یہ اعتراف کا معاملہ نہیں


محترم بھائی احتشام گردیزی،\"wajahat1\"

آپ نے عدنان خان کاکڑ صاحب کے مضمون \”ڈارون کی ارتقا کی تھیوری غلط ہے\” کے جواب میں اپنی تحریر عنایت کی۔ یہ تحریر بلا تاخیر شائع کی گئی۔ آپ نے اپنے سائنسی علم کی بنیاد پر پڑھنے والوں کی درست رہنمائی کی۔ عدنان خان کاکڑ صاحب کی تحریر طنزیہ تھی اور دراصل انہوں نے ان حلقوں کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کی تھی جو اپنے پہلے سے طے کردہ خیالات کی بنیاد پر سائنسی تحقیق کو جھٹلاتے ہیں اور دلیل کے نام پر تعصب پھیلاتے ہیں۔
’ہم سب‘ اردو لکھنے اور پڑھنے والوں کا ایک اجتماعی پلیٹ فارم ہے۔ اس پر سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی تحریریں شائع ہوتی ہیں۔ ’ہم سب‘ کا بنیادی مقصد سوشل میڈیا میں ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے جہاں ہم اردو لکھنے اور پڑھنے والے اس خوف کے بغیر ایک دوسرے سے بات کرسکیں کہ ہمارے خیالات کی بنیاد پر ہمیں برا قرار دیا جائے گا یا ہماری توہین کی جائے گی یا ہمیں نفرت کا نشانہ بنایا جائے گا۔ ’ہم سب‘ پر لکھنے والی اپنے لہجے اور انداز تحریر میں آزاد ہوتے ہیں۔ کوئی افسانوی انداز بیان اختیار کرتا ہے۔ کوئی ادبی طریقے سے اپنی بات کہتا ہے۔ کوئی ٹھوس دلائل پیش کرتا ہے، کوئی حکایت کی زبان میں اپنی بات کہتا ہے۔ کوئی لکھنے والا سائنسی حقائق پیش کرتا ہے تو کوئی علمی نکات پیش کرتا ہے۔ کوئی مزاح کے رنگ میں لکھتا ہے تو کوئی طنز کا پیرائیہ اپناتا ہے۔ ’ہم سب‘ ہر طرح کے لکھنے والوں کو ایک جیسی عزت دیتا ہے اور ہر لکھنے والے کو مساوی رتبہ دیتا ہے۔
آپ نے اپنی تحریر میں \”دانشور\” کا لفظ استعمال کیا ہے۔ آپ کے بیان سے ایسا تاثر ملتا ہے گویا دانشور ایک خاص وضع قطع رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں اور کوئی مخصوص خیالات رکھتے ہیں۔ دانشور کا لغوی مطلب ہے، عقل رکھنے والا۔ عقل کا تعلق تو رسمی تعلیم سے بھی نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ صرف اسی شخص کو عقلمند سمجھا جائے جس نے کالج یونیورسٹی میں تعلیم پائی ہے۔ تاہم توقع یہ کی جاتی ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ بہتر معلومات اور مہارتوں کے باعث زیادہ ذمہ داری سے بات لکھے اور کہے گا۔ ہمارے ملک میں خواندہ آبادی کی تعداد صرف پچاس فیصد ہے، دس کروڑ سے زیادہ لوگ لکھنا، پڑھنا نہیں جانتے۔ یونیورسٹی گریجوایٹس کی شرح چار فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اس صورت حال میں ہمارے ملک کا ہر تعلیم یافتہ شہری ملک کا اثاثہ ہے اور اسے ہم سب کی اجتماعی دانش کا حصہ سمجھنا چاہئے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ کوئی سو برس پہلے ہمارے ملک میں جدید اور قدیم تعلیم کی تفریق کی گئی۔ دونوں طبقوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا ارادہ کیا۔ دونوں طبقے ایک دوسرے کو برے برے ناموں سے پکارتے تھے۔ اسی کشمکش میں \”دانشور\” کا لفظ حقارت کے معنوں میں استعمال کیا گیا۔ دانشور ملک کا قیمتی اثاثہ ہے اور ہم آپ کو، جیسا کہ ہم نے آپ کی تحریر سے سمجھا، ایک دانشور انسان سمجھتے ہیں۔
آیئے ایک دوسرے نکتے پر غور کرتے ہیں۔ علم ایک کلی مظہر ہے۔ علم کے مختلف شعبوں میں تخصیص ہوتی ہے۔ کوئی ارضیات کا علم حاصل کرتا ہے تو کوئی فلکیات کا، کوئی ادب پڑھتا ہے تو کوئی تاریخ، کوئی حیاتیات کا علم حاصل کرتا ہے تو کوئی کیمیا دان ہوتا ہے۔ علم ایک دوسرے کی تخصیصی مہارت کا احترام کرنے سے آگے بڑھتا ہے۔ جو بھی سنجیدگی سے اپنے شعبے میں علم حاصل کرتا ہے وہ علم کی مجموعی کمیت، حجم اور قدر میں اضافہ کرتا ہے۔ سائنس اور ادب دو مختلف اور متحارب دنیائیں نہیں ہیں۔ قابل تصدیق شواہد کی بنیاد پر آگے بڑھنے والے سائنسی علوم اور فکری علوم مثلاً ادب اور فلسفہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔ سائنس کا علم وہ مادی حالات پیدا کرتا ہے جن میں اقداری علوم کے لئے زیادہ جگہ پیدا ہوتی ہے۔ سائنس کی تحقیق کو فکر اور تجسس کی جو آزادی درکار ہے اس آزادی کا تحفظ ادب اور فلسفے جیسے علمی میدانوں میں کیا جاتا ہے۔ سائنسی علوم اور فکری علوم ایک دوسرے کے لئے متحارب نہیں ہیں۔ علم زیرو سم (Zero sum ) گیم نہیں ہے۔ علم کے ایک شعبے میں جو نئے آفاق دریافت کیے جاتے ہیں، ان سے دیگر علوم بھی برابر کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ فرائیڈ کی نفسیات کو قدیم ڈرامے کے علم سے کیسے الگ کیا جائے؟ کارل مارکس کی معیشت کو یونانی اساطیر سے الگ کیسے کیا جائے؟ اقبال کے شعر کو انیسویں صدی کی سائنسی دریافتوں سے الگ کیسے کیا جائے؟ یہ ممکن نہیں ہے۔ معاشرے میں علم کو آگے بڑھانے کے لئے ہم سب کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔

واضح کرتا چلوں کہ عدنان خان کاکڑ طنز نگار ہیں۔ طنز کا پہلو جس قدر چھپا ہو، اس کی کاٹ اسی قدر بڑھ جاتی ہے۔ جس نے اس تحریر کو طنز سمجھ کر پڑھا، اس کی مہربانی۔ جس نے سنجیدگی سے زیر بحث موضوع پر رہنمائی کی، اس نے پڑھنے والوں کی مدد کی۔ ان سب تحریروں کو شائع کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ ایک اہم موضوع یعنی ارتقائے حیات پر سوچنا چاہیے۔ ہم سب کا مقصد یہی ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ کریں۔ عدنان خان کاکڑ نے آپ پر تنقید کی تو انہوں نے اپنے منصب کی پاسداری کی۔ آپ نے عدنان خان کی تحریر میں پائے جانے والے مغالطے واضح کیے تو آپ نے سائنس دان کی حیثیت سے اپنا فرض پورا کیا۔ آپ نے بتا دیا کہ آپ نے اس سے قبل کبھی عدنان کاکڑ کی تحریر نہیں پڑھی تھی۔ اس لئے غلط فہمی قرین قیاس تھی۔ اس میں اعتراف وغیرہ کا معاملہ نہیں۔ گزارش یہی ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کو پڑھتے رہیں اور ایک دوسرے کے علم، ہنر اور ذہانت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھیں۔

جہاں تک میرے تبصرے کا تعلق ہے تو میں صرف یہ عرض کروں گا کہ میں نے ’ہم سب‘ کی ویب سائٹ پر آپ کی تحریر بغیر کسی تبدیلی اور تبصرے کے شائع کی۔ تبصرے کی چند سطور میں نے ذاتی فیس بک پیج پر ضرور لکھیں اور وہ دراصل اسی طنزیہ پیرائے میں تھیں چنانچہ میں نے جان بوجھ کر اپنے عزیز دوست عدنان خان پر تنقید کی تھی۔ اس کے باوجود اگر آپ کی دلآزاری ہوئی تو اس پر دلی معذرت۔ دوبارہ عرض ہے کہ ’ہم سب‘ نے بطور ادارہ آپ کی تحریر کو روکنے یا آپ کی مخالفت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

آپ نے اپنی تحریر کے آخر میں \”سر تن سے جدا\” وغیرہ کرنے کا ذکر کیا ہے۔ تو عرض ہےکہ انسان دوست سوچ کسی سر کو تن سے جدا کرنے کی حمایت نہیں کرتی۔ ہمارا نصب العین یہی ہے کہ ہر تن پر سر سلامت رہے اور ہر سر میں علم کی روشنی بڑھتی رہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ اسی طرح اپنے علم کی روشنی میں سائنس کی حقیقتیں بیان کرتے رہیں اور ’ہم سب‘ کی رہنمائی کرتے رہیں۔


اعتراف جرم از احتشام گردیزی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments