہے کہ جیالوجی کے ماہر ہیں، یعنی پتھر اٹھانے، جانچنے اور مارنے وغیرہ پر مکمل مہارت رکھتے ہیں\” بھئی اگر میں کہیں سے پڑھا ہوں تو اس تحریر اور ادارے کا کیا تعلق؟ (اب میں پھر اس بات کی طرف نہیں جاؤں گا کہ جیالوجی صرف پتھر اٹھانے، جانچنے اور مارنے تک محدود نہیں ہے اور نہ ہی میں نے یہ کہا تھا کہ میں مہارت رکھتا ہوں میں نے عرض کی تھی کہ میں ایک طالب علم ہوں )

مجھے وجاہت مسعود صاحب کی تنقید پڑھ کر حیرت ہوئی۔ یقین جانیے آپ کے کرائے گئے تعارف سے مجھے بہت حوصلہ ملا ہے۔ میں نے اظہار رائے کے طور پر \”ہم سب\” کو اپنی تحریر بھیجی، مجھے علم نہیں کہ انھوں نے ایک ایڈیٹر اور دانشور کی حیثیت سے کس حق کے تحت تحریر پر ایسی تنقید کی۔ یا تو آپ یہ کہیں کہ اس فورم پر صرف دانشور حضرات ہی لکھ سکتے ہیں اور صرف وہی پڑھ سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر کوئی عام آدمی اپنی فہم کے مطابق کوئی تحریر سمجھے اور اس پر اپنی رائے پیش کرے تو وہ گستاخی کا مرتکب ہو گا اور اس پر یوں طعنہ زنی کی جائے گی!

\”الحمدللہ، قوم میں سید احتشام حیدر صاحب گردیزی جیسے صاحبان دانش موجود ہیں۔ جو نہ صرف یہ کہ سائنس جانتے ہیں بلکہ ہمہ وقت سائنس کی ترویج پر کمر بستہ رہتے ہیں ۔ ہم سب کافی عرصے سے جانتے ہیں کہ عدنان خان کاکڑ نامی ایک شخص اوٹ پٹانگ تحریروں کے ذریعے کم علم اور تاثر پذیر نوجونوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ عدنان خان مذکور خود کو بیک وقت سائنس ، سیاست، معیشت اور تاریخ وغیرہ کا عالم بتاتا ہے اور اپنی ہزلیات کو طنز نگاری کا وقیع نام دیتا ہے۔ مشکل یہ تھی کہ کوئی احتشام گردیزی جیسا صاحب علم نظر میں نہیں تھا جو عدنان کاکڑ کا پول کھولے۔ افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر ۔۔۔ ایں ہم بچہ شتر است\”

اب مجھے کیا علم کہ ایک شخص اپنی اوٹ پٹانگ تحریروں سے کم علم اور تاثر پذیر نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے میں نے پہلے کاکڑ صاحب کا کوئی مضمون پڑھا نہیں تھا، اگر میں عدنان خان کاکڑ صاحب کا مضمون پڑھ کر سائنسی نقطہ نظر سے غور کرنے اور جواب لکھنے کی غلطی نہ کرتا تو شاید میری اتنی عزت افزائی نہ ہوتی۔

مجھے اس بات کا افسوس رہے گا کہ ہمارے دانشور حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ کل عوام انہی کی سوچ کے مطابق سوچتے اور سمجھتے ہیں اور انھیں دانشوروں کی سوچ کے مطابق ہی چلنا چاہیے اور وہ اختلاف رائے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ اور ہر کسی کو ایسا ہی سمجھنا چاہیے جیسا کہ ہم لکھتے ہوئے قاری سے توقع رکھتے ہیں۔ شاید میری طرح ہر کسی کی حس مزاح اتنی بہتر نہیں ہوتی کہ وہ سائنس پر لکھے گئے مضمون کو بھی طنز سمجھے اور یوں وہ مزاحیہ دانشوروں کی گستاخی کا مرتکب ٹھہرتا ہے ۔ مجھ سے بھی گستاخی ہو گئی اس حس مزاح کی شان میں ۔

میں نے کالم کو سنجیدگی سے پڑھا تھا اور جس فیلڈ کا طالب علم ہوں اس کے مطابق جو غلطیاں مجھے نظر آئیں جواب لکھا۔اب ہر کوئی ادب کی صفات اور satire سے واقف تو نہیں ہوتا کہ اور یہی میرا جرم تھا کہ میں نے کالم کو انتہائی سنجیدہ لیا اور اس کا جواب لکھا ۔

ڈاکٹر عامر میر صاحب نے اس satire مضمون پر جو لکھا ہے اس کا کچھ حصہ یہاں لکھ دیتا ہوں اور دانشوروں سے میری بھی یہی عرض ہے !

\”فیس بُک، ویب سائیٹ، اخبار، ٹی وی وغیرہ یہ عام اور خاص سب کے لیے ہیں۔ یہ سب ماسز کے لیے ہیں۔ یہ صرف انٹیلیکچولز کی دنیا نہیں ہے۔ یہاں ٹیکسی ڈرائیور سے لے کر پی ایچ ڈی حضرات سب موجود ہیں۔ آپ نے یہاں طنز کچھ ایسا کرنا ہے جو ہر خاص و عام کو سمجھ آئے اور اگر آپ اپنی طرف سے کوئی بہت ہی اعلی پائے کا پیس لکھ بیٹھے ہیں تو پھر اسے خواص کے سامنے ہی پیش کیجیئے۔ عام آدمی،غیرمتعلقہ شخص اور وہ شخص جو آپ کے سٹائل کو نہیں جانتا؟ آپ کے طنز کو نہیں سمجھ پائے گا؟\”

نیز جو لوگ ڈان پر شائع ہونے والے ندیم ایف پراچہ صاحب کے ملالہ پر لکھے گئے کالم کا موازنہ اس سائنسی مزاحیہ مضمون سے کر رہے ہیں ان سے عرض ہے وہ مضمون سیاسی اور سماجی تناظر میں لکھا گیا تھا نہ کہ ڈارون کی ارتقا کی تھیوری پر،  ندیم ایف پراچہ کے اس کالم کا لنک موجود ہے۔

عبداللہ حسین نے کہا تھا لکھنے والا جو بھی لکھتا ہے اس میں ہمیشہ آدھے معانی ہوتے ہیں باقی آدھے معانی پڑھنے والے تک ہوتے ہیں ۔میں نے بھی انھی آدھی معانی کو سمجھ کر لکھا جو کچھ لکھا یہ جانے بغیر کہ دانشوروں کی اس بھیڑ میں کوئی عام آدمی لکھنے کی غلطی نہیں کر سکتا، اور اختلاف رائے رکھنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔

میں اپنی غلطی تسلیم کر چکا ہوں، یقیناً دانشوروں کی گستاخی ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ اگر \”سر تن سے جدا\” کا حکم ہو تو بندہ حاضر ہے۔۔۔


یہ اعتراف کا معاملہ نہیں: وجاہت مسعود جواب دیتے ہیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments